یہ 2013 کی بات ہے ، جب میں چھٹیان گزارنے پاکستان آیا تھا۔ اس وقت حکومتی اینجنسیاں اور فورسز داریل میں دو ماہ سے مختلف مقدمات میں مطلوب افراد کو پکڑنے کے لئے گماری میں کیمپ لگا کر بیٹھی تھیں۔ مجھ سے اس وقت کے آئی جی پولیس جناب سلیم بھٹی، جس میں پولیس فورس کی خوبیاں کم اور دفتری خاصیات کچھ زیادہ کوٹ کوٹ کر بھری ہوئیں تھی اور اس وقت کے چیف سیکریٹری یونس ڈاگا صاحب نے کہا تھا کہ آپ ان مطلوب افراد کو پکڑوانے میں ہمارے ساتھ تعاون کریں۔ وہ اس لیے شائد ان لوگوں نے کہا ہوگا کہ انتہائی مطلوب کمانڈر خلیل سے میری قریبی رشتہ داری ہے، ورنہ میرے پاس کونسا الادین کا چراغ تھا۔
خیر اسی حوالے سے میری اس وقت کے وزیر اعلی جناب مہدی شاہ صاحب سے بھی ملاقات ہوئی۔ میں نے حکومت سے صدقِ دل سے تعاون کی حامی بھری اور گلگت سے دیامر روانہ ہوا، جہان کی مقامی انتظامیہ سے بات ہوئی۔ میں اپنی نیک نیتی سے داریل روانہ ہوا۔ داریل جا کر بات آگے بڑھائی۔ بہت سارے مطلوب افراد میرے ساتھ آکراپنے آپ کو حکومت کے حوالے کرنے کے لئے تیار تھے، مگر بھی میں ان سب کو بھیڑ بکریوں کی طرح لا کر حکومت کے حوالے کرنے سے ہچکچانے لگا۔ میں نے واپس آکر چلاس میں اعلی حکومتی حکام، جن میں ڈپٹی کمشنر اجمل بھٹی، اس وقت کے ایس پی نوید اور کچھ اداروں کے ساتھ ڈی سی ہاوس میں، دفتر میں نہیں، صبح صبح میٹنگ کی، اور اپنی کارگزاری اور تحفظات سے ان کو آگاہ کیا۔ کچھ لوگ فوری گرفتاری دینا چاہتے تھے۔ ان کے بارے میں جب گفتگو شروع ہوئی تو شرکامیں سے کچھ نے ان کی گرفتار پر خوشی کا اظہار کیا، جبکہ کچھ نے ان کو نہ پکڑنے کا مشورہ دیا۔ خیر گرفتار کرنے کے حق میں ووٹ زیادہ تھے۔ اسلئے شام کو تین افراد جن میں امیر حمزہ ولد بخمل، شفاالرحمن ولد بخمل اور بشیر ولد بخمل، تینوں برادران، کو داریل جا کر میرے گھر کھانا کھانے کے بعد حکومت نے اپنی تحویل میں لے لی۔ طے یہ ہوا کہ گرفتاری دینے والوں پر کوئی تشدد نہیں کیا جائے گا۔ جو افراد اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کریں گے، دورانِ تفتیش ان کو رہا کیا جائے گا۔ ملزمان کو بے جا تنگ نہیں کیا جائے گا، اور یہ طے کرنے کے بعد میں پہلے داریل چلا گیا، تاکہ مطلوب افراد کو مطلع کر کے گرفتاری دلوا سکوں۔ شام کو مطلوب افراد تو آگئے مگر حکومتی اہلکاروں میں سے صرف ایس پی نوید اکیلے رات کو کئی دس بجے پولیس نفری کے ساتھ داریل پھوگچ میں حاضر ہوے۔ میں نے باقی افراد کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگا کہ وہ آرہے ہونگے۔ لیکن، ڈپٹی کمشنر اور دیگر افراد جنہوں نے آنا تھا، وہ نہیں آئے۔ میری دعوت بھی ضائع ہو گئی۔ آخر یہ طے ہوا کہ ان لوگوں کو لے کر چلاس چلا جائے،جہاں باقی کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔
شائد نہ آنے والے سمجھتے ہونگے کہ یہ گرفتاری ممکین نہیں۔ یا دال میں کالا یا پھر بلکل کالا بھی ہوسکتا ہے۔ تین افراد نے رات بارہ بجےخود کو پولیس کے حوالے کیا اور ہم چلاس کی طرف چل پڑے۔ رات دو بجے ہم داریل سے چلاس پہنچے۔ مذکورہ تینوں بھائیوں پر شک کی بنیاد پر دہشتگردی کے پرچے مقتول ڈی ایس پی عطااللہ کے کیس میں کاٹے گئے۔ دوسرا کیس، جب مرحوم ہلال ایس پی نے کانڈر خلیل کے گھر پر چھاپہ ماراتھا، اس وقت پولیس نے فائرنگ کے تبادلے پر ان بھائیوں کے خلاف ایک اور دہشت گردی کا مقدمہ کیا تھا، کہ ان کے گھر سے فوجی وردی ملی ہے۔ فوجی وردیاں تو سردیوں میں ہر لںڈہ بازار میں ملتی ہیں۔ لوگ جنگل سے لکڑیاں لانی ہو یا بکریاں چرانی ہو یا کھیتی باڑی کا کامکرنا ہو تو پہن لیتے ہیں۔
