کالمز

’’نگاہِ اہلِ دل سے انقلاب آئے ہیں دنیا میں‘‘

 تیسر ی دنیا کے غیر ترقی یافتہ ممالک کے عوام کے لئے دودھ سے ملبوسات تیار کرنے کی خبر کسی دیومالائی قصے کی مانند ہی ثابت ہو سکتی ہے اور خصوصاََپاکستان میں مذہبی حلقوں کو فتویٰ فروشی کا بازار گرم کرنے جبکہ علمی حلقوں کو قدیم مسلمان سائنسدانوں کی خدمات کوبچپن کی کسی پریم کہانی کی طرح یاد دلادلا کر رنگ برنگی ڈگریاں تقسیم کرنے کے علاوہ زندگی کے مختلف شعبوں میں ترقی پسندی اور جدّت کی جانب رغبت کے لئے آخر وقت ہی کہاں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟لیکن جرمن مائیکرو بیالوجسٹ اور فیشن ڈیزائنر Anke Dameske نے دودھ سے ملبوسات تیار کرکے سائنس کے ساتھ ساتھ فیشن کی دنیا میں بھی انقلاب برپا کیاہے۔ انہوں نے فیشن ڈیزائننگ کا آغاز اپنے بچپن سے کیا اور جاپان میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد جرمنی کا دوبارہ رخ کرکےQmilkنامی کمپنی کی بنیاد رکھی جس میں دودھ سے ملبوسات تیار کیے جاتے ہیں۔انہوں نے 2003ء میں اپنی کمپنی کے ملبوسات کی جرمنی،جاپان اور پورے پورپ میں نمائش کی جبکہ ان کی کاوشوں کو پوری دنیا میں پذیرائی ملی۔

Anke Dameskeکے مطابق’’ دودھ بلاشبہ ایک قدرتی تحفہ ہے لیکن یہ خوراک کے ساتھ ساتھ دیگر مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ہماری ٹیم نے کئی سالوں کی تحقیق کے بعد ثابت کیا کہ دودھ سے کپڑا بھی تیار کیا جاسکتا ہے۔ان ملبوسات کی خصوصیت یہ ہے کہ جراثیم کش ہونے کے ساتھ ساتھ زائد عمری کے اثرات کو زائل کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔6سے 7لیٹر دودھ سے تیار ہونے والا لباس اعلیٰ پائے کے عام لباس کی نسبت سستا بھی ہوتا ہے جبکہ ان کو عام کپڑوں کی طرح دھویا اور استری بھی کیا جاسکتا ہے‘‘

یونیورسٹی آف برلن جرمنی کی ایک رپورٹ کے مطابق جرمنی میں ہر سال2لاکھ ٹن دودھ ضائع کیا جاتا ہے جبکہ دودھ میں 200وٹامنز،منرلزاور پروٹین شامل ہوتے ہیں۔جن کو جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے محفوظ بھی کیا جاسکتاہے ۔اس طرح جرمن خاتون Anke Dameskeمستقبل میں دودھ کے ضیاع کو کم کرکے اس کو زیرِ استعمال لاکر ملبوسات تیار کرکے جرمنی کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں پھیلانے کا عزم رکھتی ہے ۔اس کے علاوہ وہ ان ملبوسات کو استعمال کرکے اپنے کینسر زدہ والد کے مرض پر بھی قابو پانا چاہتی ہے۔

پاکستان دنیا میں دودھ کی پیداوارکے حوالے سے چوتھے نمبر پر سر فہرست ہے اور سال 2015 ء میں پیداوار42لاکھ ٹن سے زائد تھی جبکہ مستقبل میں پیداور مزید بڑھ سکتی ہے لیکن اس کو محفوظ کرنے کے حوالے سے جدید ٹیکنالوجی کے فقدان کے باعث ضیاع کے بھی خدشات پائے جاتے ہیں۔پاکستان بھی جرمنی کی طرح اس ماحول دوست ٹیکنالوجی سے استفادہ کرکے کثیر زرمبادلہ کما سکتا ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے ملک میں حکومتی سطح پر عوام دوست اقدامات نہایت کم ہی اٹھائے جاتے ہیں اور یہاں کی نوجوان نسل بھی اپنی مدد ااپ کے تحت تخلیقی اور تحقیقی سرگرمیوں سے گریزاں نظر آتی ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں نوجوان تخلیقی اور تحقیقی اقدامات اٹھا کر دنیا میں زندگی کے مختلف شعبوں میں انقلاب برپا کرتے ہیں لیکن ان کو حکومتی سرپرستی ضرور حاصل ہوتی ہے۔پاکستان میں ایگریکلچر سے متعلق تعلیمی ادارے تحقیق کے بعد طلباء کو اس ٹیکنالوجی کے حوالے سے تربیتی ورکشاپ اور سیمینارمنعقد کرکے شعور و آگاہی دے سکتے ہیں تاکہ مستقبل میں طلباء فارغ التحصیل ہونے کے بعداس ٹیکنالوجی کو بروئے لا سکیں۔اس کے علاوہ پاکستان میں دودھ سے ملبوسات تیار کرنے کی ٹیکنالوجی کوزرعی تعلیم کے نصاب میں بھی شامل کرکے خاطر خواہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں اور پاکستان مستقبل میں دودھ سے ملبوسات تیار کرکے نہ صرف ملکی سطح پر استعمال میں لاسکتاہے بلکہ بر آمد کرکے کثیر زر مبادلہ بھی کما سکتا ہے اس کے ساتھ ساتھ دودھ سے تیار کردہ ملبوسات کو فروغ دے کرجلدی امراض پر بھی کسی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ سال دہلی فیئر فیسٹول میں گجرات انڈیا سے تعلق رکھنے والے کچھ فیشن دیزائنرز نوجوانوں نے بھی دودھ سے تیارکردہ ملبوسات کی نمائش کی تھی اور وہ مستقبل میں ان ملبوسات کو ہندوستان بھی میں پھیلانے کا عزم رکھتے ہیں۔

اردو ادب کے نامور شاعر فراق کورکھ پوری نے کیا خوب کہا ہے۔

نگاہِ اہلِ دل سے انقلاب آئے ہیں دنیا میں
تقین رکھ عشق اتنا بے سروساماں نہیں ہوتا

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button