تبصرہ کتاب – "سچ کا سفر” از صدر الدین ہاشوانی
از قلم: احمد جامی سخی
ایم اے (عمرانیات) ڈپلومہ ان ایجوکیشن
چند روز پیشتر ایک پرانے دوست محترم علی احمد چیف ایگزیکٹیو پرل ٹورز اینڈ ٹریو لز پرائیوٹ لمیٹڈ اسلام آباد کیجانب سے ارسال کردہ کتاب سچ کا سفر موصول ہوا جسے ہمارے ملک کے ایک مشہورومعروف بزنس مین اور ہاشو گروپ کے بانی چیرمین محترم صدرالدین ہاشوانی نے تحریر کیا ہے۔کتاب کے مطالعے سے پتہ چلا کہ کتاب کو اصلاً انگریزی زبان میں ’’Truth Always Prevails‘‘ کے نام سے چھاپا گیا تھا اور موجودہ اردو ترجمہ ملک کے ایک نامور لکھاری اور مصنف محترم فرخ سہیلؔ گوئندی کی کاوشوں کا ثمر ہے ۔
یہ کتاب نہ صرف صدرالدین ہاشوانی کی ذاتی زندگی اور جدوجہد کی کہانی ہے بلکہ یہ قارئین کو اُنکے شاندار خاندانی پس منظر ،ایران سے پہلے بلوچستان پھر کراچی اور بلآخر پاکستان کے دارالخلافہ اسلام آباد ہجرت کرنے کی وجوہات اور اسباب پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔
کتاب کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ صدرالدین ہاشوانی ایک آہنی اور مضبوط قوت ارادی کے مالک انسان ہیں جنھوں نے زندگی کے ہر موڈ پر رکاوٹوں ،مخالفین کی بیجا دخل اندازیوں اور موسمی اور سیاسی ناخوشگوار یوں کا جوانمردی سے مقابلہ کیا اور منزل کی جانب آگے بڑھتے رہے۔
زیر نظر کتاب کئی لحاظ سے اہمیت کے حامل ہے۔ مثلاًاس سے پاکستان کے نوجوانوں کو یہ درس ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے پیارے ملک پاکستان کو بے پناہ مادی اور انسانی وسائل سے سرفراز کیا ہے اگر ان کا دانشمندانہ اور ایماندارانہ استعمال کیا جائے تو یہ ملک نہ صرف باصلاحیت افراد کو ہی مالامال کر سکتی ہے بلکہ اس کے ساتھ دیگر پیشہ ور ،ہنرمند اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے بھی روزگار اور ترقی کے نئے مواقع پیدا کر سکتے ہیں ۔ اس کے مطالعہ سے ہمیں یہ درس بھی ملتا ہے کہ اسلام ایک ایسا دین ہے جس پر ایمان کامل رکھنے سے نہ صرف ہم اپنے دنیاوی معا ملات کو سنوار سکتے ہیں بلکہ اُخروی زندگی کے لیے بھی بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں ۔ ’’ہاشو فاؤنڈیشن ‘‘ کی سرگرمیاں اسکی زندہ مثالیں پیش کرتی ہیں کہ کس طرح ایک کاروباری اور تجارتی ادارہ اپنی محنت اورحلال کی کمائی کا ایک مخصوص حصہ نادار ، ضرورت مند اور با صلاحیت اافراد پر صرف کر کے نہ صرف ہمارے معاشرے کی بہبود کے لیے خدمات سر انجام دے رہی ہے بلکہ توشۂ آخرت کا سبب بھی ہے۔
راقم یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ اگر صدرالدین ہاشوانی جیسے با ہمت ،با صلاحیت مضبوط قوت ارادی اور ملک سے وفاداری رکھنے والے دس اور بزنس مین پیدا ہوں تو اس ملک سے افلاس غربت ناخواندگی اور نا امیدی کا کا بآسانی خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ راقم ذاتی طور پر 1970 ء کی دھائی سے ہی صدرالدین ہاشوانی اور ان کے بڑے بھائی اکبر ہاشوانی سے قریبی دوستی اور تعلق داری رکھتا ہے۔ اور اس دوستی پر میں ہمیشہ نازاں رہونگا۔ اکبر بھائی کے ساتھ چند مرتبہ راقم کو ان کے بزرگ والد ین سے ملاقات کا شرف بھی حاصل رہا۔ نیک اور صالح والدین کا اپنی بچوں کے لیے محبت اور شفقت نیز ہاشوانی برادرز کا اپنی والدین کے لیے فرمانبرداری قابل تقلید تھی۔ نیز ماں کی قدموں میں بیٹھ کر اُنکی نصیحتوں کو ہمہ تن گوش ہو کر سن لینے اور دُعائیں لینے کو دیکھ کر بندۂ ناچیز بہت متاثر ہوا اور میرے دل نے اس بات کی گواہی دی کہ جو بچے اپنے والدین کی اس حد تک احترام اور فرمانبرداری کرتے ہوں وہ زندگی میں کبھی بھی ناکام نہیں ہوتے بلکہ ہمیشہ کا میاب و کامران رہتے ہیں۔ راقم اپنے ساتھ انکے احسانات کا ذکر کر کے انکے نیکیوں کے وزن میں کمی نہیں کرنا چاہتا کیونکہ ہر نیکی اور بھلائی کا بہترین بدلہ رب کائنات ہی دے سکتا ہے۔ اگر میں شکریہ کے چند الفاظ لکھ بھی دوں تو یہ انکے ان عظیم خدمات کے سامنے سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہوگا۔ یہ بات بالکل بر موقع وبرمحل ہوگا کہ گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے ہزاروں نوجوانوں کو اپنے ہوٹلوں میں تربیت دینے انھیں بر سرروزگار کرنے اور ہزاروں بچوں کے لیے وظائف کی فراہمی محترم صدرالدین ہاشوانی اور انکی بیٹی سارہ ہاشوانی کی ایسی لازوال اور بے مثال خدمت ہے جنھیں گلگت بلتستان کے دور دراز وادیوں میں بسنے والے لاکھوں افراد نسل در نسل اور صدیوں تک یاد رکھیں گے اور اس خاندان کے افراد کو اپنی تسبیحات اور دُعاؤں میں یاد رکھیں گے۔
دنیا میں ان لوگوں کا نام ہمیشہ زندہ وپائندہ رہا ہے جنھوں نے اپنی نفس پرستی سے بلند ہو کر معاشرے کے دوسرے افراد کی دیکھ بھال کی ہے اور بہتر زندگی گزارنے کے لیے انکی رہنمائی کی ہے۔ صدرالدین ہاشوانی یقیناًان ہستیوں میں شامل ہے جنھوں نے ہمیشہ اپنے ملک، اُمت مسلمہ اور نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ انسانیت کی خدمت کے لیے کمر بستہ رہے ہیں ۔
قارئین کرام: اس ملک میں کروڈ پتی اور اکیسویں صدی میں ارب پتی افراد اور خاندانوں کی کمی نہیں ہے۔ اگر کمی ہے تو صدارالدین ہاشوانی جیسے اصحاب کی کمی ہے جو فلاحی سرگرمیوں کے ذریعے نادار اور باصلاحیت نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرتے ہوں۔ اور باصلاحیت نوجوانوں کو وظائف دے کر اس اہل بناتے ہوں کہ وہ نہ صرف ذاتی اور خاندانی زندگی کے لئے سُود مند افرادی قوت بن کر اُبھریں بلکہ قوم اور مُلک کی تعمیر ترقی میں بھی اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے قابل بن سکیں۔
صدرالدین ہاشوانی اس لئے بھی قابل تقلید بزنس مین ہیں کیونکہ انہوں نے ہمیشہ مقامی لوگوں کی صلاحیتوں پر بھروسہ کیا ہے۔ جہاں اور جس خطے میں انہوں نے ہوٹلز بنائے ہیں یا کوئی اور کاروبار کی بنیاد ڈالی ہے مقامی افراد کو اس کاروبار میں خدمت اور شرکت کے مواقع فراہم کرنے میں شاندار مثال قائم کیا ہے۔ ان سے نہ صرف ان کی حُب الوطنی کا پتہ چلتا ہے بلکہ اس مُلک میں بسنے والے باشندوں کے ساتھ پائیدار محبت اور خلوص کا ثبوت بھی فراہم ہوتا ہے۔
سچ کا سفر ایک ایسی کتاب ہے جو نہ صرف صدرالدین ہاشوانی کی ذاتی زندگی میں رونما ہونے والے اُونچ نیچ سے لیکر موجودہ دور تک کا سیاسی منظر نامہ بھی پیش کرتی ہے۔ اور نوجوان نسل کو آگاہ کرتی ہے کہ کس طریقے سے سیاسی کھلاڑی ہماری روز مرہ اور مُلکی معشیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔کرپٹ اور ناعاقبت اندیش سیاستدانوں کے غلط فیصلوں سے کس طرح عوام کی زندگیوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اگر کچھ فیصلہ جات دانش مندی، سُوجھ بُوجھ۔ مُشاورت اور جمہوری روایات کو مدنظر رکھ کر کئے جاتے ہیں تو کسطرح وہ ہماری قومی زندگیوں میں مُثبت اثرات اور خوشگوار تبدیلیوں کا سبب بنتی ہیں۔ چونکہ راقم کا عملی اور سرگرم سیاست سے بلواسطہ یا بلاواسطہ بہت کم تعلق رہا ہے۔
اس لئے ان واقعات اور کتاب مذکور میں درج واقعات سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ خُدا تعالی ہمارے بیورو کریٹس اور سیاستدانوں کو عقل سلیم عطا کرے تاکہ وہ ایسے فیصلے جات کریں جن کے نتیجے میں ہمارے پیارے مُلک پاکستان میں اخُوت اور بھائی چارگی کی فضا کو فروغ حاصل ہو۔ حُب الوطنی ہمارا جُزو ایمان ہو، اس مُلک کی شہری مملکت اور اس کے اداروں کی نظر میں یکساں اہمیت کے حامل ہوں۔ اور علامہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر ہمیں نصیب ہوں۔ اور حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے اقوال کی روشنی میں زندگی گُزارنے اور ان پر عمل کرنے کی ہم سب کو توفیق ہو۔