تحریر: زاکر بلتستانی
گلگت بلتستان میں سب سے زیادہ ضائع ہونے والے پھلوں میں پہلے نمبر پر شہتوت ہے۔ گلگت بلتستان میں تقریباً پانچ اقسام کے شہتوت پائے جاتے ہیں۔ علاقے میں ہر سال تقریبا9،617 ٹن شہتوت کی پیداوار ہے، جس میں سے تقریباً 5،646 ٹن (72 فیصد) شہتوت کو کسان ضائع کردیتے ہیں۔
اتنی بڑی مقدار میں ضائع کرنے کی بنیادی وجہ مقامی لوگوں میں اسکو قابل فروخت کرنے کے حوالے سے ٹریننگ اور شعور نہ ہوناہے۔ ماہرین کے مطابق شہتوت کو سو فیصد استعمال کیاجائے تو گلگت بلتستان کے تقریباً تمام علاقوں میں اربوں روپے صرف اس پھل سے کمایا جاسکتے ہیں۔ اور اس کی کمائی سے پورےگلگت بلتستان میں غربت ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
اس وقت مارکیٹ میں خشک شہتوت کلو 350 روپے میں فروخت کررہے ہیں۔ اس حساب سے خشک شہتوت ایک ٹن کی قیمت ساڑھے تین لاکھ روپیہ بنتے ہیں۔ جبکہ شہتوت سے بننے والا جام ایک ہزار روپہ کے حساب سے فی بوتل فروخت ہورہا ہے۔
شہتوت جام کے علاوہ چاٹ اور جوس، اور دوائیوں کی پیداوارمیں بھی استعمال ہوتے ہیں۔
محکمہ ذراعت کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر ذاکر کے مطابق گلگت بلتستان میں سب سے زیادہ ضائع کرنے والے پھلوں میں سےپہلے نمبر پر شہتوت ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ شہتوت کے علاوہ خوبانی اور سیب بھی بڑی مقدار میں ضائع ہوجاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ محکمہ زراعت سکردو پھلوں کو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے اقدامات کررہی ہے، جن میں کسانوں کو جدید سائنسی علم اور ہنر سکھانا اور انہیں مارکیٹنگ اور پیکیجنگ کے بارے میں بھی آگاہی دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ محکمہ زراعت ان کسانوں کی مالی مدد بھی کرتی ہے جنہیں وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔
مقامی کسان غلام عباس کے مطابق ان کی ملکیت تقریباً بیس شہتوت کے درخت ہیں۔ وہ ہر سال چالیس کلو شہتوت خشک کرکے مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں۔ اگر وہ پورے بیس درختوں کی پیداوار کو سُکھانے لگے تو تو ان کے پاس تقریباً دس من خشک شہتوت تیار ہوتا ہے۔ غلام عباس کے مطابق ابھی بھی وہ کوشش کرتا ہے کہ پورے طرح شہتوت کو اتار کر مارکیٹ میں لے جائے مگر تیز ہوا اور بارش کی وجہ سے اکثر شہتوت خراب ہوجاتے ہیں۔
مقامی کسان سید محسن کے مطابق وہ گزشتہ کئی سالوں سے اپنے پورے پندرہ شہتوت کے درختوں سے پھل اتار کر خشک کرنے کے لیے اپنے چھت پر رکھتے ہیں۔ مگر اسکردو میں پھل تیار ہونے کے وقت عموماً تیز ہوا چلنے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جس کہ وجہ سے شہتوت خشک تو ہوجاتا ہے مگر مٹی اور دھول کی وجہ سے خراب ہوتا ہے۔ سید محسن کہتے ہے اگر محکمہ زراعت ان کو جدید سائنسی طریقے سے پھل کو ڈرائی کرنے کے حوالے سے تعاؤن کریں تو وہ اس پھل سے بہترین آمدنی کماسکتے ہیں۔