علی فرزاد شگری
زبان تہذیب کا سرچشمہ ہے، اگر زبان کا وجود نہ ہوتا تو تہذیب کی نشوونما بھی ممکن نہیی ہوتی اور زبان کے بغیر بڑی حد تک تہذیب گونگی رہ جاتی۔ تہزیب کی جس پہلو پر نظر ڈالیں ہمیں زبان کی نئی جلوہ گری نظر آتی ہے۔ لوک گیت،کھتا ئیں،اور شعروادب میں زبان ہی کی جلوہ گری کارفرما ہے۔ غرض زبان نہ صرف تہذیب وتمدن کو جنم دیتی ہے،بلکہ اس کے فروغ کی بھی ضامن ہوتی ہے۔
اسی طرح ادب کا بھی تہذیب وتمدن پر بڑا احسان ہے۔ زبان کے سہارے ادب تہذیب وتمدن کی نشودونما میں اہم رول ادا کرتا ہے۔ زبان میں نکھار ادب ہی کی بدولت قائم ہے۔ادب کے بغیر زبان کی قوت اظہار کا مادہ کمزوری کا شکار ہو جاتا ہے۔ ادب زبان کو اظہار بیان کے مختلف گوشے اور اسلوب عنایت کرتا ہے جس سے زبان سامع کی قوت سماعت میں لطیف جذبات پیدا کرنے کے قابل بند جاتی ہے۔ ادب نے زبان کے اندراپنے اثرورسوخ قائم کر کے زبان کے فرائض کی تکمیل اور تہذیب وتمدن کی پرورش میں بڑی شستگی دکھائی ہے۔ مختلف اصناف ادب میں زبان کو تقسیم کرنے کا سہرا ادب کے سر جاتا ہے۔ زبان کی میٹھاس کی چاشنی آپ کو اصناف ادب میں جا بجا نظر آئے گی۔ادب نے نہ صرف زبان کو تہذیب وتمدن کا مددگار بنایا بلکہ اظہار بیان کا حسین پیراہن پہنا کر حسین سماعتوں تک رسائی بھی فراہم کی۔
ماہرین ادب نے ادب کی بہت سی قسموں کا تعین کیا ہے۔ داستان،ناول،افسانہ،مختصر افسانہ، مقالہ،مکتوب نویسی،فیچر اور کالم وغیرہ اصناف نثر کی جبکہ نظم ،غزل آزادنظم،مرثیہ،قصیدہ،گیت وغیرہ اصناف نظم کی بڑی مثالیںہیں۔
تاریخ میں خطہ بلتستان سراپا تہذیب وتمدن اور زبان وادب کا سرچشمہ اور منبع رہاہے۔ یہاں کی تہذیب وتمدن ،ثقافت،زبان وادب اور مذہبی رواداری کا پوری دنیا میں چرچا ہے۔ یہاں کا امن وآشتی بھی اپنی مثال آپ ہے۔ بلتستان کی مشہور ادبی وعلمی شخصیات وادی شگر کے علم وادب کے شاندار ماضی اور تابناک مستقبل کے معترف ہیں۔
جس طرح اردو زبان وادب میں لکھنو کو پورے برصغیر میں بلند مرتبہ حاصل ہے بالکل اسی طرح وادی شگر کو بلتی زبان وادب میں مقام منزلت حاصل ہے ۔ امید ہے یہ مقام ومنزلت مستقبل میں بھی حاصل رہے گی۔
اہل بلتستان کی مادری زبان بلتی ہے،چنانچہ یہاں بلتی زبان بولی اورسمجھی جاتی ہے۔ پاکستان کے دوسرے علاقوں کی مانند یہاں اردو کو بھی ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اردو زبان کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کیونکہ اردو قومی زبان ہونے کے علاوہ،یہاں کے رابطے کی زبان بھی ہے۔ پاکستان کے طول وعرض سے اس علاقے میں سیاحت کے لیے آنے والے بلتی نہیں سمجھتے۔ چنانچہ اس وقت مقامی باسیوں کو اردو زبان کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اس کے بغیر ان سے تبادلہ خیال ممکن نہیں۔اسکے علاوہ یہاں کے سرکاری دفاتر،سکولوں اورکالجوں میں اردو اور انگریزی رائج ہیں۔ لہذا حصول علم کے لیے بھی یہاں کے بچوں کو ان دونوں زبانوں سے رجوع کرنا پڑتے ہیں۔اس کے بغیر حصول علم بھی ناممکن ہے۔
