عدم تحفظ کا شکار بچے اور والدین کی ذمہ داریاں

کالم۔ قطرہ قطرہ
صبح دفتر پہنچتے ہی فیس بک پر ایک خبر نے دل ہلا کر رکھ دیا۔ گلگت بلتستان کی وادی اشکومن کے علاقے سے ایک کم سن بچے کی لاش دریا کے کنارے ملی، جو کئی دنوں سے لاپتہ تھا۔ ابھی اس دکھ سے ذہن سنبھلا بھی نہیں تھا کہ ایک ویڈیو نظر سے گزری پانچ سے دس سال کے چند ننھے بچے، کسی سنسان جگہ پر چھپ کر سگریٹ پی رہے تھے۔ وہ معصوم چہروں پر قبل از وقت بڑوں کی عادتوں کا عکس، دراصل ہمارے اجتماعی زوال کا منظرنامہ پیش کر رہا تھا۔ اس قبل بھی حالیہ مہنوں کے اندر گلگت بلتستان میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور ناروا سلوک کے کئ کیسسز مشاہدے میں آچکے ہیں۔
ان دو مناظر نے دل میں ایک ہی سوال جگا دیا، ہم والدین اپنی ذمہ داری کہاں کھو بیٹھے ہیں؟
والدین بننا قدرت کا انعام ضرور ہے، مگر اس انعام کے ساتھ ایک بڑی آزمائش بھی جڑی ہے وہ ہے شعور، صبر، محبت اور وقت کی آزمائش۔ بچے محض نسل کا تسلسل نہیں، بلکہ وہ ایک ایسی امانت ہیں جن کی تربیت خلوص، توجہ اور دانش مندی سے کی جانی چاہیے۔
بدقسمتی سے آج والدین کی ایک بڑی تعداد اپنی ذمہ داریوں کے مفہوم سے غافل ہے۔ ہمارے گھروں میں والدین اور بچوں کے درمیان فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ والدین سمجھتے ہیں کہ اگر وہ بچوں کو اچھی تعلیم، آرام دہ زندگی اور جدید سہولتیں دے رہے ہیں تو ان کا فرض ادا ہوگیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بچوں کو پیسے سے زیادہ والدین کی موجودگی، محبت اور سنجیدہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
جب والدین اپنی محفلوں، دوستوں اور سماجی سرگرمیوں میں کھو جاتے ہیں تو بچے تنہائی میں الجھ جاتے ہیں۔ یہی خلا بعد میں انہیں غلط دوستوں، بری عادتوں یا نفسیاتی دباؤ کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ والدین اگر تھوڑا سا وقت نکالیں، بچوں کی باتیں سنیں، ان کے احساسات کو سمجھیں، تو شاید کئی المیے جنم لینے سے پہلے ہی رک جائیں۔
آج کے زمانے میں والدین اگر بچوں کے دستیاب نہ ہوں تو پھر بچوں تربیت ، بد خصلت لوگ، بری صحبت، ٹی وی، موبائل، انٹرنیٹ اور دیگر عوام کرتے ہیں، ایسے میں بچوں کا عدم تحفظ کے علاوہ جرائم کی طرف راغب ہونا خارج از امکان نہیں ہے۔
جدید ٹیکنالوجی کا مثبت استعمال بچوں کو ضرور سیکھانا چاہئے ، ایسا تب ہی ممکن ہے جب والدین اپنی نگرانی میں بچوں کو کمپیوٹر اور موبائل کا استعمال سیکھائیں۔ جس کے لئے والدین کو اپنا قیمتی وقت بچوں کے نام کرنا ہوگا۔
بچوں کی نفسیات والدین کے باہمی تعلقات سے گہرا اثر لیتی ہے۔ گھر کا ماحول اگر کشیدہ ہو، والدین کے درمیان تلخ کلامی یا جھگڑے ہوں، تو بچے کے اندر خوف، غصہ یا عدمِ تحفظ کا احساس جنم لیتا ہے۔ ایسے بچے بڑے ہو کر یا تو جذباتی طور پر کمزور رہ جاتے ہیں یا بغاوت پر اتر آتے ہیں۔ اگر والدین کسی ذہنی دباؤ، گھریلو تشدد یا ازدواجی کشمکش میں مبتلا ہیں تو فیملی کونسلنگ حاصل کرنا ناگزیر ہے۔ یہ کمزوری نہیں بلکہ ذمہ داری کا اظہار ہے۔
