ملینیم ترقیاتی اہداف کے حصول کے لیے قائم ٹاسک فورسز کی کانفرنس کا آغاز ہوگیا
اسلام آباد : قومی اسمبلی کے زیر اہتمام ملینیم ترقیاتی اہداف کے حصول کے لیے قا ئم ٹاسک فورسز کی تین روزہ کانفرنس کا آغاز آج پیر کوپاکستان انسٹیٹیوٹ فار پالیمنٹری سروسز(PIPS) میں ہورہا ہے۔ کانفرنس کا مقصد مقننہ اور عوامی نمائندوں میں ان اہداف کےمتعلق آگہی پیدا کرنا اور ان کے حصول سے متعلق قانون سازی اور عمل درآمد کو موثر بنانا ہے۔ سپیکرقومی اسمبلی جناب سردار ایاز صادق نے ایم ڈی جیز کے حصول کے لیے وفاقی پارلیمان سمیت چاروں صوبائی اسمبلیوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلیوں میں پارلیمانی ٹاسک فورسز تشکیل دی تھیں۔ اس مہم کی قیادت رکن قومی اسمبلی محترمہ مریم اورنگ زیب کر رہی ہیں۔ ٹاسک فورسز کی یہ کانفرنس 2جون سے 4جون 2014 تک جاری رہے گی۔ یہ کانفرنس عوامی نمائندوں میں ترقیاتی شعبے سے متعلق قانون سازی، نمائندگی اورشفافیت کے عمل کو برقرار رکھنے سے متعلق شعور پیدا کرنے کا باعث ہوگی۔دو روز تک جاری رہنے والی اس کانفرنس میں آٹھ ترقیاتی اہداف سے متعلق دس اجلاس منعقد ہونگے۔
ملینیم ترقیاتی اہداف کے حصول اور مستقبل کا ترقیاتی ایجنڈا طے کرنے کے لیے کی جانے والی اس مشاورت کو بامعنی بنانے کے لیے عالمی اور قومی سطح کے ماہرین شریک ہوں گے۔ کانفرنس کے پہلے روز دو جون کو ہونے والے پہلے اجلاس کا موضوع بہتر گورننس اور احتساب ہوگا جس کی معاونت اقوام متحدہ سے وابستہ قانونی اور انتظامی ماہر ہما چغتائی کریں گی جبکہ معروف قانون دان احمر بلال صوفی، سینیٹر صغریٰ امام اورسیکرٹری قانون و انصاف بیرسٹر ظفراللہ اپنےخیالات کا اظہار کریں گے۔ دوسرے روز تین جون کو پانچ اجلاس ہوں گے۔ ترقیاتی اہداف کے حصول میں سرکاری و نجی اشتراک کار کی اہمیت کے موضوع پر تعلیم کے شعبے سے وابستہ اور ایجوکیٹرز سکولز کے ڈائریکٹر جناب علی رضا معاونت کے فرائض سرانجام دیں گے جبکہ انتظامی امور کے ماہر کامران کیانی اور سماجی کارکن سیما عزیز بطور مقررین شرکت کریں گے۔ امتیازی رویے اور عدم مساوات کے خاتمے پر رکھے گئے اجلاس میں کشف فاونڈیشن کی بانی سربراہ روشانے ظفر معاون ہوں گی اور قائد اعظم یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر عالیہ خان اور معاشی ماہر سردار احمد نواز سکھیرا شریک ہوں گے۔ معیاری تعلیم کی فراہمی کے حوالے سے ہونے والے اجلاس کی میزبانی الف اعلان نامی مہم کے سربراہ مشرف زیدی کریں گے جبکہ وزیر مملکت برائے تعلیم بلیغ الرحمٰن، سابق رکن قومی اسمبلی شہناز وزیر علی اور ماہر تعلیم بیلا رضا جمیل مہمانِ خصوصی ہوں گے۔ ترقئ نسواں اورصنفی امتیاز کاخاتمہ کے موضوع پر ہونے والے اجلاس میں سابق سپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا، اراکین قومی اسمبلی ڈاکٹر نفیسہ شاہ اور شائستہ پرویز ملک اور قومی کمیشن برائے خواتین کی چئیرپرسن محترمہ خاور ممتاز خیالات کا اظہار فرمائیں گی اور ان کی معاونت سماجی کارکن ماروی سرمد کریں گی۔ اسی روزمنعقد کیے جانے والا آخری اجلاس صحتمند مستقل کی سمت سفر کے عنوان سے منعقد کیا جائے گا۔ اس اجلاس میں وزارت منصوبہ بندی اور ترقی سے وابستہ ڈاکٹر غلام اصغر عباسی ، ڈاکٹر زیبا ستار اور ڈاکٹر نبیلہ علی خطاب کریں گے اور ان کی معاونت WHO کی ڈاکٹر مریم ملک کریں گی۔ کانفرنس کے آخری دن چاراجلاس منعقد ہونگے۔ وزیر مملکت برائے صحت محترمہ سائرہ افضل تارڑ ، اراکین قومی اسمبلی عذرا فضل پچیہو اور عائشہ رضا فاروق” صحت اور جان لیوا بیماریوں کے تدارک” سے متعلق اجلاس سے خطاب کریں گی جبکہ ان کی معاونت ڈاکٹر فہمیدہ اقبال خان کریں گی۔ اسی روز موسمیاتی تبدیلیوں اور اس کے اثرات کے حوالے سے ہونے والے اجلاس سے محترم ایوب قطب اورWWF کے منیجنگ ڈائریکٹر علی حبیب خطاب کریں گے اور اس کی معاونت محترمہ تانیہ خان کریں گی۔ ترقی کے عمل میں نوجوانوں کی شرکت کے عنوان سے منعقد ہونے والے اجلاس سے رکن قومی اسمبلی اسد عمر اور روٹس سکول سسٹم کے فیصل مشتاق خطاب کریں گے۔