قارئین، میری کہانی سے بور تو ہوہے ہونگے۔ مگر میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ داریل تانگیر کے لوگ کس طرح حکومت سے تعاون کرتے ہیں۔ مگر حکومت پھر بھی شاکی ہے کہ لوگ تعاون کرے، ورنہ انہیں آئی ڈی پیز بنا دینگے، وزیرستان، سوات اور باجوڑ بنا دیں گے۔
کہانی سنا دیتاہوں۔ فیصلہ آپ کریں۔ میری کہانی سے حکام بالا کی جوں تک نہیں رینگیں گیں، مگر حالات وہ نہیں جو میڈیا میں ہیں۔ ہم بغیر حکومتی تنخواہ لیے اپنا فرض نبھا رہے ہیں، مگر تخواہ لینےوالے تنخواہ تو لیتے ہیں، مگر اپنا فرض خود نہیں ادا کرنا چاہتے، بلکہ عوام سے ادا کروانا چاہتے ہیں۔
حکومت ماں ہوتی ہے۔ ماں مارتی نہیں۔ اُجاڑتی نہیں۔ بے گھر نہیں کرتی۔ ماں تو پالتی ہے۔ ذہنی اور جسمانی نشوونما کرتی ہے۔ ایک بچے کا قصور ہو تو سزا سب کو نہیں دیتی ہے۔ بچے غلطی کرے تو پورے گھر کو بارود سےنہیں اُڑاتی ہے۔ گھر کو آگ نہیں لگاتی۔ جسمانی اور ذہنی تشدد نہیں کرتی۔
داریل کے لوگ ان پڑھ جاہل ضرور ہیں، لیکن وہ بھی حکومتی نااہلی اور دہرے معیار کی وجہ سے ہیں۔ کیونکہ سارے ترقیاتی کام داریل میں امن و امان کا بہانہ بنا کر دیگر علاقوں میں منتقل کئے جاتے رہے ہیں۔ قتل و غارت گلگت بلتستان اور ملک کے دیگر علاقوں میں بھی ہوتی ہے۔ دیگر علاقوں میں بھی سرکاری افسروں کو دورانِ ڈیوٹی قتل کی گیا ہے، لیکن وہاں مجرموں کا پتہ ہونے کے باوجود ان کے گھروں کو بارود سے نہیں اُڑایا گیا۔ ان کے گھروں کو نہیں جلایا گیا۔ گھروں کر گرانے، جلانے اور بارود سے اُڑانے کے سارے تجربے داریل، تانگیر اور دیامر میں کئے جاتے رہے ہیں۔ اب آئی ڈی پیز بنانے کا نیا تجربہ بھی پہلی دفعہ ہونے جارہا ہے۔ ایک فرد کی غلطی پر پورے خاندان کو سزا دی جاتی رہی، چند افراد کی غلطی پر سزا پورے علاقے کو دی گئی۔
دیامر، بالخصوص داریل و تانگیر، والے بھی امن چاہتے ہیں، روزگار چاہتے ہیں، تعلیم اور صحت سب کی ضرورت ہے۔ مگر افسوس، حکومتیں لوگوں کے معاملات کو بہتر کرنے کی بجائے ان سے الجھتی رہیں۔
داریل تانگیر نے 1952 میں پاکستان میں شمولیت اختیار کی تھی۔ 1952 سے پہلے ان کی علاقوں کی حالت اور اب کی حالتِ زار پر نظر ڈالی جائے تو رونا آتا ہے۔
چند ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور چند بھوت بنگلے جیسی عمارات کے علاوہ حکومت نے داریل تانگیر کو دیا ہی کیا ہے، جس پر اتنا اترا رہے ہیں؟ حکومت داریل تانگیر سے جتنے وسائل لیتی ہے اس کے عوض لوگوں کو کیا مراعات دی ہیں؟
لوگ گندم کے دانے دانے کو ترس رہے ہیں۔ چوروں اور لٹیروں نے عوامی ترقیاتی سکیموں کی مالِ غنیمت سمجھ کر لوٹ لیا ہے۔ پہلے ان لٹیروں سے حساب لیا جائے۔ آئی ڈی پیز ان کو بنایا جائے تو اس قوم کا پیسہ کھا رہے ہیں۔ ان مجرموں کو پکڑا جئے جو بھیڑیوں کے ساتھ کھاتے ہیں، اور چرواہوں کے ساتھ روتے بھی ہیں۔