اگر حالات اس نہج تک پہنچ جائیں کہ والدین کا ساتھ رہنا ممکن نہ رہے، تو بچوں کو قربانی کا میدان نہ بنایا جائے۔ والدین بچوں کو اپنی انا کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔ ایسے وقت میں والدین کو بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بچوں کے لیے مشترکہ منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ بچوں کو ماں اور باپ دونوں کے پیار، موجودگی اور رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ان میں سے ایک بھی عنصر غائب ہو تو بچے کے اندر ایک خلا پیدا ہوتا ہے جو ساری زندگی اس کے رویے اور نفسیات کو متاثر کرتا رہتا ہے۔
شادی ایک جذباتی فیصلہ نہیں بلکہ ایک سماجی معاہدہ ہے۔ اس معاہدے میں داخل ہونے سے پہلے دونوں فریق کو اپنے نظریات، عادات، اور مالی حالات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ اگر ذہنی ہم آہنگی ممکن نہیں تو شادی کے ابتدائی سال میں علیحدگی بہتر ہے، بجائے اس کے کہ معصوم بچوں کو ایک تلخ ازدواجی زندگی کی قیمت چکانی پڑے۔
ایک خوشحال اور مضبوط خاندان کے لیے محبت کے ساتھ ساتھ عقل، برداشت، خلوص اور قربانی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ روزمرہ کے اختلافات میں "میں” اور "تم” کی بجائے "ہم” کی سوچ اپنانی چاہیے۔ بچوں کی تربیت والدین کی مشترکہ ذمہ داری ہے، جو وقت، قربانی اور ذاتی آسائشوں کی قربانی مانگتی ہے۔
حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ والدین کو پرنٹنگ سکل سکھانے کے لئے تربیتی پروگرامز کا انعقاد کرے۔ نکاح خواں کو پابند کیا جائے کہ وہ نئے شادی شدہ جوڑوں سے بچوں کی بہتر پرورش کا حلف لے۔ ممکن ہو تو شادی سے قبل جوڑوں کی مینٹل سکرینگ کی جائے تاکہ ذہنی امراض میں مبتلا افراد بعد ازاں والدین بن کر آپس میں یا بچوں کے لئے مشکلات کا باعث نہ بنیں۔ شادی کے ابتدائی ایام میں نئے جوڑوں کی کونسلنگ کی جائے تاکہ وہ اپنی ازواجی زندگی میں بہتر فیصلے کر سکیں۔ جن بچوں کے والدین کسی وجہ سے بچوں سے دور ہیں ان کو قانونی طور پر پابند کیا جائے کہ وہ بچوں کے ساتھ رابطے میں رہیں اور مشترکہ طور پر بچوں کی پرورش کی ذمہ داریاں نھبائیں۔ کسی ایک فریق کی طرف سے تعاون نہ ہو تو اس کے خلاف قانونی جارہ جوئی کی جائے۔ اسی طرح بچوں کو گھروں میں چھوڑ کر آوارہ گردی کا شکار والدین کو پابند کرنے کے لئے قانون سازی کی جائے۔ ایسے والدین کے خلاف کارروائی کے لئے بچوں کی شکایات سیل بنانے کی ضرورت ہے جہاں پر نظر انداز شدہ بچے ، ہمسایے یا رشتہ دار غیر ذمہ دار والدین کی شکایات درج کر سکیں تاکہ حکومتی لوگ ان تک رسائی حاصل کرکے بچوں کی شکایات دور کر سکیں۔ دنیا کے کئ معاشروں میں اس کام کے لئے شکایات سیل اور عدالتیں موجود ہوتی ہیں جہاں بچے اپنے والدین کی شکایات درج کراسکتے ہیں اور ان کے غیر ذمہ دارانہ حرکات کا احتساب کیا جاسکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جو والدین اپنے بچوں کو وقت، محبت اور رہنمائی نہیں دے سکتے، وہ صرف حیاتیاتی طور پر والدین ہیں ، حقیقی معنوں میں نہیں۔ بچے ہمارا آج نہیں، ہمارا کل ہیں۔
اگر آج ہم نے ان کی سمت درست نہ کی، تو آنے والا کل صرف گمشدہ بچوں اور ٹوٹے ہوئے خوابوں کی داستان بن جائے گا۔




