گلگت بلتستان کے نوجوانوں کے نام
بین الاقوامی تعریف کے مطابق 15 سے 35 سال کے درمیان عمر والے لڑکے لڑکیاں نوجوان (Youth) کہلاتے ہیں۔اس تعریف کے مطابق گلگت بلتستان کی کل آبادی میں سے تقریباً دس لاکھ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔اس جنتِ نظیر خطے کے حال اور مستقبل کا انحصار انہی نوجوانوں پر ہے۔ اگر ان نوجوانوں کی سوچ وفکر لطیف اور انسان دوست احساسات سے بھر پور ہو گی تو اِن کی مثال پھو ل اور دِیا کی ہو گی۔ ان کا رویہ اور طرز عمل مثبت ہوگاتو یہ ابرِ باراں کے مانند ہونگے۔ ان میں ٹھہراؤ، تدبر ، صبر و تحمل ، برداشت، عفودرگزر اور مستقل مزاجی جیسے اعلیٰ انسانی خصائل پائے جائیں تو یہ گوہرِ نایاب ہو نگے ۔کیونکہ لعل وگہر ہمیشہ گہرائی میں پائے جاتے ہیں ۔ اگر ان میں خودی کاجذبہ اور وسعت قلبی اور وسیع النظری بدرجہ اتم موجود ہوں تو یہ اقبال کے شاہین کہلائیں گے۔ یہ نوجوان اعلیٰ اخلاقی اقدار کے امین، انسانیت کے محافظ، تخریبی غلاظوں سے پاک، محبتوں اور امن کے سفیر، دانش و بِینش کے طلبگار، حسنِ سلوک کا عملی نمونہ اور خود شناسا ہوں تو یہ لامحالہ عبدالکریم الجیلی کے \”انسانِ کامل \”اقبال کے \”مردِ مومن\” اور مشہور جرمن فلسفی نطشے کے \”سپر مین\” کے بالکل قریب ہونگے۔میری دھرتی کے یہ پیارے نوجوان سماجی بہبود اور رضاکارانہ خدمات کے اعلیٰ اوصاف سے مزین ہوں تو ان کی مثال مسیحا کی سی ہو گی۔
بقولِ اقبال:
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں
بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو
خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
اسی طرح ہمارے نوجوانوں کی سیاست (Politics)کا محور ومرکز انسانی فلاح ، جمہوری اقدار کا فروغ ، اجتماعی مفاد ،انسانی حقوق کی پاسداری، مفادِ عامہ،خدمتِ خلق اور انصاف و مساوات پر مبنی معاشرے کی تشکیل ہوگاتویہ ہمارے حقیقی اور آئیڈیل لیڈرز ہونگے۔اگر یہ نوجوان دھرتی ماں سے اپنی حقیقی ماں جیسا احترام اور عقیدت روا رکھیں گے تو یہ اپنی ماں کے فرمانبردا ر اور دعاگو کہلائیں گے۔بمصداق \”ماں کی دعا جنت کی ہوا \” سوہنی دھرتی بھی ان کے لیے جنت بنے گی۔ اگر ہمارے نوجوان تعلیم برائے تکریمِ آدم ، تعلیم برائے تزکیہ نفس ، تعلیم برائے امن و یکجہتی ، تعلیم برائے حکمت وبصیرت ، تعلیم برائے حُسنِ سلوک ، تعلیم برائے تحفظِ اقدار ، زبان وثقافت ، تعلیم برائے انسدادِ جرائم و دہشت گردی ، تعلیم برائے فروغِ حقوق و فرائض ، تعلیم برائے ادب و آرٹ ، تعلیم برائے حب الوطنی ، تعلیم برائے تعمیرِ کردار ، تعلیم برائے تخلیق ، تحقیق ، ایجاد ات ودریافت ، تعلیم برائے سوِک سنس(Civic sense) ، تعلیم برائے تحفظِ ماحولیات ، تعلیم برائے جسمانی ، ذہنی اور روحانی تسکین اور تعلیم برائے سماجی فلاح وبہبود کے حامل ہوں تو یہ حقیقی معنوں میں تعلیم یافتہ ((Educated، مہذب (Civilized)اور ایک ذمہ دار شہری اور قوم کہلانے کے مستحق ہونگے ۔
اس کے برعکس ہمارے نوجوان مذکورہ اوصاف حمیدہ سے اگر عاری ہونگے تو یہ پھول کے بجائے کانٹے ، دِیا کے بجائے تیرگی، ابرِباراں کے بجائے طوفان ، گوہرِ نایاب کے بجائے بکھرے پتھر ، شاہین کے بجائے کرگس، انسانِ کامل کے بجائے ادھ کچرے ، مردِ مومن کے بجاے مردِناداں، نطشے کے سپر مین کے بجائے ,Hang Manمسیحا کے بجائے عطائی، رہنماکے بجائے رہزن ، تعلیم یافتہ کے بجائے گنوار ، مہذب کے بجائے جاہل ، ذمہ دار شہری کے بجائے کوتاہ اندیش اور دعاگو کے بجائے بدعا کہلائیں گے۔
