کالمز

"وقت اور علم کا نذرانہ”، سب کی ضرورت

تحریر: امیرجان حقانی

آج پرنس کریم آغاخَان کی سالگرہ ہے.تمام اسماعیلی بہن بھائیوں کو مبارک ہو.گلگت ڈویژن میں حکومت گلگت بلتستان کی طرف سے عام تعطیل ہے.پرنس کریم آغاخَان کی بدولت ہم بھی چھٹیاں منارہے ہیں. مجھے ایکس اسپیکراسمبلی وزیر بیگ صاحب کا وہ بات یاد آرہا ہے جو انہوں نے اہل سنت کے وفد سے کہا تھا کہ "ہم اسماعیلی اور اہل تشیع اپنے آئمہ کے ایام ولادت و شہادت پر چھٹی کرلیتے ہیں اور سرکاری سطح پر بھی منوایا ہے.آپ بھی ایسا کرسکتے ہیں لیکن کرتے نہیں،جس میں کسی اور کا نہیں آپ کا اپنا قصور ہے. آپ کے ممبران اسمبلی اس کی ڈیمانڈ کیوں نہیں کرتے تاکہ ہم فورا اسمبلی سے قرارداد منظور کریں”.

پرنس کریم آغاخان نے اپنے فالورز کو ایک سوچ اور فکر دی ہے. یہ ایک ایسا نظریہ ہے جس میں سراسر فائدہ ہی فائدہ ہے.معاشرے کی ترقی ہے. انسانیت کی خدمت ہے. پرنس کریم آغاخَان بھیک لینے اور دینے کے قائل نہیں ہیں. وہ ہنر دینے کی بات کرتے ہیں. اور تعلیم ان کا موٹو ہے.جدید تعلیمی ماہرین سے سروسز لینا ان کا فرمان ہے. وقت کی نبض پکڑ کر فیصلے کرنا ان کی فطرت ہے. اپنے فالورز کو وقت سے چار قدم آگے کی تلقین کرنا اور عملی طور پر ایسا ماحول مہیا کرنا ان کی پلاننگ میں شامل ہے.اگر "مال امام” لیا بھی جاتا ہے تو اس کی واپسی معیاری اداروں کے قیام کی شکل میں کی جاتی ہے جو بہر حال مستحسن ہے.

پرنس آغاخَان کا فرمان "وقت اور علم کا نذرانہ” عملی طور پر دراصل ان لوگوں کے لیے ہے جو سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں جاب کرتے ہیں اور ان لوگوں کے پاس مختلف قسم کے سکلز ہیں. آغاخَان صاحب کا کہنا ہے کہ آپ اپنے وقت اور علم و ہنر سے تھوڑا سا حصہ اپنے مذہبی اور رفاہی اداروں کے لیے بطور نذرانہ پیش کیجے تاکہ کمیونٹی کی خدمت بہتر طریقے سے کی جاسکے.

