چترال(گل حماد فاروقی) محکمہ کمیونیکیشن اینڈ ورکس لوئر چترال کے سب ڈویژنل آفیسر عتیق فاروق نے الزام لگایا ہے کہ ڈپٹی کمشنر چترال حسن عابدنے غیر قانونی طور پر چترال لیویز کے ذریعے انہیں سرکاری مکان سے گرفتار کرکے پہلے اپنے پرسنل اسسٹنٹ (پی اے) کے کمرے میں بند کیا اور اس کے بعد گارڈ روم میں بند رکھا۔
ایس ڈی او عتیق فاروق نے سینئر سول جج جناب آصف کمال کے عدالت میں آفتاب رحیم ایڈوکیٹ کے ذریعے مقدمہ درج کیا ہے۔ جبکہ عدلات نے متعلقہ ایس ایچ او کو نوٹس جاری کیا ہے کہ ایک ہفتے کے اندر اس واقعے کی رپورٹ جمع کرے۔
عتیق فاروق نے جو بیان عدالت میں قلم بند کروایا تھا اسی کے تناظر میں سی اینڈ ڈبلیو کے رہائش گاہ میں محکمے سی اینڈ ڈبلیو کے کافی ہجوم کے سامنے بھی اپنا موقف پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں اس محکمہ میں پچھلے تیس سالوں سے نہایت ایمانداری سے اپنا فرائض سرانجام دیتاہوں۔انہوں موقف احتیار کیا کہ 24 مئی کو صبح 7.55 بجے بارڈر پولیس(چترال لیویز) وردی میں ملبوس میری اجازت اور وارنٹ کے بغیر آکر مجھے بتایا کہ ڈپٹی کمشنر صاحب آپ کو بلا رہا ہے۔ میں نے ان کو جواب دیا کہ آج میرا چترال عدالت میں پشاور ہائی کورٹ کے ساتھ آن لائن میٹنگ مقرر ہے اور دوسری میٹنگ سینئر سول جج صاحب کے ساتھ مقرر ہے جس کی وجہ سے میں گیارہ بجے سے پہلے کسی بھی صورت میں نہیں جاسکتا ہوں۔ اور گیارہ بجے کے بعد ان دونوں میٹنگ سے فارغ ہوکر ڈی سی آفس آسکتا ہوں مگر لیویز فورس نے طاقت کا مظاہر کرتے ہوئے میری مرضی کے بغیر مجھے گھر سے اٹھاکر ڈی سی آفس میں پی اے کے کمرے میں اور بعد میں گارڈ روم میں حبس بے جاء میں بند کیا اور چار گھنٹے تک مجھے ذہنی کوفت پہنچایا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ میں نے موبائل فون پر اپنے محکمہ کے اہلکاروں اور قانون دانوں کے علاوہ محتلف لوگوں کو ڈپٹی کمشنر کے اس غیر قانونی اقدام کے بارے میں بتایا جس کا ذکر میں نے عدالت میں جمع شدہ درخواست میں بھی موجود ہے انہوں نے کہا کہ میرے ساتھ جو بے انصافی ہوئی ان کے گواہان بھی میرے پاس موجود ہے انہوں نے عدالت سے کاروائی کرنے کے سلسلے میں مقدمہ بھی درج کیا ہے۔ انہوں نے عدالت میں جمع شدہ درخواست میں موقف احتیار کیا ہے کہ ڈپٹی کمشنر چترال نے محتلف جرائم تعزیرات پاکستان کے زیر دفعہ451, 365,342 کا ارتکاب کیا ہے انہوں نے کہا کہ میں شوگر کا مریض ہوں میری طبیعت بھی خراب تھی مگر اس کے باوجود بھی مجھے حبس بے جاء میں رکھا گیا۔انہوں نے کہا کہ میرے بارے میں عدالت سے ایک فاضل جج نے بھی ڈی سی چترال کو فون کیا کہ اسے چھوڑ دے تاکہ یہاں آکر آن لائن میٹنگ اٹینڈ کرے مگر ڈی سی چترال نے میرے چھوڑے کیلئے ضمانت مانگا۔
