کالمز

قومی ابتری کے بنیادی اسباب

اس ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں پر بد عنوانی چوری چکاری دوسروں کے حقوق پر شب خون مارنا اختیا رات کا نا جائز استعمال اقر با پر وری اس قدر مستحکم ہو چکی ہے کہ ایک عام آدمی اس ماحول کے اندر گھٹن محسوس کرنے لگا ہے۔چاروں سمت افراء تفریح ہے با اسر کا اتنا اسر ہے کہ قانون شکنی اس کیلے معمولی بات ہے اصول قانون اخلاقیات کے سارے بندہن غریب اور متوست طبقات کیلے ہیں تخت پر برائے جمان شاہ سے لیکر د ربان تک سبھی اپنے لیے راستہ نکالتے ہیں بھلے اس میں قانون قائدہ پامال ہو کسی کے جائز حقوق ملے یا نہ ملے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے ریاستی وسائل کے دروازے امیروں کیلے کھلے ہیں طاقتور مذید طاقت پکڑتا جارہا ہے ریاستی ادارے کمزور ہوتے جارہے ہیں مخصوص گروہ پر مہربا نیاں ہو رہی ہیں ۔ غریب بلک سسک کی حالت میں ہیں کوئی پر سان حال نہیں ہے چھوٹے سے معا ملے کیلے بڑی شخصیت کی سفارش ضروری ہے بغیر اسر رسوخ کے معمولی سا کام بھی حل نہیں ہوتا ہے ایک پٹواری ایک معمولی بابو بھی ایم این اے ایم پی اے وزیر مشیرکے سفارش کے بغیر کسی غریب کے فائل کو آگے پٹ اپ نہیں کرتا ہے۔ گلی محلوں شہر قصبوں میں غریب کے جان و مال غیر محفوظ ہے امیر کا بچہ میٹرک کلیٹ بھی تعلیم یا فتہ کہلاتا ہے غریب کا بچہ جتنا بھی تعلیم یافتہ ہو جاہل گنوار ہی کہلا ئے گا روز گار کے دروازے غریب کیلے بندہ ہیں چاچے مامے بھائی بھانجے والا کلچر عروج پر ہے۔جس کا آگے پیچھے کوئی ہے سب کچھ اسی کا ہے جس کا کوئی نہیں ہے اس کا تو خدا حا فظ ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس ملک کو ستر سال ہو گئے اب بھی ہم آگے کے بجائے پیچھے جا رہے ہیں دنیا چاند ستاروں تک پہنچ گئی مریخ پر انسانی زندگی کے اثار تلاش کیے جا رہے ہیں ہم اب بھی پتھر کے زمانے میں ہیں ملک کے طول و عرض میں معاشرہ بھوک و افلاس کا شکار ہے بغیر چھت کے کھلے آسمان تلے فٹ پاتھ پر ایک دنیاں آباد ہے ۔بچے برائے فروخت رکارڈ کا حصہ ہے غربت کی وجہ سے خدکشیاں ہو رہی ہیں علاج معالجہ کے بغیربے موت لوگ مر رہے ہیں قانون کی بالا دستی برائے نام ہے غریب ریاستی چھتری تلے غیر محفوظ ہیں زمیندار کے ہاتھوں کیسانوں اور ہا ریوں کے بچوں کے بازو کٹے جا تے ہیں قبضہ ما فیا لوگوں کے جائدادیں چھین رہے ہیں سود خوری سرے عام فیشن بن چکی ہے قومی وسائل کو زاتی پراپرٹی میں تبدیل کیا جا رہا ہے اہم قومی اثاثے بیٹھ گئے سٹیل مل بندہ ہونے کے قریب ہے پاکستان ایر لائنخسارے میں ہے ریلوے کا برا حال ہے تمام قومی منافع بخش ادارے سیاسی اکھاڑہ بن چکے ہیں قومی دولت ملک سے باہر منتقل کیا جا چکا ہے ڈالروں کی گٹھلیاں ہوائی اڈوں پر پکٖڑے جا تے ہیں ملک مقروض ہوتا جا رہا ہے حکمرانوں کی دہند دولت میں روز ازافہ ہوتا جا رہا ہے ہر آنے والی حکومت خالی خزانے کی ڈھنڈورا پیٹتی ہے ہر کوئی اپنے آپ کو امام مسجد اور سابقہ کو شیاطین گردانتا ہے پھرالزام تراشیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے کوئی کاروائی نہیں ہوتی ہے اگر کسی نے قومی دولت لوٹا ہے ثبوت موجود ہے تو اس قومی مجرم کو پکڑتے کیو ں نہیں ہے؟