کالمز

عدالت اور قانون ساز اسمبلی ٹکراؤ

تحریر: ثروت صبا

گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی اور گلگت بلتستان چیف کورٹ پراسیکیوشن ایکٹ کے حوالے سے اختلاف کے راستے پر گامزن نظر آئے.

 گلگت بلتستان حکومت نے تقریباً دو درجن افراد کو کئی سال قبل بطور پبلک پراسیکیوٹر عارضی طور پر تعینات کیا تھا.پچھلی نظیروں کو سامنے رکھتے ھوئے ان پراسیکیوٹر حضرات کا مطالبہ تھا کہ ان کی خدمات کے پیش نظر اسمبلی کی قانون سازی کے ذریعے انہیں مستقل کیا جائے. ان آسامیوں کو کھلے مقابلے کے ذریعے پر کرنے کے لئےپبلک سروس کمیشن کو نہ بھیجا جائے. جبکہ وکلاء کا کہنا تھا کہ پبلک پراسیکیوٹر کا عہدہ گریڈ سترہ کا ھے. اور تمام ملازمتیں جو گریڈ سترہ یا اس سے اوپر کی ہوں ان کو کھلے مقابلے کے ذریعے میرٹ لسٹ کے مطابق تقرر ضروری ھے. اسمبلی کے ممبران باربار اس طرح کی قانون سازی کے ذریعے نہ صرف من پسند افراد کو چور دروازے سے بھرتی کرتے بلکہ قانون وانصاف کی بھی دھجیاں اڑاتے ہیں.

اس سلسلے میں وکلاء نے چیف کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن بھی دائر کی تھی. جس کو عدالت نے منظورکیا تھا اور متعلقہ محکمے کو ھدایت کی تھی کہ پبلک پرسیکیوشن کی مذکورہ تمام آسامیاں وفاقی پبلک سروس کمیشن کو بھیجی جائیں اور مسابقتی امتحان کے ذریعے تعیناتی عمل میں لائی جائیں. مگر حال ھی میں قانون ساز اسمبلی نے ایک سلیکٹ کمیٹی بنائی اور اس کو عارضی ملازمین کی مستقلی کی بابت سفارشات تیار کرکے اسمبلی میں پیش کرنے کی ذمہ داری سونپ دی. وکلاء برادری نے اس سے یہ اخذ کیا کہ پراسیکیوٹر کو قانون سازی کے ذریعے مستقل کرنے کی دوبارہ کوشش ھونے لگی ھے. چنانچہ وکیلوں نے عدالت میں توھین عدالت کی درخواست گزاری جس پر عدالت نے متعلقہ فریقوں کو نوٹس جاری کئے.

مختلف ذرائع سے معلوم ھوا ھے کہ اسمبلی ممبران اس بل اور سفارشات کے معاملے پر مختلف الخیال تھے. بلکہ ان کی اکثریت اس کے خلاف تھی. جونہی عدالت سے نوٹسز ملے، ارکان اسمبلی طیش میں آگئے اور نہ صرف اس ایکدٹ کو متفقہ طور پر پاس کیا بلکہ دوران بحث چیف کورٹ اور اس کے معزز ججوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا. معزز ارکان اسمبلی کا  خیال یہ ھے کہ اسمبلی قانون سازی کے لئے آزاد ھے اور عدالتی نوٹس اسمبلی کے اختیار میں دخل اندازی ھے.

اس سارے واقعے میں غور کرنے کی بات یہ ھے کہ کیا قانون ساز اسمبلی ہر طرح کی قانون سازی کے لئے واقعی آزاد ھے؟ اور کیا واقعی عدالت کے نوٹس سے اس کا استحقاق مجروح ھوسکتا ھے؟

ان سوالوں کا درست جواب تو ماہرین قانون وآئین ہی دے سکتے ھیں. مگر یہ ایک عام فہم کی بات ھے کہ قانون ساز اسمبلی ہر قسم کی قانون سازی کے لئے مطلق العنان آزادی نہیں رکھتی. اس کے پاس قانون سازی کے صرف وہ اختیارات ھیں جو مختلف گورننس آرڈرز کے ذریعے اس کو ملے ھیں. ان لسٹوں سے ھٹ کر قانون سازی اس اسمبلی کے اختیار میں نہیں. نیز آئین پاکستان گوکہ گلگت بلتستان میں نافذ نہیں لیکن اس کی روح  پر عمل کرنا لازم ھے. اس آئین میں تمام شہریوں کو سول سروس میں یکساں مواقع فراھم کرنا، لازمی اور خلاف ورزی کو استحصال قرار دیا گیا ھے.

