کالمز

چترال میں تعلیم کی شرح اور پسماندگی

زکریا ایوبی 

حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر یہ بات زیر بحث رہی ہے کہ چترال تعلیمی شرح کے لحاظ سے صوبے میں دوسرے یا پھر تیسرے نمبر پر ہے لیکن ہم پھر بھی پسماندہ کیوں ہیں ؟ اس بارے میں ہر کوئی اپنا نقطہ نظر پیش کر رہا ہے اور وہ اپنے اپنے دلائل کی رو سے صحیح بھی ہیں ۔یہ بات سچ ہے کہ چترال میں تعلیم کی شرح نہ صرف صوبے میں بلکہ پورے ملک میں نمایاں مقام پر ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہم تعلیم حاصل کرنے کے بعد تعلیم یافتہ بھی ہوتے ہیںیا صرف سند یافتہ ہونے پر ہی اکتفا کر کے بیٹھ جاتے ہیں ۔اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ہم میں سے بہت کم ایسے ہیں جو تعلیم یافتہ ہونے کی نیت سے تعلیم حاصل کررہے ہوتے ہیں ۔اکثریت تو ڈگری لینے اور اچھے نمبر لانے کے چکر میں ہوتے ہیں۔جب یہ ڈگری اور اچھے نمبروالے مقابلے کے میدا ن میں آتے ہیں تو ان کو چکر آنے لگتا ہے ۔ پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ چھوٹے سکیل کے پوسٹ کے لیے جس کے اچھے نمبر ہوتے تھے وہ میرٹ کی بنیاد پر دوسرے کم نمبر والوں پر بازی لے جاتے تھے۔ لیکن اب صورتحال مختلف ہے ۔ نئی حکومت نے این ٹی ایس کا جو نظام متعارف کیا ہے اس میں کوئی کتنا ہی زیادہ نمبر والے کیوں نہ ہوں جب تک وہ ٹسٹ میں کامیابی حاصل نہیں کر پاتے، نمبر کسی کام کے نہیں ۔اس نظام کے آنے سے کسی حد تک طالب علموں میں مطالعے کا رجحاں پیدا ہو گیا ہے لیکن جب بنیاد ہی غلط ہو تو عمارت کبھی بھی صحیح تعمیر نہیں ہو سکتی ۔ اس لیے اب این ٹی ایس کے ٹسٹ پاس کرنے کے لیے بھی اکثر طلبا شارٹ کٹ راستہ اختیار کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں ۔

یہ حقیت ہے کہ کم و بیش ہر سکول اور کالج میں لائبریری موجود ہوتی ہے لیکن وہاں سے طالب علم تو دور کی بات اکثر اساتذہ بھی کوئی کتاب اٹھا کرپڑھنا گوارا نہیں کرتے۔اساتذہ کو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ نصابی کتابوں کو پڑھ کر امتحان پاس کیا جا سکتا ہے لیکن صرف نصابی کتابوں کا رٹہ لگا کرکوئی استاد نہیں بن سکتا ۔ایک استاد کے لیے یہ بات ضروری ہوتی ہے کہ وہ اپنے سٹوڈنٹ کو کسی بھی طرح کے سوال پوچھنے پر مطمئن کر سکے۔مجھے ایک سکول میں چھ مہینوں کے لیے پڑھانے کا موقع ملا ۔ وہاں پڑھانے کے ساتھ ساتھ لائبریری کا انتظام بھی میرے ہاتھ میں تھا ۔پورے چھ مہینوں میں کبھی کسی ٹیچر نے مجھ سے کوئی کتاب لے کر نہیں گیا اور نہ ہی وہاں بیٹھ کرمطالعہ کرنے کی زحمت گوارہ کی۔تین سو سے زیادہ طالب علموں میں سے صرف ایک طالبہ ایسی تھی جو ہر ہفتے کوئی نئی کتاب گھر لے کر جاتی تھی آج وہ اپنی قابلیت کی بنیاد پر میری لینڈ(امریکہ ) میں نویں سٹیج میں پڑھتی ہے اور پہلے سہ ماہی میں بیسٹ سٹوڈنٹ کا ایوارڈ اپنے نام کر چکی ہے۔