اگر حقیقت نہیں ہے محض الزام تراشی ہے تو بے جا الزام لگانے والے صادق و امین کیسے کہلا ینگے ؟ اگر سابقہ اور موجودہ حکمران ایماندار اور فرشتہ صفت ہیں تو ان کی طرح ملک بھی طرقی کیوں نہیں کرتا؟ گزشتہ ستر سالوں سے مو جودہ اور سابقہ حکمرانوں کی زاتی طرقی اور ملکی تنزلی کا جا ئزہ لیے تو سارا ما جرا کھل جاتا ہے۔چند سالوں میں فٹ پاتھ سے محلات کا سفر کیسے طے کیا؟پھر بھی عوامی حقوق کے حصولی قومی وسائل کو غلط استعمال کرنے پر احتجاج کرنے والوں کو اغیار کا کارندہ کہلا نا جائز ہے؟قوم کی لٹی ہوئی دولت کو اگر کوئی جماعتیں یا افراد واپس لانا چاہتے ہیں تو اس سے جمہو ریت اور ملک کو کیا خطرہ ہے؟ یقیناًًکسی کے آنے جانے سے ملک کو کوئی خطرہ نہیں ہے کتنے آئے اور گئے الحمد لللہ یہ ملک اتنا لوٹ گھسوٹ کے باوجود بھی قائم ہے اور قیامت تک قائم و دائم رہے گا ۔اگر کوئی خطرہ ہے تو صرف کرسیوں کو ہے اور کرسیاں مخصوص خاندانوں یا ان کے حواریوں کے پاس ہیں جن کی تعداد بیس کروڑ پا کستانیوں میں ایک فیصد بھی نہیں بنتی ہے ان کے آنے جانے سے ملک و ملت کے صحت پر کوئی اسر نہیں پڑتا ہے۔گزشتہ ستر سالوں سے ملک کا یہی واستہ دیکر کرسیوں کو بچا یا جاتا رہا ہے اب تک اس قوم کے ساتھ کرسی کرسی کھیلا گیا ہے اس ملک کی تحفظ دنیا کی بہترین پیشہ ور فوج کر رہی ہے جن کا سامنا دنیاں کی کوئی طاقت نہیں کر سکتی ہے ان کی ہمت عزم و استقامت کی پوری دنیاں متعرف ہے ۔اگر کوئی خطرہ اس ملک کو ہے تو صرف اور صرف کرپشن بد عنوانی اقر با پروری لوٹ مار کمیشن ما فیا اور لسانی گروہی تفریق سے ہے ۔ جمہو ریت کے نام پر ایک طبقہ نے بیس کروڑ انسانوں کو یر غمال بنا کہ رکھا ہے حق کی بات کرنے والوں کو جمہوریت مخا لف اور ملک دشمن قرار دیا جاتا ہے ایک اچھے بھلے نظریاتی ملک کو سکیولر بنانے کے درپے ہیں دنیاں پانچ دس سالوں میں صدیوں کی سفر طے کرتی ہے ہم پونے صدی بعد بھی وہی پر کھڑے ہیں اب تک اس ملک کا کوئی ادارہ ٹھیک نہیں ہوا رشوت خوری چوری چکاری کمیشن ما فیا اقربا پروری اس حد تک سرائت کر گئی ہے کہ اب تو ناسور کی شکل دہار چکی ہے جو کہ ایک لا علاج مرض ہے تیس سال کے بعد یہ ملک سو سال کا ہو جائے گایہی نظام رہا اور یہ چاچے مامے والا موروثی طرز بادشاہت رہی تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس قوم کا کچھ بھی بننے والا نہیں ہے دنیاں کے ترجیحات تبدیل ہو چکے ہیں قدیم انداز اطاعت کا زمانہ نہیں رہا عوام کو اپنے منتخب کردہ نمائندوں کی محا سبہ کرنا چاہیے اور حق رائے دہی کے استعمال میں انتہائی احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ معاشرے کے ہر فرد کو بہتری کیلے کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم تمام شعبوں میں جمود کو توڑ سکے اور تیز رفتار طرقی یا فتہ دنیاں کے شانہ بشان چل سکے خاص کر سیاستدانوں کو بھی اپنے روایتی انداز شہنشاہت کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے چو نکہ اب سیاست میں اٹھارویں صدی کے باقیات کیلے کوئی جگہ نہیں ہے چوری چکاری اورکمیشن مافیا کو لگام دیکرلوٹ گھسوٹ کے بازار کو بند کرنا چاہیے تاکہ کم از کم آنے والی نسل پتھر کے زمانے سے باہر نکل سکے ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button