کالمز

کیا وزیر اعلی محمد خالد خورشید نے واقعی ضلع غذر کے ساتھ ناانصافی کی ہے؟

تحریر: اشفاق احمد ایڈوکیٹ

وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان نے گزشتہ روز گلگت  میں تقریر کرتے ہوۓ اس خطہ کی پسماندگی دور کرنے کے لیے  پانچ سالہ میگا ترقیاتی منصوبے کا اعلان کیا۔ تاریخ میں پہلی بار  گلگت بلتستان کی کوئی حکومت وفاق پاکستان سے اس پسماندہ خطہ کے لیے اتنا شاندار میگا ترقیاتی پروجیکٹ لانے میں کامیاب ہوئی ہے جس پر  گلگت بلتستان کے چیف منسٹر اور اس کی حکومت لئیق تحسین ہے.

 تین سو ستر ارب روپے کے اس میگا پروجیکٹ میں سیاحت پاور جنریشن , سڑکوں کی تعمیرات , میڈیکل کالجز کی تعمیر، ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن  نوجوانوں میں ہنر پیدا کرنے کے منصوبے, طالب علموں کو پاکستان کے معیاری تعلیمی اداروں میں اسکالرشپس کی فراہمی,  پینے کا صاف پانی سیورج کا نظام قائم کرنا ,بابو سر ٹینل کی تعمیر اور گلگت بلتستان کی حکومت کو زیادہ بااختیار بنانے جیسے منصوبے شامل ہیں

 وزیراعظم نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ کا درجہ دیا ہے جس کو عملی جامع پہنانے کے لیے آئین پاکستان میں ترمیم کی صْرورت ہوتی ہے .جس طرح جناب اسد عمر نے درست طور پر فرمایا کہ پاکستان کے تمام قومی اداروں میں نمایندگی دینے کے لیے آئین میں ترمیم کرنا ہوتا ہے۔

وزیراعظم پاکستان نے اپنی تقریر میں کہا کہ گلگت بلتستان کے لوگ شکایت کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ ہمیشہ سے سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جاتا رہا ہے۔ ساتھ ہی  انہوں نے یہ بھی کہا کہ ماصْی میں ہمیشہ سے اس علاقہ کو وفاق سے چلایا جاتا تھا  اور خود کو وائسراۓ سمجھ کر لوگ یہاں کا نظام چلاتے تھے۔ ماصْی میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ گلگت بلتستان کے لوگوں میں صلاحیت نہیں ہے  اس لیے وہ اپنے معاملات خود نہیں چلا سکتے ہیں مگر یہ بات درست نہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ گلگت بلتستان کے چیف منسڑ  خالد خورشید میں یہ صلاحیت موجود  ہے کہ وہ اپنی حکومت کے تمام معاملات خود چلا سکتے ہیں. وہ ہر وقت اپنے خطے کی ترقی کے بارے میں سوچتے ہیں اس لیے ہم ان کی مدد کرتے ہیں اور کرتے رہینگے.

وزیر اعظم پاکستان نے اپنی تقریر میں گلگت بلتستان کے ماصْی کی قیادت کے متعلق جس سوچ کا ذکر کیا اس پر ایک نظر ڈالنا لازمی ہے چونکہ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ دنیا کی تمام اقوام  اپنی  قیادت کی وجہ سے پہچانی جاتی ہیں۔  لہذا اس نقط پر کوئی دو راۓ نہیں ہے کہ گذشتہ کئی دہائیوں سے گلگت بلتستان میں باکردار اور مصْبوط لیڈرشپ کی کمی رہی ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بدقسمتی سے ہماری منتخب لیڈرشپ نے عوام کی نمائندگی پر سرکاری نوکریوں کو ترجیح دی ہے۔ جس کی ایک اہم مثال 1970میں ایف سی ار کے کالے قوانین کے خلاف تحریک چلانے والے لیڈران کی ہے جن میں سے چند ایک کے علاوہ باقی سب نے عوامی قیادت کرنے کی بجاۓ سرکاری نوکریوں کو ترجیح دی ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرے میں قیادت کا بحران پیدا ہوا اور  پھر اس خطے کی سیاست اور قیادت ان پڑھوں اور ٹھیکہ داروں کی بھینٹ چڑھ گئی۔  تقریبا تیس سالوں کے بعد پڑھے لکھے لوگوں کی قیادت سامنے آئی مگر  ان میں سے بھی زیادہ تر نے عوامی ووٹ سے اسمبلی پہنچ کر عوامی نمائندگی کرنے کی بجاۓ پہلی فرصت میں گلگت بلتستان کی عدلیہ میں خود کو ججرز لگوادیا۔

 اس طرح نہ صرف انصاف کا قتل عام ہوا بلکہ معاشرے میں قیادت کا بحران بھی پیدا ہوگیا اور اس سیاسی خلا کو  ٹھیکہ داروں اور کم تعلیم یافتہ افراد نے پر کیا۔  جس کی وجہ سے وفاق پاکستان میں  یہ تاثر پیدا ہوا  کہ گلگت بلتستان کی قیادت اس اہل ہی نہیں کہ وہ اپنے معاملات خود چلا سکے چونکہ کسی بھی قوم کے لیڈر ہمیشہ اپنی قوم کی مجموعی سیاسی شعور اور تعلیم کا آئینہ ہوتے ہیں.

وزیر اعظم پاکستان نے اپنی تقریر میں سیاستدانوں کی  اقسام بیان کرتے ہوۓ کہا کہ کچھ لوگ سیاست  اپنے ذاتی فائدے کے لیے کرتے ہیں اور وہ اپنی پوزیشن کا فائدہ أٹھاتے ہیں جو کہ کرپشن کہلاتی ہے.

ماصْی میں یہی کچھ گلگت بلتستان کے بعصْ سیاستدان کرتے رہے جن کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جن کی وجہ سے وفاق پاکستان کے سامنے ہماری قیادت کے متعلق جو تاثر پیدا ہوا تھا اس کا زکر وزیر اعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں کیا۔

مگر ایک حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ  ماصْی کی نسبت موجودہ دور میں گلگت بلتستان میں قابل اور پڑھے لکھے نوجوان افراد کی قیادت سامنے آئی ہے جس کی وجہ سے ایک مثبت تاتر پیدا ہوا ہے جس کا اعتراف وزیراعظم پاکستان نے کل اپنی تقریر میں کیا۔انہوں نے چیف منسٹر خالد خورشید کی قیادت اور صلاحیت کا برملا اعتراف اور تعریف کی، جو کہ پورے گلگت بلتستان کے لیے ایک اعزاز ہے .

 وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں کہا کہ بطور چیف منسڑ خالد خورشید کا انتخاب کرنا ان کا ایک بہترین فیصلہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے چیف منسڑ  خالد خورشید اس  لائق ہیں کہ وہ گلگت بلتستان کے فیصلے خود کر سکتے ہیں ہم اسلام آباد سے ڈکٹیشن نہیں دینگے اور  پوری طرح وزیر اعلی کو  اختیارات دینگے تاکہ وہ گلگت بلتستان کے معاملات خود چلائیں۔

 وزیراعظم کی اس بات کی تصدیق کے لیے اگر ہم  گلگت بلتستان کی تاریخ میں نظر دوڑاتے  ہیں تو اس حقیقت کا پتہ چلتا ہے کہ گلگت بلتستان کی تاریخ میں آج تک جتنے بھی وزرا اعلی رہے ہیں ان سب میں خالد خورشید نہ صرف سب سے زیادہ تعیلم یافتہ چیف منسٹر ہے بلکہ ایک صاف اور بےداغ کردار کا حامل انسان ہے۔

یہاں یہ زکر کرنا لازمی ہے کہ گدشتہ روز جہاں  ایک طرف وزیراعظم پاکستان وزیر اعلی خالد خورشید کی تعریف کررہے تھے عین اسی وقت صْلع غذر میں چیف منسٹر کے میگا ترقیاقی منصوبے کے خلاف ایک احتجاج بھی ریکاڑ کروایا گیا  جس پر تبصرہ کرنا لازمی ہے چونکہ اس احتجاج میں چیف منسڑ کی نہ صرف ذات کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا بلکہ بہت سخت الفاظ میں یہ کہا گیا کہ چیف منسٹر نے اس میگا ترقیاتی  منصوبے  میں نہ صرف صْلع غذر کو بلکہ ہنزہ کو بھی یکسر نظر انداز کیا ہے۔

افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس احتجاج میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ  گویا وزیر اعلی نے فرقہ ورانہ بنیادوں پر ان دو اصْلاع کو نظر انداز کیا ہے جہاں آبادی کی اکثریت اسماعیلی کمیونٹی سے ہے.

