گلگت بلتستان کی تعمیر و ترقی میں ٹیکس کا کردار
تحریر : عباس رہبر
کوئ بھی ریاست یا اس ریاست کی اکائ اپنی ضروریات کہ جن میں نظام حکومت ، امن و امان ، اپنے شہریوں کو بنیادی ضروریات ذندگی ( پانی ، روٹی ، کپڑا ، رہائش ) ، تعلیم ، صحت ،سڑکیں، وغیرہ جیسی سہولیات شامل ہیں، اپنے شہریوں اور دیگر اداروں سے ٹیکس وصول کر کے ہی فراہم کرسکتی ہے ۔ ٹیکس کا نظام ایک ایسا نظام ہے کہ جس میں حکومت مالدار سے وصول کر کے وسائل غریب عوام کی فلاح و بہبود پہ خرچ کرتی ہے اور یوں وہ ریاست اور وہ معاشرہ زندہ و قائم رہتا ہے ۔
گلگت بلتستان ایک ایسا خطہ ہے جو غربت ، بیروزگاری ، کچی سڑکیں ، کچے مکانات ، ناقص صحت ، کمزور تعلیمی نظام ، چھوٹے اور لمیٹڈ کاروبار ، پرائیویٹ سیکٹر کا نہ ہونا ، اور قدرتی وسائل کے مناسب استعمال کا طریقہ کار نہ ہونے جیسے سنگین مسائل کا شکار ہے۔ یہ سارے مسائل تب ہی ختم ہو سکتے ہیں جب آپ کے پاس تگڑے پلان کے ساتھ ساتھ آپ کی معیشیت مظبوط ہو اور آپ کے پاس لگانے کیلے پیسہ ہو، لیکن بد قسمتی سے گلگت بلتستان کی معیشت بہت حد تک کمزور ہے۔ یہاں کا کل بجٹ ۲۰۲۰-۲۰۲۱ محض 68ارب روپے ہے اور وہ بھی سارا وفاق کے رحم و کرم پر ہے وفاق جب چاہے ریلیز کرے جب چاہے نہ کرے ۔
اب اس طرح کی سچویشن میں اتنے کمترین بجٹ کے ساتھ ہم کبھی بھی دنیا کا مقابلہ نہیں کر پائنگے۔
ہمیں اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونا ہوگا ، ہمیں اپنی معیشیت مظبوط کرنی ہوگی اور جس کا واحد حل ٹیکسیشن کا نظام لاگو کرنا ہے۔
چونکہ گلگت بلتستان ایک غریب خطہ ہے اور یہاں کے باسی ٹیکس نہیں ادا کر سکتے لہذا گلگت بلتستان میں جتنے بھی غیر مقامی کمپنیز اور ادارے کام کر رہے ہیں کم از کم آپ ان سے ٹیکس وصول کریں جو کہ اربوں روپے بنتے ہیں تاکہ اس خطہ کا بھلا ہو سکے ۔ اس وقت گلگت بلتستان میں درجنوں ایسے اربوں کے پراجکٹس چل رہے ہیں جو کہ غیر مقامی کمپنیز کر رہے ہیں جن میں دیامر باشاہ ڈیم ، کارڈیئک ہسپتال ، کینسر ہسپتال ، کےکےایچ ایکسٹنشن ، گلگت سکردو روڈ ، سی پیک کا تھرو نالہ پراجیکٹ ، ہرپو ہائڈرو پراجیکٹ سکردو ، نلتر ایکسپریس وے اور ان جیسے بہت سے میگا پراجیکٹس ٹیکس ریسٹرین کی وجہ سے ٹیکس ادا نہیں کر رہی ہیں ۔ اگر ان تمام غیر مقامی کمپنیز سے ٹیکس وصول کیا جاتا تو آج گلگت بلتستان کا کل بجٹ صرف 68 ارب کا نہیں بلکہ یہ بجٹ 150 ارب سے بھی زیادہ کا بنتا اور یہی سارا پیسہ گلگت بلتستان کی تعمیرو ترقی پہ خرچ ہوتا ، یہاں کی تعلیم بہتر ہوتی ، صحت بہتر اور جدید ہوتا ، سڑکیں بنتیں، کوئ پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام متعارف ہوتا اور یہاں کے نضام ذندگی میں بہتری آتی ، لیکن ایسا نہیں ہورہا یا ایسا نہیں ہونے دیا جارہا ، لہذا میری گزارش ہے گلگت بلتستان کی نئی آنے والی حکومت اور عوام دونوں سے کہ آپ اس اہم اشو پہ ضرور غور کریں ۔