اسی لئے حکومت پاکستان نے 1973 کے آئین کی روشنی میں سول سروس ایکٹ اور سول سروس رولز بناکر آئینی تقاضوں کو پورا کیا ھے. ان آئینی اور قانونی اصولوں کے مطابق کوئی اسمبلی ایسا قانون بنانے کا اختیار نہیں رکھتی جو شہریوں کے درمیان مواقع کی فراہمی میں تفریق کرے. ایسی قانون سازی نہ صرف آئین کی روح کے خلاف ھے بلکہ جمہوری اصولوں اور مہذب معاشرتی ضابطوں کی بھی خلاف ورزی ھے. پھر عدالتی نوٹس پر ارکان اسمبلی کا اشتعال میں آنا اور غصے میں بل پاس کرنا بھی افسوس ناک ھے. کیا ان ارکان کو غصے اور رد عمل کے بغیر کچھ سمجھ میں نہیں آتا؟ وہ بیٹھ کر اپنی عقل اور فہم کو بھی کام میں لاکر کوئی فیصلہ بھی تو کر سکتے تھے. جو معاملہ پہلے سے عدالت میں ھو اس کو پاکستان کی قومی اسمبلی بھی عدالتی فیصلہ ھونے تک زیر بحث نہیں لاتی. مگر ھمارے ارکان اسمبلی ماشاء اللہ اتنے خود مختار ھیں جوش خطابت اور غصے کے زیراثر سب کچھ بھول گئے ۔یہاں گلگت بلتستان میں آوے کا آوا بگڑا ہوا جب چاہے جج صاحبان اپنے پیاروں کے لئے کوئی رول بناتے اور اپنے عزیزوں کے لیے نئے ڈیپارٹمنٹ بنا کر ڈیپوٹیشن کے ذریعے سات سے سترا میں پہنچاتے تو معزز اسمبلی کے ارکان نے کہاں پیچھے رہنا اور اپنا قانون بنا کر غریبوں کے ارمانوں کا خون کرتے ہیں۔

یہاں سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ اسمبلی کے ارکان کب تک چور دروازے سے لوگوں کو بھرتی کرتے رہینگے؟ قوم کے بچوں کو کب یکساں بنیادوں پرسرکاری ملازمتوں تک پہنچنے کا موقع ملے گا؟ کیا جمہوریت اسی کا نام ھے کہ 25 ارکان اسمبلی کبھی ایک بہانے سے اور کبھی دوسرے بہانے سے استحصال، جانبداری اور اقربا پروری کو تحفظ دیتے رہینگے؟ ارکان اسمبلی کب ایک دوسرے کو حاجی صاحب کہتے رہینگے؟ إن غریب عوام کے  بچوں کو مواقع کون فراھم کرے گا جنہوں نے بڑی امیدوں سے ان ارکان کو منتخب کر کے ایوان میں بھیجا ھے. عوام کو بے وقوف سمجھنے اور بےوقوف بنانے کا یہ عمل زیادہ دیر چلنے والا نہیں.

 ارکان اسمبلی کو اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاھیے اور اس طرح کی پھرتیاں دکھانے سے اجتناب کرتے ھوئے اس استحصالی بل کو واپس لینا چاھیے. سب کے سامنے گلگت بلتستان کے وہ غریب نوجوان موجود ہیں جن کی مائیں گھی اور دودھ بیچ کر بچوں کو پڑھاتی اور جب بچہ گھر میں کچھ عزت سے کما کر لانے کے قابل ہوتا ہے تو بڑی مچھلیاں اس ماں کے ارمانوں کو کسی بل کے ذریعے یا سفارش کے ذریعے کھا جاتی اور غریب اپنے ارمان  لے کر یا تو خود کو دریا کے سپرد کرتا یا پھر کسی اور شہر میں ہوٹل میں لوگوں کو کھانا سرو کرتا نظر آتا۔۔

میری ارباب اختیار سے التماس ہے غریب کی آہ عرش ہلاتی ہے۔  کسی کو خوش کرنے کی خاطر اپنی عاقبت خراب نہ کریں۔   ہر انسان نےایک نا ایک دن کہیں جوابدہ ہونا ہے۔ تب آپ کا کوئی رشہ دار آپ کے لیے کچھ نہیں کر سکے گا جو آپ نے دنیا میں بویا ہوگا خود آپ کی ذات کو کاٹتا ہو گا۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button