چترال(گل حماد فاروقی) چترال میں تین مزید افراد میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوگئی۔ مریضوں کی تعداد بڑھ کر 9 ہوگئی۔
محکمہ صحت کے ترجمان پبلک ہیلتھ کو آرڈینیٹر ڈاکٹر نثار اللہ کے مطابق مسماۃ بی بی سارا عمر 24 سال سکنہ دمیل دروش جس نے پشاور کا سفر کیاتھا، جبکہ عبد الاعظم عمر 47 سال ولد حاجی خان سکنہ تریچ کا ٹیسٹ بھی پازیٹیو آگیاہے۔ اس مریض کا تعلق اپر چترال سے ہے اس نے بھی پشاور کا سفر کیا تھا۔ جبکہ شیر زمان ڈرائیور ولد محمد نواز خان سکنہ عشریت جو پشاور سے آیا تھا اور گرین لینڈ کے قرنطینہ مرکز میں تھا اس کا ٹیسٹ بھی آج پازیٹیو آگیا۔ اس طرح چترال میں کرونا وائریس کی مریضوں کی تعداد نو ہوگئی۔ ڈرائیور شیر زمان سکنہ عشریت ریچ سے تعلق رکھنے والے مریض کو عشریت سے بونی لے گیا تھا جس کی وجہ سے اس ڈرائیور کو بھی کرونا وائیریس کی بیماری لگ گئی۔
واضح رہے کہ یہ مرض نیچے اضلاع سے چترال آنے والے لوگوں کے ذریعے منتقل ہوے ہیں۔ شہروں سے آنے والے زیادہ افراد قرنطینہ میں رہنے کی بجائے سیدھے اپنے گھروں کو جارہے ہیں جس کے باعث یہ مرض پھیلتا جارہا ہے۔
لوئیر چترال کے مریضوں کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال چترال میں داحل کردیا گیا، جہاں کورونا وائریس کے مریضوں کی تعداد چھ ہوگئی ہے۔ ضلع اپر چترال کے مریض تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتال بونی میں زیر علاج ہیں۔
چترال میں کورونا وائریس کی بڑھتی ہوئی تعداد سے عوام میں شدید تشویش پائی جاتی ہے جبکہ بعض حلقے ا س بات پر بھی پریشان ہیں کہ چترال کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال میں سہولیات کی فقدان کی وجہ سے نہ صرف مریضوں بلکہ ڈاکٹروں کیلئے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ اس وقت DHQ ہسپتال میں صرف چار ونٹی لیٹرز ہیں جس میں ایک حراب بتایا جاتا ہے اور باقی تین کو چلانے کیلئے بھی کوئی تربیت یافتہ عملہ نہیں ہے جبکہ ہسپتال میں مریضوں کی تعداد سات ہیں۔ ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے ڈپٹی کمشنر کو بار بار لکھا ہے کہ وہ ہسپتال میں ڈاکٹروں کی کمی کو پورا کروائے اور ضروری سامان، مشنری منگوائے جس میں فی الحال ڈپٹی کمشنر ناکام نظر آتا ہے جبکہ دوسری طرف عوامی حلقے اس بار پر بھی شدید غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں کہ قرنطینہ مراکز میں SOP کا کوئی حیال نہیں رکھا جاتا ایک ایک بیڈ پر دو سے زیادہ لوگ رکھے جاتے ہیں اور جو مشکوک مریض ہیں ان کے ساتھ دوسرے صحت مند لوگ بھی اکھٹے رکھ کر ان کو بھی مریض بنایا جاتا ہے جبکہ نیچے اضلاع سے آنے والے لوگ چوری چھپے اپنے گھروں کو سیدھا جاتے ہیں اور عشریت سے یا قرنطینہ مراکز سے لانے والے لوگوں کو بھی ایک گاڑی میں کئی افراد بٹھائے جاتے ہیں جو حلاف قانون ہیں اس سے یہ بیماری مزید پھیلنے کا حطرہ ہے۔
چترال کے سیاسی اور سماجی طبقہ فکر نے صوبائی اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ چترال کے دونوں اضلاع کے ہسپتالوں میں ونٹی لیٹرز، لیبارٹری، سکینر اور دیگر سامان و مشنری ہنگامی بنیادوں پر بھجوایا جائے تاکہ اس وباء پر بروقت قابو پایاجا سکے۔