آج کے گلگت بلتستان کے نوجوانوں پر جہاں ہمیں فخر ہے وہاں ان سے کچھ گلے شکوے اور شکایات بھی ہیں ۔ ان کی سب سے بڑی کمزوری ان میں اتحاد کا شدید فقدان ہے۔ اس کے علاوہ ان میں اجتماعی سوچ کے بجائے انفرادی اور ایک مخصوص سوچ پائی جاتی ہے ۔ یہ نوجوان مقصدِ حیات ، مقصدِ دین اور مقصدِ تعلیم سے بہت حد تک نابلد ہیں۔یہ صبر و تحمل اور تدبر سے کام لینے کے بجائے منفی جذبات میں بہہ جاتے ہیں۔ منفی جذبات انسانی عقل ، حکمت ، دانشمندی اور استدلال کے ازلی دشمن ہیں۔ فکری بحران ان میں بدرجہ اتم موجود ہے۔افکارِ تازہ ہمیشہ حریت فکر ، صحبتِ علمائے فکرودانش ، کتب بینی اور مثبت سوچ سے پروان چڑھتے ہیں۔ مگرہمارے نوجوان اس جانب بھی خال خال ہی راغب ہیں اس پر اقبال کہتے ہیں :
جہاں تازہ کہ افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
ایک اور کمزوری جو، ان نوجوانوں کو لاحق ہے ۔ جسے ان کے عقل وفہم اور بصیرت کے لیے زہرِ قاتل قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ وہ ہے راتوں رات ترقی کرنے کا خواب یعنی Short Cut۔ یہ فکری کمزوری در اصل جذبہ خودی کے فقدان کی وجہ سے ان نوجوانوں میں سرایت کررہی ہے۔ بدقسمتی سے یہ نوجوان اپنے اُوپر بھروسہ کرنے اور اپنی محنت ولگن سے آگے بڑھنے کے بجائے دوسروں کی انگلی پکڑکرچلنے اور کاندھے استعمال کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ اس عمل سے ریسرچ، جہدِ مسلسل اور روحانیت جیسے قومی تشخص کے معمار اصولوں کو زبردست ٹھیس پہنچ رہی ہے۔ہمارے نوجوان اقبال کا یہ سبق کیوں بھول جاتے ہیں کہ
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
اقبال اس حوالے سے مزید کہتے ہیں۔
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
گلگت بلتستان کے نوجوان اگر \”اپنی دنیا آپ پیدا کرنے \”سے گھبراتے ہیں اور اسے پسِ پشت ڈالتے ہیں تو انہیں ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنا ہوگا کہ آیا وہ اپنے آپ کو زندوں میں شمار کرتے ہیں یا کہ ۔۔۔!
اس ضمن میں گلگت بلتستان کے نوجوانوں کو درست سمت (Direction)دینے ، ان میں حریتِ فکر (Freedom of thought) پیدا کرنے ،ان کے اندر اجتماعی سوچ کا جذبہ بیدار کرنے ، انہیں مقصدِ حیات ، مقصدِ دین او رمقصدِ تعلیم سے روشناس کرانے ، ان کافکری بحران ختم کرنے ، اعلیٰ انسانی وسماجی اقدار کو فروغ دینے ، انہیں انسانِ کامل، مردِ مومن اور سپر مین کے اوصاف سے آگہی دلانے ، ان میں جذبہء حب الوطنی کی آبیاری کرنے ، انسانی فلاح و بہبود اور رضاکارانہ جذبات کو اجاگر کرنے،ان کو فلسفہ ، منطق اور استدلال کی جانب راغب کرنے اور ان کے اندر تخیل ، تخلیق او رتحقیق کے فن کو جلا بخشنے میں والدین ، اساتذہ کرام ، مذہبی رہنما ، شعرائے کرام ، ادیب ، سیاسی رہنما ، متعلقہ حکومتی اور غیر سرکاری ادارے ، میڈیااور سول سوسائٹی کو حقیقی معنوں میں اپنا کردار موثر طریقے سے ادا کرنا ہوگا۔بصورتِ دیگر اس غیر ذمہ داری کی پکڑ جہاں اللہ کے ہاں ہوگی وہاں اِس دنیا میں بھی ہوگی۔ اور پھر مورخ بھی تو اپنے قلم سے ان کو تاہیوں کو چاک کرتا رہے گا۔ اقبال کا یہ شعر گلگت بلتستان کے نوجوانوں کے نام کرکے اجازت چاہونگا۔
پر واز ہے دونوں کی اِسی ایک جہاں میں
کر گس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور