خصوصی خبر

گلگت شہر میں باولے کتوں کے کاٹنے سے اب تک کتنے افراد جان بحق ہو چکے ہیں؟

تحریر: فہیم اختر

گلگت بلتستان میں باؤلے کتوں کے بڑھتے حملوں نے شہریوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ گلگت شہر میں غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک کم از کم 8 افراد کتوں کے کاٹنے سے جاں بحق ہوگئے ہیں جن میں 5 سال کی ایک بچی بھی شامل ہے۔

اس کے علاوہ اب تک کتوں کے حملوں کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد 50 سے زائد ہوگئی، تاہم سرکاری ہسپتالوں کی غیر سنجیدگی نے اس معاملے کو اب تک ریکارڈ کرنے کے مرحلے تک بھی نہیں پہنچایا ہے اور مریضوں کو معمول کے مطابق دیکھا جاتا ہے۔

12 سالہ یحییٰ عالم سب سے پہلے اس موزی مرض کا شکار اُس وقت ہوا جب وہ اپنی 4 سالہ بھانجی کے ہمراہ دیامر کالونی جوٹیال سے گزررہے تھے۔ اچانک کتا ان پر حملہ آور ہوگیا۔ یحییٰ عالم نے 4 سالہ بچی کو بچاتے ہوئے دوسری جانب پھینک دیا اور خود کتے کو بھگانے کی کوشش میں اس کے ساتھ گھتم گھتا ہوگیا۔ اس دوران یحیی کے دائیں بازوں میں کتے کے دانت پیوستہ ہوگئے جبکہ 4 سالہ بھانجی کے سینے میں بھی ایک نشان اب تک موجود ہے۔ اسی اثناء میں راہگیروں نے کتے پر پتھراؤ کرکے اسے بھگادیا اور بچے کو گھر پہنچادیا جہاں سے انہیں فوری ہسپتال پہنچادیا گیا۔

یحییٰ عالم کے والد مشروف خان ساکن کھنر دیامر حال مقیم دیامر کالونی جوٹیال کہتے ہیں کہ سٹی ہسپتال میں ڈاکٹروں کو پہلے ہی بتایا گیا کہ دونوں بچوں کو پاگل کتے نے کاٹ لیا ہے، لیکن اس کے باوجود ہسپتال سے ہمیں ویکسین میسر نہیں ہوئی۔ ڈاکٹروں کی ہدایت کی گئی تمام ادویات اور ویکسین باہر بازار سے خریدی گئیں اور دونوں کو گھر لیکر آگئے۔

ایک مہینے سے زیادہ وقت ہوا تھا کہ اچانک بچے کی طبیعت بگڑنا شروع ہوئی اور ہسپتال پہنچادیا گیا۔ ڈاکٹروں کو جب کتے کے کاٹنے کے متعلق بتایا گیا تو وہ خود گھبراگئے اورگھر والوں کو کہا کہ اس کو فوری طور پر اسلام آباد لیکر جائیں۔ مشروف خان کے مطابق بچے کی طبیعت بگڑتی جارہی تھی تو ہنگامی طور پر ہم نے انہیں اسلام آباد منتقل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ رینٹ اے کار گاڑی میں جب ہم روانہ ہوگئے تو موت کا ایک اور سفر طے کرلیا۔ بچہ 20 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ گاڑی چلانے کی اجازت نہیں دے رہا تھا اور معمولی سپیڈ بڑھنے پر ڈرائیور پر حملہ آور ہوتا تھا جبکہ 25 گھنٹے کا پورا سفر ہم نے گاڑی کے شیشے نیچے کئے بنا کیا جس کی وجہ دو بار گاڑی بھی حادثے کا شکار ہوتے ہوتے بچی۔ سپیڈ اور ہوا سے بچے کو الرجی ہوگئی تھی۔ پمزہسپتال نے معمولی چیک اپ کے بعد پشاور منتقل کردیا جہاں لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں کچھ گھنٹوں داخل رہنے کے بعد بچنے نے جان سپرد حق کردی۔

ریبیز بنیادی طور پر باؤلے کتوں سمیت دیگر خطرناک جانوروں  کے کاٹنے سے پیدا ہونے والی بیماری ہے۔ اس بیماری میں انسان کے بچنے کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے اور اسے دنیا میں خطرناک ترین بیماری قرار دیا جاتا ہے۔

امریکہ میں 2022 میں پانچ ریبیز کیسزرپورٹ ہوئے تھے جس پر شہریوں نے حکومت پر شدید تنقید کی تھی۔ اس مسئلے کی سنجیدگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے 2015 میں دنیا سے اس مرض کو 15 سال میں ختم کرنے کےلئے نئے منصوبے کا اعلان کردیا جس میں پاکستان نے بھی شمولیت اختیار کر لی، لیکن اس کے باوجود اس وقت پاکستان اس مرض کے اعتبار سے پانچ خطرناک ترین ممالک میں شامل ہے۔

باؤلے کتوں کا شکار ہونے والوں میں اولڈ پولو گراؤنڈ سے تعلق رکھنے والی 5 سالہ عائشہ بھی ہے جس پر دن دیہاڑے کتے نے حملہ کردیا اور اس کے گردن میں دانت کا نشان باقی رہ گیا۔ ان کے والد تنویر احمد کے مطابق موت زندگی بے شک اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن ہسپتال عملہ اس خطرناک ترین مرض کے معاملے میں زرہ برابر بھی سنجیدہ اور چوکس نہیں ہے۔ ہسپتال عملے کو پاگل اور باؤلے کتے کے کاٹنے کے متعلق بتائے جانے کے باوجود ہسپتال سے ہمیں ویکسین مہیا نہیں کی۔ بچوں کےلئے وینٹی لیٹر ہسپتال میں نہیں ہے اور آخری مرحلے میں مجھے سی ایم ایچ لیکر جانا پڑا جہاں پر میری بچی کل آدھے گھنٹے کی مہمان بن گئی۔

