کالمز

رحیم آباد، گلگت میں پہلا بروشو گاؤں

تحریر :محمد شریف ہنزائی

شہر گلگت سے جانب ہنزہ پنتالیس منٹ کے مسافت پر خوبصورت گاؤں رحیم آباد آتا ہے۔ شہر سے اس کا فیصلہ 35 کلومیٹر ہے۔ہنزہ سے نقل مکانی کرکے آباد ہونے والی پہلے بروشو گاؤں جس کو آباد ہوئے 100 سال سے اوپر کا عرصہ گزر چکا ہے۔یہاں کی قدیم آبادی نے نالوں کی طغیانیوں سے تنگ آکر وادی ہنزہ سے ہجرت کی اور جوتل میں آباد ہوئے۔

ان دنوں گلگت بلتستان میں انگریزوں کی حکومت تھی ۔بہت ساری خامیوں کے باوجود انگریز مردم شناس اور کمال کی نظر رکھتے تھے۔کوہل کو نئے سرے سے تعمیر اور اس کے پشتے مضبوط کرنے کیلئے میر آ ف ہنزہ سے رابطہ کیا کہ وہ اپنے محنتی اور جانفشانی سے کام کرنے والا رعایا میں سے معقول تعداد اس گاؤں کو آباد کرنے کیلئے بھیجے۔میر نے اپنے اکابرین سے مشاورت کے بعد محنتی اور پُرعزم افراد کو مذکورہ آبادی کو آباد کرنے کیلئے روانہ کیا۔ ان کی شب و روز کی محنت رنگ لائی اور کوہل میں پانی جاری کیا گیا۔

کچھ عرصہ بعد سکھوں کے دور حکومت میں سری پرتاب سنگھ نے مذکورہ کوہل کی ازسر نوتعمیر کیلئے ایک خطیر رقم مختص کی ۔مقامی آبادی کی اشتراک سے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا۔سری پرتاب سنگھ کی مدد و معاونت کی وجہ سے گاؤں کا نام پرتاب سنگھ پورہ رکھا گیا لیکن مقامی اور غیر مقامی لوگوں میں اس علاقے کا نام متم داس ، جس کے بروشسکی زبانم میں مطلب "کالا دشت” ہوتا ہے، مقبول ہوا۔سرکاری کاغذات اور ریکارڈ میں تین دہایوں سے رحیم آباد لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ملکی اور بین الاقوامی سطح پر یہی نام مشہور ہے۔

گاؤں کے شمالی سمت میں جگلوٹ،جنوب میں جوتل اور جنوب مغرب میں نومل کی وادی ہے۔چیری،توت،انگور ،سیب،انجیر،ناشپاتی،بادام اور خوبانی کے یہاں کے مشہور پھل ہیں۔آلو،مکئی اور گندم کی کاشت کیلئے بھی مذکورہ وادی زرخیزی میں اپنی مثال آپ ہے۔آبادی کی اکثریت ملازمت اور کھیتی باڑی سے منسلک ہیں اور ایک بڑی تعداد تجارت بھی کرتی ہیں۔تاہم کچھ لوگوں کا ذریعہ معاش مال مویشی پالنا بھی ہے۔پالتو جانوروں میں گائے ،بھیڑ بکری جبکہ جنگلی جانوروں میں ہرن،چیتا ،بھیڑیا اور چکور مشہور ہیں۔قدرتی حسن سے مالامال وادی کے پہاڑوں میں قیمتی پتھروں کے آثار بھی نمایاں ہیں۔مقامی آبادی اپنی مدد آپ کے تحت ان وسائل سے بھر پور فائدہ اٹھا سکتی ہے۔

فروغ علم میں گورنمنٹ ہائی سکول رحیم آباد اور پرائمری سکول رحیم آباد نمبر2 اپنا کردار بخوبی نبا رہی ہے۔تاہم آغا خان ایجوکیشن کی جانب سے عنایت کردہ انمول تحفہ ڈی جی ماڈل سکول کا شمار گلگت بلتستان کے عظیم درسگاہوں میں ہوتا ہے۔ڈاکٹر مولا داد Head PDCN اور ملک کے مشہور سرجن آئی یو بیگ کا تعلق بھی اسی گاؤں سے ہے۔مضمون کے شروعات میں جس تاریخی کوہل کا ذکر کیاگیا تھا لینڈ سلائڈنگ اور سیلابی کٹاؤ کے باعث خطرات کا شکار ہے۔گاؤ ں کے لوگ اس کو بچانے کیلئے سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔نگران وزیر اعلی اور چیف سیکریڑی گلگت بلتستان ایک مخصوص گرانٹ منظور کرکے تاریخی اہمیت کے حامل کوہل کو بچانے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔یقیناًحکومتی اقدام گاؤں کے باشندوں کے لئے باعث فخر ہوگا۔یونین کونسل جوتل،جگلوٹ اور رحیم آباد کے چار ممبران پر مشتمل ہیں۔گراس روٹ لیول کا یہ ادارہ اکائی کے طور پر کام کر رہا ہے۔تینوں گاؤں کے باشندے ایک دوسرے کے ساتھ سماجی و خونی رشتے میں جڑے ہوئے ہیں ،غم اور خوشی میں ایک دوسرے کے ساتھ دیتے ہیں لیکن جگلوٹ اور رحیم آباد کے درمیان داس (غیر آباد بنجر زمین) کے معاملے پر جگلوٹ اور رحیم آباد کے باشندے ایک پیج پر نہ آسکے۔انگریز دور سے چلنے والا تنازعہ کے باوقارحل کیلئے حکومت اور نوجوانوں کو اپنا کردار بخوبی ادا کرنا چاہیے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button