یہاں اپنے زاتی معلومات کی بنیاد پر میں پورے وثوق کے ساتھ یہ کہنا صْروری سمجھتا ہوں کہ خالد خورشید ایک بہترین انسان ہے، جو نہ صرف فرقہ واریت کے سخت خلاف ہے بلکہ وہ میرٹ پر پورا یقین رکھتے ہیں۔  وہ ہمیشہ سے غذر اور ہنزہ کے لوگوں کی اخلاق اور مذہبی رواداری کی مثال دیتے ہیں اس لیے اس غلط فہمی کو دور ہونا چاہئے کہ وزیر اعلی نے فرقہ ورانہ بنیادیوں پر غذر اور ہنزہ کو نظر انداز کیا ہے۔

 وزیراعلی گلگت بلتستان نے بھی اس اعتراصْ اور غلط فہمی کو سختی کے مسترد کرتے ہوۓ کہا ہے کہ انہوں نے غذر کو کھبی نظر نداز نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے گلگت تا شندور روڑ  پر کام کرنے کے لیے حکم جاری کیا ہے جس پر آنے والے دنوں میں کام شروع ہونے والا ہے۔

اس بابت گورنمنٹ اف پاکستان منسٹری اف کمیونیکشن کی طرف سے ایک سرکاری مراسلہ نمبری F: No.5(2)2020 مورخہ22اپریل 2021  براے تعمیر گلگت تا شندور روڑ بھی سوشل میڈیا پر گردش رہا ہے۔  216 کلومیٹر پر مشتمل گلگت تا شندور روڈ  منصوبہ  کی کل مالیت / 395 ,49,946,070 ارب روپے ہے جو کہ کیڈٹ کالج سے بہت زیادہ مہنگا پروجیکٹ ہے. اور آنے والی میٹینگ میں اس  پراجیکٹ کی PC-1 کی منظوری کے لیے CDP/CCNEC کو سیکریٹری کمیونکیشن نے یہ مراسلہ ارسال کیا ہے . جس کی منظوری ہو کر بہت جلد کام شروع ہوگا۔

بقول وزیر اعلی خالد خورشید، "اس سے قبل ہی غذر گاہکوچ ہسپتال کی اپ گریڈیشن کےلیے بھی اس نے  19کروڑ روپے مختص کیا ہے۔ گلوداس پاور پروجکٹ کے لیے 11 کروڑ روپے مختص کیا ہے جبکہ بہت جلد جی بی سیکوٹس کی چیک پوسٹ کو اشکومن کے آخری بارڑر پر لے جانے پر حکام سے بات بھی کیا ہے جو بہت جلد ہوگا تاکہ اشکومن کے عوام کو آسانی ہو.اور اشکومن تا قرمبر جھیل تک سڑک تعمیر کرنے کی منظوری بھی دے گا اور صْلع غذر میں پانچ آر سی سی پل اور کئی سکول تعمیر کرینگے۔ لہذا غذر کے نوجوانوں کو صبر سے کام لینے کی صْرورت ہے وہ کھبی غذر کے ساتھ ناانصافی نہیں کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ  ڈپٹی سپیکر نذیر آحمد کے ساتھ ان  منصوبوں  پر تفصلی بات ہوئی ہے اور  ان تمام  منصوبوں پر بہت جلد کام شروع ہوگا ۔”

لہذا  ہم اگر حقیقت پسندی سے کام لیں تو  یہ سچ ہے کہ گلگت تا شندور روڑ  ہمارے لیے سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے جو صْلع غذر کی ترقی کی صْامن ثابت ہوسکتا ہے اور ہمیں امید ہے صْلع غذر کی ترقی کے لیے اور خصوصا ہمارے نوجوانوں کو حکومت کے ہر شعبے میں میرٹ پر سرکاری  نوکریاں دلانے میں وزیر اعلی خالد خورشید اپنا کردار ادا کرینگے اور امید ہے کہ وزیر اعلی گلگت بلتستان کے تمام سرکاری اداروں میں سفارش رشوت اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر نوکریوں کی بندر بانٹ کا خاتمہ کرینگے تاکہ گلگت بلتستان کی تاریخ میں ان کے کردار کو اچھے الفاظ میں لکھا جاۓ گا.