پرنس صاحب کے اس نظریہ/فرمان کے مطابق گلگت بلتستان اور چترال کےتمام سرکاری، نیم سرکاری اداروں کے ملازمین اور دیگر ہر فیلڈ کےباہنر اور اہل علم لوگ امامتی اداروں سے جڑے ہوئے ہیں.بینک میں ملازمت کرنے والے پارٹ ٹائم امامتی اور رفاہی اداروں میں اکاونٹ کے معاملات دیکھتے ہیں. پولیس اور فوج سے متعلق آفیسر اور سپاہی فارغ وقت میں امامتی اداروں کے سیکورٹی کے معاملات سنھبالتے ہیں. اساتذہ اور تعلیم سے متعلق احباب تعلیمی اور سماجی امور کے معاملات میں امامتی اداروں کے معاون بنے ہوئے ہیں. غرض ہر طبقہ کے لوگ فرصت میں اپنے مذہبی اداروں کو شاندار سروسز مہیا کررہے ہیں.اور مزے کی بات یہ سب کچھ فخریہ طور پر کیا جارہا ہے اور کرنا بھی چاہیے. ان لوگوں کی معاونت سے ان کے مذہبی ادارے اور رفاہی و تعلیمی ادارے اوج کمال کو پہنچے ہوئے ہیں. ان اداروں میں امور بھی تقسیم ہیں.کوئی ادارہ دوسرے کے کام میں نہ مداخلت کرتا ہے نہ کرنے دیا جاتا ہے.نہ ان کے آئین میں اس کی گنجائش ہے. تقسیم اختیارات اور چیک اینڈ بیلنس کا شاندار مظاہرہ یہاں دیکھنے کو ملتا ہے.اطرب مذہبی، Akes تعلیمی اور ریجنل کونسلات انتظامی معاملات ڈیل کرتے. اسی طرح دیگر کام بھی اداروں میں تقسیم ہیں.ان کے کسی ادارے یا آفس کا وزٹ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کس شاندار انداز میں یہ ادارےکام کر رہے ہیں. ان اداروں میں کل وقتی ملازمین بھی ہیں مگر اکثر لوگ وہ ہیں جو "وقت اور علم کا نذرانہ” والے فرمان پر عمل کرکے اپنے مذہبی اداروں کو کم وبیش فری میں سروسز دے رہے ہیں.تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات سے بھی خدمات لی جاتی ہیں. انہیں مختلف کاموں کے لیے رضاکارانہ طور پرانگیج کیا جاتا ہے. امامتی ادارے تمام سرکاری اور دیگر اداروں سے ہمیشہ رابطے میں رہتے ہیں اور بہت سارے کام سرکار کیساتھ اشتراک وتعاون اور حکومت کی اجازت سے انجام دیتے ہیں جو قابل ذکر بات ہے.پرنس کریم کا فرمان ہے کہ سرکار اور کمیونٹی کی معاونت و اشتراک سے کام کیا جائے.گلگت بلتستان اور چترال میں سرکار کی معاونت و اجازت اور لوکل کمیونٹی کے تعاون سے سینکڑوں ادارے اور ہزاروں پروجیکٹ چل رہے ہیں. پرنس کریم صنفی امتیاز پر بھی یقین نہیں کرتے. عورت کو بھی سماج کا بھرپور حصہ قرار دیتے ہیں اور ان سے بھی سروسز لی جاتی ہیں.شعبہ ہائے زندگی میں خواتین ہرجگہ نظر آتی ہیں. ان کے اس نظریے کی بدولت دیامر جیسے یک طرفہ مسلک کے ہسپتال میں بھی ساری ان کی نرسیں اسپتالوں کو سنبھالے ہوئیے ہیں. گوہرآباد جیسے گاؤں میں بھی ڈیلوری کی ایمرجنسی کیسیز ڈیل کررہی ہوتی ہیں. انتظامی طور پر بھی خواتین باقاعدہ شامل ہیں. ریجنل کونسل کی جنرل سیکریٹری بھی ایک خاتون پروفیسر ہیں.خواتین بااختیار ہیں اور خود کو معاشرے کا بھرپور حصہ سمجھتی ہیں اور بڑی حد تک اپنی ذات کی متعلق بھی فیصلے خود کرتی ہیں.

یہ انداز کسی حد تک اہل تشیع برادری کے احباب بھی اپنائے ہوئے ہیں لیکن ابھی ان میں بھی اتنا شعور اور رہنمائی نہیں.خال خال لوگ اپنے مذہبی اداروں کو بہترین سروسز دے رہے ہیں. مشاہدہ یہی بتاتا ہے کہ مستقبل قریب میں یہ حضرات بھی ایسا سسٹم ڈیویلیپڈ کریں گے جس کے تھرو ان کے تمام اہل علم و ہنر اپنے اداروں کو بڑی حد تک بہترین سروسز مہیا کریں گے.

میں روز سوچتا ہوں کہ جی بی کی اہل سنت برادری کا کوئی لیڈر اٹھ کھڑا ہوجائے اور اپنے لوگوں سے "وقت اور علم کا نذرانہ” مانگے. سرکاری اور نیم سرکاری ملازمین اور دیگر باہنر اور اہل علم حضرات سے مسجد و مدرسہ اور رفاہی اداروں اور تعلیمی اداروں کے لیے چندہ مانگنے کی بجائے ان سے فری میں سروسز مانگے.ایک ایسا سسٹم وضع کرے کہ شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے تمام لوگ فی سبیل اللہ کچھ نہ کچھ دینی اداروں کو سروسز دے سکیں اور سکون و ثواب کی دولت سے مستفید ہوجایئں.ان لوگوں کو احساس دلائے اور انہیں مکمل عزت و توقیر بخشے کہ آپ جہاں کہیں بھی ملازمت اور کام کرتے ہیں، کرتے رہیے مگر تھوڑا سا وقت، علم اور ہنر اپنے دینی اداروں کو بھی دیں.تاکہ سسٹر کمیونٹی کی طرح تمہارے ادارے بھی بام عروج کو پہنچے.اے کاش! ایسا ہوجاتا.