انہوں نے الزام لگایا کہ ڈپٹی کمشنر نے تجاوزات کی مد میں اپنے بندوں کے ذریعے تقریبا پانچ لاکھ روپے لئے ہیں اس کے علاوہ ڈیزاسٹر کی مد میں اڑھائی کروڑ روپے کا حساب کتاب انٹی کرپشن والے ڈی سی سے مانگ رہے ہیں، مگر انہوں نے ابھی تک وہ ریکارڈ ان کو فراہم نہیں کیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جب ڈی سی آفس میں حبس بے جا میں میری طبیعت حراب ہوئی تو میں نے پاکستان تحریک انصاف کے ضلعی صدر، ضلعی زکوۃ چئیرمین، لائیر فورم کے صدر اور دفتر کے عملہ بھی بلایا کہ وہ آکر ڈی سی سے پوچھے کہ مجھے کس جرم میں گرفتار کیا ہے جس پر وکلاء صاحبان نے بھی آکر ڈی سی سے پوچھا۔ جب مجھے رہا کیا گیا تو ڈی سی صاحب نے بارہ بجے مجھے میٹنگ کیلئے جب بلایا تو مجھ پر شدید ذہنی دباؤ تھا اور اس وقت وزیر اعلےٰ کا معاون حصوصی وزیر زادہ جو ڈیڈک کا چئیرمین بھی ہے وہ بھی موجود تھا تو میں نے اس کی موجودگی میں اس کے ساتھ میٹنگ سے انکار کیا کہ اس کے سامنے میں نہیں کر سکتا ہوں۔
اس سلسلے میں جب ہمارے نمائندنے نے ڈپٹی کمشنر چترال حسن عابد کے دفتر جاکر ان کا موقف جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے کیمرے کے سامنے بات کرنے سے معذرت کرلی تاہم غیر رسمی طور پر سوالات کے جوابات دینے کو تیار ہوئے۔ انہوں نے ایس ڈی او کے الزامات کو غلط گردانتے ہوئے کہا کہ موصوف 17 گریڈ کا آفیسر ہے اسے میں کیسے گرفتار کرسکتا ہوں۔ میں نے یہاں 18 نومبر 2020 کو چارج سنبھالا ہوا ہے اور تجاوزات، ڈیزاسٹر کا فنڈ میرے آنے سے پہلے تقسیم ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گوڈ گورننس کے سیکرٹری نے شکایت کی تھی کہ M&R یعنی مرمت کے مد میں جو فنڈ خرچ ہوا ہے اس میں غبن ہوا ہے اور اس کی تحقیقات ہونا چاہئے جس پر کمشنر ملاکنڈ ڈویژن نے انکوائیری شروع کرنے کا ہدایت کیا اور میں نے متعلقہ ایس ڈی او کو باقاعدہ تحریری طور پر لکھا کہ آپ مینٹننس اینڈ ریپیر کی فنڈ کا سال 2018-21 کا ریکارڈ پیش کرے۔ ایم اینڈ آر کی مد میں چند سال قبل بھی تین کروڑ روپے خرچ ہوچکے ہیں جبکہ گزشتہ سال بھی سات کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں اور ان سے یہ پوچھا گیا ہے کہ گرم چشمہ، بونی، بمبوریت، دروش کی تمام سڑکیں نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے پاس ہیں تو محکمہ سی اینڈ ڈبلیو نے اتنی بڑی رقم کہاں خرچ کی ہے۔ ان سے اتنا پوچھا گیا ہے کہ وہ ورک پلان کی نقل پیش کرے کہ یہ فنڈ کہاں خرچ ہوئی ہے مگر ابھی تک وہ یہ ریکارڈ پیش نہ کرسکا۔
ڈی سی چترال نے مزید کہا کہ میں نے کمشنر ملاکنڈ کے ذریعے انٹی کرپشن، نیب اور مانیٹرنگ اینڈ ایوالیویشن محکموں کو تحقیقات کے بارے میں کیس بھیجا ہے تاکہ اس کی انکوائری ہوجائے۔