البتہ اس حقیقت کو بھی ہمیں تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہونی چاہئے کہ  ماصْی کی حکومتوں میں صْلع غذر کے ساتھ انصافیاں بھی بہت ہوئی ہیں اس کی ایک مثال گلگت بلتستان کے سرکاری ملازمتوں میں سفارش رشوت اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر نوکریوں کی تقسیم اور میرٹ کا قتل عام ہے  جس کی ایک مثال گلگت بلتستان کنٹریکٹ ریگولرازیشن ایکٹ نامی نام نہاد قانون ہے جس کے تحت سرکاری نوکریوں کی بندربانٹ کی گئی جبکہ قابل نوجوان بے روزگار پھر رہے ہیں۔

 حیرت کی بات یہ ہے ماصْی میں اس نام نہاد ایکٹ کے تحت  چودہ گریڈ سے  سترہ اور اٹھارہ گریڈ کی نوکریوں پر بھی بغیر میرٹ کے بھرتیاں کی گئی  ہیں . گذشتہ حکومتی ادوار میں  ہزاروں کی تعدار میں لوگوں کو اس طرح نوکریاں عطا کی گئی ہیں جن میں صْلع غذر سے بھرتی ہونے والے افراد کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اس کے علاوہ دیگر چند ایک اہم محکموں میں بھی گزشتہ کئی سالوں سے  تقرریوں میں صْلع غذر کا نام و نشان نظر نہیں آتا ہے۔ جبکہ ملک کے لیے قربانی دینے کی باری آتی ہے کرگل سے سیاچن اور وزیرستان سے وانا تک صْلع غدر کے ہی فوجی جوان نظر آتے ہیں۔

ڈسٹرکٹ غذر کی تمام  قبرستانوں پر پاکستان کا پرچم لہراتا نظر آتا ہے گلگت بلتستان کے واحد نشان حیدر پانے والا لالک جان شہد بھی غذر کا بیٹا ہے اس لیے یہاں ایک کیڈٹ کالج بنانے کا مطالبہ ہم چیف منسٹر گلگت بلتستان سے نہیں بلکہ فورس کمانڈر گلگت بلتستان سے  مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر صْلع غذر میں کیڈٹ کالج کا قیام عمل میں لاۓ.

اور  ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہئے کہ کرگل کی جنگ میں صْلع غذر کے جتنے فوجی جوانوں نے ملک کی دفاع کے لیے شہادتیں دی ہیں شاید اتنی تعداد پورے گلگت بلتستان کی نہ ہو مگر اس کے باوجود بھی غذر کے نوجوانوں کے ساتھ سراسر ناانصافی کی جاتی رہی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف غذر میں نوجوانوں میں گذشتہ چند سالوں میں خودکشیوں کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے بلکہ جبر اور ناانصافی نے نوجوانوں کو باغی بھی بنا دیا ہے جس کا نقصان نہ صرف صْلع غذر کو ہو رہا ہے بلکہ آنے والے سالوں میں اس کے بھیانک اثرات پورے گلگت بلتستان کو اپنے  لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ اور دنیا کی تاریخ سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ کوئی بھی معاشرہ کفر کے زیر سایہ تو چل سکتا ہے مگر ظلم اور ناانصافی کے تحت نظام نہیں چل سکتا ہے.

لہذا اس تناظر میں دیکھا جاۓ تو ارباب اختیار کو اپنی غلطیوں کا احساس اور ازالہ کرنے میں آسانی ہوگی اور ان کو بروقت یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آئندہ گلگت بلتستان میں سفارش اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر کوئی نوکریاں تقسم نہیں ہونگی بلکہ تمام شہری قانون کی نظر میں برابر تصور ہونگے۔

اخر میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ماصْی کے ان تلخ حقائق کی روشنی میں موجودہ حکومت کی پالیسی کو دیکھنا درست نہیں ہے نہ ہی ہم ان مظالم اور نا انصافیوں  کا زمہ دار  موجودہ حکومت کو ٹھیرا سکتے ہیں۔  اس لئے صْلع غذر کے نوجوانوں کو صبر سے کام لینا چاہیۓ۔

 گلگت بلتستان کی موجودہ حکومت سے ہمیں میرٹ کے قیام اور تمام شہریوں کے ساتھ انصاف اور برابری کی پالیسی پر عمل پیرا ہونے کی امید ہے یقیناََ وزیراعلی گلگت بلتستان ان اہم مسائل پر توجہ دینگے.

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button