کیا ہی بات ہوتی کہ کسی دینی مدرسہ اور جامعہ کے تعلیمی معاملات میں پروفیسروں اور ماہرین تعلیم سے خدمات لی جاتی.ادبی اور تحقیقی کاموں پر محققین اور ادباء سے وقت مستعار لیا جاتا.

کسی مسجد اور مدرسے کی تعمیرات میں انجیںرز اور آرکیٹکس سے سروسز کا ڈیمانڈ کیا جاتا.صفائی اور ستھرائی کے لیے میونسپل والے کو بلایا جاتا. رفاہی اور تعلیمی اداروں اور مدرسوں کے اکاونٹس کو کوئی بینکر اوراکنامسٹ دیکھتا. فنڈ رائسنگ اور پروپوزل رائٹنگ وغیرہ کے امور این جی اوز والے احباب نمٹاتے. سیکورٹی کے معاملات میں فوجی اور پولیس کی رہنمائی لی جاتی. منیجمنٹ میں کسی منیجر کی جبکہ ایڈمنسٹریشن میں ڈی ایم جی لیول کے افسران کی سروسز لی جاتی. پبلیکشن اور میڈیا کی سروسز کے لیے صحافیوں کو انگیج کیا جاتا.باغات اور نرسریوں کے لیے زراعت اور فارسٹ اور ڈیری فارمز کے لیے لائیو اسٹاک والوں کو مدعو کیا جاتا.

غرض ہر انسان سے اس کے علم و ہنر اور اس کے فیلڈ میں خدمات لی جاتی تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اہل سنت کے تعلیمی اور رفاہی ادارے اور مذہبی ادارے کس عروج کو پہنچیں گے؟

ہمارے ہاں تو المیہ یہ ہے کہ ایسا سوچنا بھی گناہ تصور کیا جاتا ہے بلکہ اپنے اختیارات میں مداخلت گردانی جاتی ہے. سرسید کی اولاد کا طعنہ دیا جاتا اور دنیا دار کہہ کر دھتکار دیا جاتا ہے.المیہ یہ ہے کہ یہ باصلاحیت ملازمین اور دیگر ماہرین فن بھی اپنے دینی اداروں کو جسٹ دعا اور ختم قرآن کے ذریعے ایصال ثواب تک کے لیے محدود سمجھتے ہیں. اور کوئی زیادہ ہمت کرے تو اپنی صدقات و زکواۃ وہاں جمع کراتے اور بس.

میرے جیسا کوئی پاگل فری ٹائم میں فری خدمت کرنا بھی چاہیے تو اسے ٹیکنیکل طریقے سے ذلیل کیا جاتا ہے. طعنے ملتے ہیں. اور پھر ڈرایا بھی جاتا ہے کہ آپ کو خطرہ بھی ہوسکتا. بہر صورت ایسا ہونا ممکن نہیں مگر سوچنے اور کہنے پر پابندی بھی نہیں.میں خواب دیکھنے کا عادی انسان ہوں، آج نہیں تو کل تعبیر مل جائے گی. آنے والی نسلوں کو نقوش چھوڑ رہا ہوں. وہ خود بہتر فیصلہ کریں گے کہ ان کو کیا کرنا ہے اور وہ کیا بہتر کرسکتے ہیں. اور ان سے وقت کیا ڈیمانڈ کرے گا.دیکھتے جائے گا. وقت سب سے بڑا قاضی ہے. اپنا فیصلہ سناکر ہی دم لے گا.

پرنس کریم آغاخَان کے اس نظریہ(وقت اور علم کا نذرانہ) پر برادر کمیونٹیز بھی عمل کرکے گلگت بلتستان اور چترال کو سونے کی چڑیا بناسکتی ہیں اور اپنے اپنے اداروں کو آغاخانی مذہبی و تعلیمی اور رفاہی اداروں کی طرح عروج پر لے جاسکتی ہیں اور ایک خوشحال اور باصلاحیت کمیونٹی کا مقام حاصل کرسکتی ہیں.اگر ایسا ہوا تو پورے خطے میں استحکام و استقلال ہوگا. مقابلے کی ایک دوڑ ہوگی. ہر مکتب فکر تعمیر و ترقی میں خود کو سرفراز کرنے کی تگ و دو کرے گا.

اگر کسی کو سمجھ آئی ہے میری بات تو دعا دیجے. ورنا حسب سابق فتوی لگانے اور احساس کمتری کا طعنہ دینے سے گریز کریں.کیونکہ میری سوچ اور میرے خواب پر میرا پورا پورا اختیار ہے. آپ کو کوئی حق نہیں بنتا مجھے لتاڑنے کی.. اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button