صحافت کے لبادے میں چھپی ملازمت
شریف ولی کھرمنگی ۔ سکردو
جب بدتمیزی ، تعصب اور جہالت کے مرکب کو صحافت کا نام دیا جائے تو ایسے ہی بقراط، افلاطون اور ارسطو نظر آتے ہیں جیسے آجکل پاکستان کی نیوز فیکٹریوں میں۔ نیوٹرل ہونے کا مطلب ان تھرڈ ڈویژن ، بعض پرائیویٹ، اور بعض پارٹ ٹائم ڈگری والے تنخواہ دار ملازمین کی ڈکشنری میں یہی ہے کہ کبھی اس جماعت کو گالی نکالے، تو کبھی اس جماعت کو، کبھی مذہب پر تنقید کے نشتر چلائے تو بھی علمائے دین کی عزتوں کو نیلام کرنے کی کوشش کرے، مذہبی و مذہبی منافرت کیلئے مواقع ڈھونڈنا تو کبھی قوم پرستی کی آڑ میں علاقائی تعصب کا سامان کرنے کی ہر ممکن کوشش۔ غیر جانبداری کی آڑ میں درحقیقت یہ ٹیکٹکس بھی سادہ لوح عوام سے اپنی اصلیت چھپانے کا ایک طریقہ ہے ورنہ ہر ایسے نیوز فیکٹری ملازم کی ڈوریں کسی فیملی آمریت یا دیگر اشرافیہ کی لونڈی جماعت کیطرفسے ہلا رہی ہوتی ہے، مسلکی و علاقائی تعصب کے پروردہ افراد کے پالے ہیں تو کوئی نام نہاد لبرلزم کے پرچارک۔ کئی ایسے صحافی جنہیں نامور اور افلاطونی فلاسفہ جھاڑ کر دانشوری میں بے مثال سمجھے جاتے ہیں، وہ باقاعدہ لینڈ مافیاز، ذخیرہ اندوزی کرنے والوں، جاگیر داروں اور بعض دیگر کے مراعات یافتہ ہیں۔ انکی لسٹیں نہ صرف سوشل میڈیا اور بلاگز میں بآسانی مل جاتی ہیں بلکہ کئی کتب ان کی داستانوں سے مزین ہیں جو صحافت کی آڑ میں عہدوں اور مراعات کیلئے وہ کچھ کرگزرے جو بدنام سیاستدانوں سے بھی نہیں ہو پاتے۔ اب تو ملک کے گوش و کنار میں قائم نیوز فیکٹریوں کی ایک لمبی فہرست مرتب کی جاسکتی ہے، جن میں سے بعض بڑے نام تو باقاعدہ حکمرانوں، سیاسی، مذہبی اور علاقائی جماعتوں کو بلیک میل کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ بآسانی کوئی انکے کنٹرول میں نا اسکے تو الزام تراشی، جھوٹی خبریں منسوب کرنے، مخالف جماعت کے اونچا بولنے والوں کو اکسانے اور بعض اوقات خود انہی جماعتوں کے لوز ٹاک کرنیوالوں ، عہدوں سے محروم رہ جانے والوں وغیرہ کو بلا کر، انکے انٹرویوز لیکر اور نیوز چھپوا کر شور ڈالتے اور مشہوری کا سامان کر لیتے ہیں۔ ان حرکتوں سے جہاں نیوز فیکٹری کی واہ واہ ہوتی ہے ، وہیں ایسے رپورٹ کرنے اور پروگرام ہوسٹ کرنے والوں کی پزیرائی اور مشہوری ہوجاتی ہے۔ در اصل نیوز فیکٹریوں کے ملازم سیاسی و سماجی افراد کے بیانات، انکے منصوبہ جات، اعلانات، خامیوں اور بعض اچھے کاموں کو ہائی لائٹ کرتے ہوئے اپنی مشہوری کرنے کا سامان کررہے ہوتے ہیں، وہ بھی اپنی فیکٹری سے بھاری تنخواہ اور مراعات لیتے ہوئے۔ جبکہ عوام سمجھتی ہے کہ یہ صحافت کے نام پر بڑے خدمت خلق انجام دینے والے لوگ ہیں۔ یہ بات بہت کم لوگ سمجھتے ہیں کہ دراصل نیوز فیکٹری کے ملازم دن بھر خبریں ڈھونڈنے کی مزدوری کررہے ہوتے ہیں۔ یہ مزدوری چونکہ ذمہدار سیاسی و سماجی افراد ، سماجی امور ، سیاسی اور دیگر بلاواسطہ عوام سے مربوط ایشوز سے متعلق ہوتی ہے اس لئے عوامی سطح پر یہ لوگ مزدوری کے ساتھ ساتھ مشہوری بھی بھرپور کمانے کی کوشش کرتے ہیں، افسوسناک بات یہ ہے یہی طریقہ کار پوری دنیا میں رائج ہے، البتہ پروفیشنل دیانتداری ، خوش اخلاقی ، اور غیر جانبداری ایسے اصول ہیں جو ملک کے اندر اور باہر پڑھے لکھے، پروفیشنل صحافیوں کا وطیرہ رہا ہے، انکو کسی سیاسی جماعت کی خبر پر آگ نہیں لگتی، انکو دشنام دینے میں خوشی محسوس نہیں ہوتی، کسی خاص سیاسی جماعت کی غلط حرکت کا دفاع کرنا انکو اچھا نہیں لگتا، مخصوص سوچ و فکر کو لیکر دن رات اسی کی وضاحت میں لگے رہنا لازمی نہیں سمجھتے، بے باک اور مخلص ہونے کیساتھ عزت و احترام کے قائل ہوتے ہیں، اپنے ساتھ دوسروں کی عزت نفس کا خیال رکھنا لازم سمجھا جاتا ہے، اور انہی خصلتوں کی وجہ سے عوام اور خواص دونوں میں انکی عزت و شہرت دونوں برقرار رہتی ہے۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ بندر کے ہاتھ میں استرے کے مصداق ملکی میڈیا اور نیوز فیکٹریوں میں بدتمیزی، ادارتی بددیانتی، جانبداری جیسے امراض رچ بس چکے ہیں، چند ایک حقائق کیساتھ عوام کو الو بنانے کیلئے مبہم، غیر مربوط، غیر ضروری، اکثر و بیشتر لوگوں کی ذاتی اور خاندانی امور کو ملانے میں یہی نیوز فیکٹریاں اور انکے مزدور صف اول میں ہوتے ہیں جن کی دیکھا دیکھی عوام بھی انہی چیزوں کو اچھالنے کو اپنی زمہداری اور سماجی فریضہ سمجھ بیٹھتی ہے۔ پس حقیقت یہی ہے کہ عوام اور خواص کے اذہان میں بسی یہ بے سمتی، سچ اور جھوٹ کا اچار، حقیقی ایشوز اور غیر ضروری و بے ربط امور کی مکسچر، ملکی سیاسی و قومی امور سے زیادہ ذاتی اور فیملی امور پر تبصرے وغیرہ وغیرہ انہی لا ابالے مزدوروں کے تحفے ہیں جن سے چھٹکارا پانا ناممکن نہیں مگر بہت مشکل ضرور ہے۔ اسکے لئے ضروری ہے کہ لوگ حقایق پر خود سے غور و فکر کرنے کی روش اپنائے، متعصب، بدتمیز ، بلیک میلنگ کرنے والے، اور حقائق کو مسخ کرکے عوامی سوچ و فکر کو منتشر کرنے والوں کی برملا حوصلہ شکنی کرے، قومی و ملی امور میں غلط روش ڈالنے والی نیوز فیکٹریوں کی پالیسیوں کو عام افراد تک وضاحت کیساتھ پہنچانے کی کوشش کرے۔ یہ بات پلو سے باندھ لے کہ بدتمیزی اور لوگوں کی عزت و احترام، ذاتی و فیملی امور کو اچھالنے والا کسی طور بھی نیوٹرل صحافی نہیں ہوسکتا، مشہوری اور واہ واہ کا بھوکا کبھی بھی با صلاحیت اور پروفیشنل اقدار کا پاسدار نہیں ہوسکتا، اختلاف رائے پر بدزبانی، تہمت اور ذاتیات پر اترنے والا صحافتی اقدار سے نابلد اور جہالت کا مرکب ہی ہوسکتا ہے۔ بہت سے ایسے افراد بھی نیوز فیکٹریوں کے اچھے تابعدار ملازم بنے ہوئے ہیں جو اچھی معلومات اور کھوج لگانے میں تو ماہر ہیں مگر اخلاقیات اور تہذیب و تمدن سے عاری اور مکمل بے بہرہ ہیں، ایسا اسلئے ہے کیونکہ انکو سکول کالج سے پڑھنا تو آگیا ہوتا ہے مگر گھر بار اور سماج سے اچھی تربیت نہیں ملی ہوتی۔ سوشل میڈیا کی وساطت سے عام فہم افراد بھی اب یہ معاملہ بہت اچھی طرح سے سمجھ سکتا ہے کہ ایسے افراد اپنی خبر نگاری کو بہت بڑی اتھارٹی سمجھتے ہیں، اپنی بات حرف آخر، مبنی بر حقیقت، مگر جینوئین اعتراض و اختلاف بھی برداشت کرنے کی صلاحیت ان میں نہیں ہوتی بلکہ فورا ہی لڑائی جھگڑا شروع کرنے لگ جاتے ہیں۔ خود اپنی ذات اور اپنی فیملی سے اس بات کو یقینی بنانا ضروری بنائے کہ تحقیق و جستجو کے بعد ہی کسی معاملے پر تبصرہ کیا کرے تاکہ منفی سوچ لیکر من مرضی نتائج نکالنے کی کوشش کرنے والے خبر نگار اور ادارے اپنے عزائم میں ناکام و نامراد رہے۔