اپنے آپ کو حکومت کے حوالے کرنے والے امیرحمزہ برادران کے ساتھ جو تشدد کیا گیا، جو ظلم روا رکھا گیا، اور ان کو تفتیشی ٹیموں کی طرف سے بے قصور قرار دیئے جانے کے کے باوجود جیل بھیج کر باقی مطلوب افرا کو حکومتی وعدوں پر انگلیاں اُٹھانے کا موقع دیا گیا۔ امیر حمزہ برادارن کے ساتھ یہ کیوں ہوا؟ اداروں میں ایک دوسرے سے کارکردگی میں آگے نکلنے اور کریڈٹ لینے کے کھیل میں وہ بیچارے سلاخوں کے پیچھے چلے گئے، اور میرے جیسے حکومتی ہاتھ بٹانے والوں کو آئیندہ تعاون کا ہاتھ بڑھانے سے روک دیاگیا۔
میں اس کہانی کو لے کر حکامِ بالا کے ہر دروازے پر دستک دیتا رہا، مگر میری شنوائی نہیں ہوئی۔ ٖایف سی این اے کمانڈر سے ملنے کی کوشش کرتا رہا، مگر بے سود۔ کسی نے ان سے ملنے نہ دیا۔ میں ہر ادارے کے سربراہ تک گیا، جہاں تک میری پہنچ تھی۔ بالاخر تنگ آکر میں نے عدالتی کاروائی شروع کی۔ ایک سال تک کیس لڑا۔ اپنے پیسےدے کر وکیل کیا۔ آخر ضمانت پر وہ رہا تو ہوگئے، لیکن عدالتی جان لیوا طویل پیشیاں بھگتنا کسی غریب آدمی کے بس کی بات نہیں۔ اب وہ عدالت سے ضمانت پہ رہا تو ہو گئے مگر مالی حالات اس چیز کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ وکیل کر کے اپنے اخراجات پورے کرسکیں۔ میرے لئے بھی اب دوبارہ یہ کاروائی جاری رکھنا ممکن نہیں۔
حکومتی اہلکار ایمانداری سے فرض شناسی کے ساتھ لوگوں کو انصاف دیں تو کئی لوگ اپنے آُپ کو حکومت کے حوالے کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن حکومت اب بضد ہیں کہ ایس سی او کے مغوی اہلکاروں کو حکومت کے حوالے نہیں کیا گیاتو داریل تانگیر کو تباہ وبرباد کردیا جائے گا۔
جس ایس سی او کے پول کی مرمت کے لئے مذکورہ انجینئرز آئے تھے اس سے داریل تانگیر کو نہیں بلکہ کوہستان کو فائدہ ہوتا ہے۔ خدارا اس پول کو بھی اُٹھا کر لے جایا جائے۔ حکومت اپنے اہلکاروں کی حفاظت خود کرے۔ حکومت اپنی حفاظت نہیں کرسکتی تو عوام کی کیا حفاظت کرے گی۔
دعا ہے کہ مغوی انجینئرز جلد بازیاب ہوں، ورنہ آپریشن کیا گیا تو عوام الناس کے دل میں حکومت کے خلاف نفرت اور جسمانی تکلیف کی وجہ سے دہشتگردوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا، اور دیامر بھاشہ ڈیم بننے کی امیدیں مدہم ہو جائیں گیں۔
بندوق اور گولی ڈنڈا مسائل کو ختم نہیں کرسکتے، بلکہ مزید گھمبیر مسائل کو جنم دیتی ہیں۔ طاقت مسائل کاحل ہوتا تو آج کشمیر،افغانستان، فلسطین میں وہ ہوتا جس کے لئے بندوق استعمال کیا گیاتھا۔ اب آخر طاقت اور گولی ہارگئی ہے، اور امن مذاکرات شروع ہو گئے ہیں۔
چند افراد کی خطا پر پورے علاقے کو سزا نہیں دینی چاہیے۔ ہم تو التجا کرسکتےہیں۔ منوانے والے ہم کون ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ حکومت شیر کی ہے، جو جنگل کا بادشاہ ہے۔ چاہے انڈہ دے ، یا پھر چاہے بچہ۔
ایک آخری اور مفت مشورہ یہ ہے کہ جن باخبر ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ اغواکاروں کامواصلاتی ذرائع سے شیر سے رابطہ ہوا ہے۔ شیر کو شامل تفتیش کیا جائے تو ملزمان کا سراغ مل سکتا ہے۔
نیک تمناوں اور دعاوں کے ساتھ۔، اللہ کرے مغوی بخیریت اپنے گھروں کو لوٹ جائیں، اور داریل تانگیر کے لوگ آئی ڈی پیز بننے سے بچ جائیں۔ آمین
امیر حمزہ برادران پر جان لیوا تشدد کس نے اور کیوں کروایا، اُس پر پھر لکھوں گا۔
پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔
Thanks pamir times