ایس ڈی او نے یہ بھی الزام لگایا کہ وزیر کے معاون حصوصی برائے اقلیتی امور وزیر زادہ کے پولیٹیکل سیکرٹری فخر اعظم کے دباؤ پر میرے دفتر سے چودہ لاکھ روپے کا چیک جغور پل کی مرمت کیلئے لیا ہے جو صحیح نہیں تھا۔ اس سلسلے میں جب فخر اعظم سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ جغور میں پُل کی حالت نہایت حراب تھی اور اسی طرح گرم چشمہ کے علاقہ گجال میں بھی ایک پل بہت حراب تھا۔ جغور کا پل پچھلے سال عید کے دن گر گیا جس کی وجہ سے تین روز تک ٹریفک بند رہا علاقے کے لوگوں نے سوشل میڈیا میں ااس کی مرمت کا مطالبہ کیا تھا جس پر وزیر زادہ نے حصوصی فنڈ فراہم کرتے ہوئے اس کی مرمت کروائی جس کا ٹھیکدار شیر وزیر شاہ تھا تاہم بڑے ٹھیکداروں کے ساتھ چھوٹے ٹھیکدار یا شراکت پر کام کرنا عام دستور ہے ان دونوں پلو ں کی مرمت ہوئی اور اس پر جو فنڈ خرچ ہوا ہے اس کا چیک شیر وزیر شاہ ٹھیکدار نے لیا ہے میں نے کوئی چیک نہیں لیا ہے۔ تاہم اس سلسلے میں ان دونوں پُلوں کی پیمائش کرکے اس کا تحمینہ لگایا جاسکتا ہے کہ کتنا کام ہوا ہے اور کتنا فنڈ جاری ہوا ہے اگر فنڈ زیادہ جاری ہوا ہے تو اس کو واپس لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ میرے حلاف کوئی بھی کسی قسم کی بد عنوانی کا ثبوت پیش نہیں کرسکتا۔
جب وزیر زادہ سے اس سلسلے میں پوچھا گیا تو ان کہنا تھا کہ میں کسی بھی کرپشن میں ملوث نہیں ہوں اور ایس ڈی او نے کل ڈی سی کے سامنے یہ کہتے ہوئے میرے ساتھ بیٹھنے سے انکار کیا کہ میں نے وزیر زادہ کے حلاف وزیر اعلےٰ کو گیارہ مرتبہ شکایات بھیجے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں صوبائی کابینہ کا حصہ ہوں اور محتلف ترقیاتی کاموں کا سفارش اور نشان دہی کرتا ہوں مگر کبھی بھی کوئی کمیشن نہیں لیا ہے اور کرپشن کے بابت ہماری پارٹی کی زیرو ٹالیرینس ہے یعنی ہم کبھی بھی بد عنوانی برداشت نہیں کرسکتے۔
لیبر یونین کے صدر شکیل احمد نے بتایا کہ ہمارے ایس ڈی او کو ڈی سی چترال نے اپنے گرفت میں لیا ہے انہوں نے اسے غیر قانونی قراردیا اور وزیر اعلےٰ خیبر پحتون خواہ کے ساتھ ساتھ اعلےٰ حکام سے بھی مطالبہ کیا کہ اس سلسلے میں جوڈیشنل انکوائری کیا جائے کہ اسے کیوں اور کس جرم میں یرغمال بناکر رکھا ہوا ہے ۔ اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ ڈی سی اور اے سی نے اس قسم کی غیر قانونی حرکت کی تھی مگر بعد میں ان کو معافی مانگنا پڑا۔
محمد بلال جو کورٹ اٹنڈنٹ ہے انہوں نے بھی اس کی بھر پور مذمت کی اور تحقیقات کمیٹی سے غیر جانبدارانہ طور پر انکوایری کا مطالبہ کیا کہ آئندہ کوئی افسر اپنے احتیارات کا غلط استعمال نہ کرے۔
شاکر الدین نے بھی میڈیا کو بتایا کہ ایس ڈی او تو ویسے بھی اپنے مقررہ وقت پر ڈی سی آفس جارہے تھے مگر انہوں نے اسے لیویز فورس کے ذریعے علی الصبح گرفتارکروایا ہے میرا مطالبہ ہے کہ اعلےٰ حکام اس کا انکوایری کرے تاکہ آئندہ اس قسم کے ناخوشگوار واقعات پیش نہ آئے اور کوئی افسر اپنے احتیارات کا غلط فائدہ نہ اٹھائے۔ اس موقع پر کثیر تعداد میں لوگ موجود تھے جو ایس ڈی او کے حق میں اپنا موقف پیش کررہے تھے۔