یہ صرف ایک سکول یا کالج کی صورتحال نہیں ہے بلکہ کم و بیش ہر تعلیمی ادارے میں ایسا ہی ہو رہا ہے ۔طالب علموں کو مطالعہ کرنے کو کہا جاتا ہے لیکن کس چیز کا مطالعہ کیا جائے یہ کوئی نہیں بتاتا اس لیے وہ صرف نصابی کتابوں کو رٹ کر امتحان کی تیاری تو کرلیتے ہیں لیکن جب عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو مقابلہ کرنے کی سکت نہ ہونے کی وجہ سے آگے نہیں جا سکتے ۔ایسا صرف اس لیے ہے کہ جب تک ایک استاد خود مطالعہ نہ کرتا ہو وہ اپنے سٹوڈنٹ کو کیسے سمجھا سکتا ہے کہ اس نے کیا پڑھنا ہے اور کیسے پڑھنا ہے۔اور جب تک کسی معاشرے کے لوگ قومی سطح پر خود کو نہ منوائیں وہ معاشرہ پسماندگی کا شکار ہی رہے گا ۔اور قومی سطح پر خود کو منوانے کے لیے اس معاشرے میں ایسے لوگ ہونے چاہیں جو کوئی بھی اعلی عہدہ سنبھالنے کے قابل ہوں۔ ایسی قابلیت صرف سند یافتہ ہونے سے نہیں آتی بلکہ اس کے لیے تعلیم یافتہ ہونا بھی ضروری ہوتی ہے۔ 

اس کے علاوہ ایک رجحان ہمارے ہاں بہت زیادہ پایا جاتا ہے کہ ہم تعلیم حاصل کرنے کے بعد سوچتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ بہت کم طالب علم ایسے ملتے ہیں جو کالج یا یونورسٹی جانے سے پہلے طے کر لیتے ہیں کہ میں مجھے کیا کرنا ہے۔ ان میں سے بھی اکثر کی نظریں کسی قریبی سکول یا کالج پر ہوتی ہیں کہ واپس آکر مجھے یہاں پر پڑھانا ہے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ استاد بننا ایک بہت عزت کی بات ہے لیکن کیا استاد صرف اپنے علاقے کے کالج یا سکول میں ہی بننا ضروری ہے؟ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم کسی قومی تعلیمی ادارے کو اپنا ہدف بنائیں اور اس لحاظ سے محنت کریں کہ اس ادارے میں پڑھانے کے قابل ہوجائیں ۔آخر صرف استاد ہی کیوں کچھ اور کیوں نہیں ؟ ہم ڈی سی، ایس پی،صحافی ، لکھاری یا کوئی منتظم اعلیٰ بننے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔صرف اس لیے کہ ہمیں کسی نے پڑھایا ہی نہیں کہ صحافی کیا ہوتا ہے؟ایس پی بننے کے لیے کیا کرنا ہوتا ہے اور لکھاری کس بلاکا نام ہے؟ایک بار پھر ذمہ داری اساتذہ پر عائد ہوتی ہے کہ جب تک وہ ہر لحاظ سے با خبر نہیں ہونگے وہ اپنے طالب علموں کو کچھ نہیں بتا سکتے ۔لہذا ہمیں یہ بات ماننی چاہیے کہ ہماری پسماندگی کی ایک بڑی وجہ مطالعے کا فقدان ہے۔

اور جب تک ہم قومی سطح پر مقابلہ کرنے کے قابل نہ ہوجائیں تعلیم کی شرح سو فیصد ہی کیوں نہ ہو جائے ہم پسماندہ ہی رہیں گے ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

ایک کمنٹ

  1. Really a very nice post and vigilant observation, i appreciate from the core of my heart ur suggestions.

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button