تنویر احمد نے ہسپتال عملے کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ کرونا کے دوران اتنے وینٹی لیٹرز آئے تھے وہ سارے کہاں گئے ہیں؟ ہمیں کہا گیا کہ ویکسین دستیاب نہیں ہے جس پر باہر بازار سے خرید کر لگایا گیا جس کے بارے میں بعد میں پتہ چلا کہ وہ بالکل جعلی اور بےاثر ویکسین تھی۔ ہسپتال کےا ردگرد اتنی جعلسازی ہونے کے باوجود کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا ہےا ور انسانی جانوں کے ساتھ کھیلا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ویکسین کے بارے میں بھی بعد میں پتہ چلا کہ ہسپتال کے اندر دستیاب ہے تو سنگین مریضوں کو بھی نہیں دیا جاتا ہے۔  پھر آخر کسے دیا جاتا ہے؟

باؤلے کتے یا دوسرے باؤلے جانور کے کاٹنے کے بعد اس کے اثرات کم از کم 6 روز کے بعد سے شروع ہوتے ہیں اور کسی بھی وقت ہنگامی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے جس کی علامات میں روشنی سے خوف، پانی سے خوف، تیز رفتاری سے خوف، جسم کے اعضاء میں تھکاوٹ وغیرہ شامل ہے۔ اس کے علاوہ متاثرہ فرد میں تیز بخار، قے آنا، سر درد ہونا، پیچیدگی اور بھول جانے کے علاوہ اعصابی بیماریوں کا ظاہر ہونا بھی شامل ہے۔

غیر سرکاری تنظیم Comprehensive Disaster Response Service نے سال 2023 سے سکردو میں آوارہ کتوں کو اس جراثیم سے بچانے کےلئے سرگرمیوں کا آغاز کردیا تھا۔ سی ڈی آر ایس نے سکردو میں کم از کم 900 کتوں کو پکڑ کر ان کو اس عمل سے گزارا ہے جس کے تحت کتوں میں ریبیز ویکسین پیدا نہیں ہوتی ہے۔ اس عمل میں سب سے پہلے ان کتوں کے اندر پیدائشی صلاحیت کو ختم کردیا جاتا ہے جس کی وجہ سے آبادی نہیں بڑھتی ہے اور دوسرا ان کتوں کو ویکسین لگایا جاتا ہے۔ امریکہ میں 20ویں صدی کے شروع میں ایک سال میں 100 افراد ریبیز کا شکار ہوئے تھے جس کے بعد سے ویکسینیشن کا عمل شروع کیا گیا جس کے بعد یہ شرح مسلسل دو افراد سالانہ سے اوپر نہیں بڑھی۔ انسانوں میں بھی کتے کے کاٹنے سے پہلے ویکسین لگانے کا عمل شروع ہوا اور سالانہ 60 ہزار سے زائد افراد ویکسین لگارہے ہیں۔

باؤلے کتوں کو کنٹرول کرنے کےلئے ایک روایتی طریقہ کار ان کو گولی مارنے کا ہے جو گلگت انتظامیہ نے میڈیا کے پریشر کے بعد سے شروع کیا ہے تاہم ماہرین صحت و جانوروں کے امور کے ماہرین اس بات کو انتہائی منفی قرار دیتے ہوئے اس کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ سی ڈی آر ایس میں بطور ڈائریکٹر کام کرنے والے جمشید احمد کہتے ہیں کہ کتوں کو گولی مارنے سے بھی باؤلا پن بڑھ جاتا ہے۔ گلگت بلتستان کی موجودہ صورتحال حکومت اور سول سوسائٹی دونوں کی طرف سے فوری توجہ کی متقاضی ہے۔ سی ڈی آر ایس جیسی این جی اوز کے تعاون سے گلگت بلتستان کو ٹی این وی آر کے ذریعے آبادی پر قابو پانے کی راہ ہموار کرنے کا موقع ملا ہے جس سے انسانوں اور جانوروں دونوں کی مشکلات میں کمی آئے گی۔ حکومت کو اب اس بات کو یقینی بنانے کے لئے آگے بڑھنا چاہئے کہ فنڈنگ اور مدد فراہم کی جائے اور ٹی این وی آر کو گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں نافذ کیا جائے۔ تبھی یہ خطہ کتوں کو مارنے کے ظالمانہ چکر سے آزاد ہو سکتا ہے اور آوارہ جانوروں کے انتظام کے لئے زیادہ ہمدردانہ اور مؤثر نقطہ نظر کی طرف بڑھ سکتا ہے۔

گلگت بلتستان بالخصوص گلگت شہر میں باؤلے کتوں کے حملوں میں مسلسل اضافہ اس بات کا تقاضا کررہا ہے کہ محکمہ صحت، انتظامیہ اور محکمہ حیوانات کے باہمی تعاون سے ایمرجنسی نافذ کردی جائے اور سی ڈی آر ایس جیسی تنظیموں کے سہارے سے کتوں کی آبادی کنٹرول کرنے، اس میں موجودہ جراثیم کو بے اثر کرنے اور انسانی جانوں کو بچانے کےلئے فوری اقدامات اٹھائے جائیں۔

آپ کی رائے

comments

فہیم اختر

فہیم اختر پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ گلگت بلتستان کے صدر ہیں اور مقامی اخبارات میں صدائے گلگت کے نام سے کالم لکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔ پامیر ٹائمز کے مستقل کالم نگار ہیں۔
Back to top button