اجلاس کے معاون جوائنٹ سیکرٹری قومی اسمبلی جناب شمعون ہاشمی ہوں گے۔ کانفرنس کے آخری اجلاس کا موضوع شہری ترقی اور جمہوریت کے استحکام کے لیے صحافت، سول سوسائٹی اور نجی شعبے کے اشتراکِ کار ہوگا جس کی معاونت معروف صحافی و تجزیہ نگار طلعت حسین کریں گے جبکہ رکن قومی اسمبلی ماروی میمن، سینیٹر مشاہد حسین سید اورسماجی کارکن ثمر من اللہ اپنے خیالات کا اظہار کریں گے۔ ان مشاورتی اجلاسوں کے اختتام پر شرکا ایک لائحہ عمل مرتب کریں گے جو کانفرنس کے منتظمین کو آئندہ حکمت عملی طے کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ عالمی سطح پر ترقیاتی اہداف طے کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے زیرِ نگرانی نئی صدی کے آغاز پرستمبر 2000 میں ملینیم ڈیکلریشن طے کیا گیاتھا جس کی 189 ممالک کے رہنماؤں نے توثیق کی۔ اس معاہدے کی روشنی میں کچھ ایسے اہداف وضع کیے گیے جن کی کارکردگی کو غیر جانبدارانہ طریقے سے ماپنا ممکن تھا۔ ان اہداف کو طے کرنے میں نوے کی دہائی کے دوران ترقی کے موضوع پر ہونے والی عالمی مشاورت سے حاصل شدہ رہنمائی بھی شامل تھی۔یہ آٹھ ملینیم ترقیاتی اہداف سماجی، معاشی اور صنفی امتیازات کے خاتمے کے مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے تیار کیے گیے تھے۔ ان آٹھ اہداف میں سے ہر ایک کے مقابل چند ایسے قابل پیمائش انڈیکیٹرز رکھے گئے کہ جن کی بنیاد پر ان طویل مدتی اہداف کی کارکردگی جانچی جاسکتی ہے۔یہ آٹھ اہداف درج ذیل ہیں: • غربت اورشدید بھوک کا خاتمہ • بنیادی تعلیم کی فراہمی • صنفی امتیاز کا خاتمہ اور ترقئ نسواں • بچوں کی اموات کی شرح میں کمی • زچہ کی مناسب دیکھ بھال • ایڈز، ملیریا اور دیگر جان لیوا بیماریوں سے جنگ • ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانا • ترقی کے لیے عالمی اشتراک کا فروغ پاکستان نے ان اہداف سے متعلقہ سولہ مخصوص ٹارگٹس اور اکتالیس انڈیکیٹرز پر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ ان اکتالیس میں سے تینتیس انڈیکیٹرز پر حکومتی کارکردگی کے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق پاکستان صرف نو انڈیکیٹرز پر مطلوبہ کارکردگی دکھا پایا ہے جبکہ بقیہ چوبیس انڈیکیٹرز پر پاکستان کی کارکردگی مطلوبہ ہدف سے خاصی کم ہے۔
ملینیم ترقیاتی اہداف کے حصول میں خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھا سکنے کی ایک وجہ پاکستان کا سیاسی عدم استحکام بھی رہا ہے۔ نئی صدی کے پہلے آٹھ سال کےدوران ایک فوجی صدرکے برسر اقتدار ہونے اور سیاسی محاذ آرائی کے باعث حکومت ان ترقیاتی اہداف پر خاطر خواہ توجہ نہیں دے پائی۔ اس عرصے میں پے درپے آنے والی قدرتی آفات، جن میں 2005 کا زلزلہ، 2008، 2010 اور 2011 کے تباہ کن سیلاب شامل ہیں، نے بھی ان اہداف کے حصول میں مشکلات کھڑی کیں۔ مزید برآں گذشتہ دورحکومت میں کی جانے والی اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد ملینیم اہداف سے متعلقہ کئی وفاقی محکمے صوبوں کو منتقل کردیے گیے جن میں تعلیم، صحت اور نسوانی ترقی کے محکمہ جات شامل ہیں۔ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا یہ عمل خاصا پیچیدہ ہے جس کی وجہ سے بھی ان اہداف کی تکمیل تعطل کا شکار ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ نے بھی اس عمل کو متاثر کیا ہے۔