مقامی اہل قلم اپنی مادری زبان کی قدرت ووسعت کا اب تک شاید اندازہ نہ لگا سکے۔ کسی بھی زبان کی وسعت اور گہرائی کا اندازہ لگانا کسی عام قاری کے بس کی بات نہیں کیونکہ اس کے اندر یہ صلاحیت موجود نہیں ہوتی۔ کسی بھی بڑی زبان کے موج زن سمندر کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہونے کے لیے ایک ماہر ادبی شناور چاہیے۔جو اس کی عمیق گہرائیوں کی تہہ میں اتر کر کچھ ہیرے اور جواہر لے کر نمودار ہوجائے،اس کے برعکس اگر کوئی دوسرا عام قاری ایسا کرے تو ہیرے جواہر کی بازیابی دورکی بات ہے،بلکہ خود سمندر کی شریر لہروں کی نذر ہو کر اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا ۔ کیونکہ کسی بھی کام کو اپنے انجام تک پہنچانے کے لیے مطلوبہ کام پر مکمل عبور اور مہارت رکھنے والے فرد کی ضرورت ہوتی ہے۔بلتی ادب اس وقت اسی صورت حال کا شکار ہے ۔بلتی زبان وادب سے خالی وابستگی کا ڈھنڈورا تو پیٹا جا رہا ہے لیکن عملی کام ہوتا نظر نہیں آرہا۔یہی وجہ ہے کہ بلتی زبان میں نئی تخلیقات کا باب کھولنے والا کوئی مسیحا اپنے وجود کا احساس دلانے سے قاصر ہے۔چنانچہ جو مختصر شعری سرمایہ بلتی ادب میں موجود ہے اس کی اہمیت سے نئی نسل عاری نظر آتی ہے۔
بلتی زبان کی الگ تحریری شناخت یعنی رسم الخط نہ ہونے کی بنا پر اہل بلتی عربی رسم و الخط میں بلتی لکھنے پر مجبور ہیں۔اگر چہ کسی زبان کا ذاتی رسم والخط کا نہ ہونا اس زبان کی نابودی کی علامت نہیں لیکن علمی طورپر اس کی کمزوری مانی جاسکتی ہے۔اس وقت ما ہرین لسانیات کو اس چیز کی طرف اپنی توجہ مبذول کرنی چاہیےتاکہ ہماری زبان میں صنعت الفاظ وتراکیب کے جملہ لوازمات دستیاب ہوں۔ کیونکہ دنیا کی زبانیں اپنے سفر جاری رکھے ہوئی ہیں جبکہ بلتی زبان اپنا یہ سفر جاری رکھنے سے ہچکچارہی ہے۔ ماہرین لسانیات کے مطابق بلتی زبان کو وہ سامان سفر مہیا کرنے والا کوئی نہیں مل رہا،جس کی اس کولمحہ بہ لمحہ اشد ضرورت ہے ۔لہذا سامان سفر کی فراہمی کے لیے اہل علم کو سامان سفر لے کر آگے آنا چاہیےورنہ بلتی زبان اپنا سفر جاری نہیں رکھ سکے گی ۔
پچھلے سال اقوام متحدہ کی جانب سے ایک رپورٹ شائع کی گئی۔ اس رپورٹ کے مطابق دنیا کی کئی دوسری بولیوں اور زبانوں کی طرح بلتی زبان کو بھی مستقبل میں شدید خطرات ہو سکتے ہیں۔ اور بلتی زبان کو اپنا وجود قائم رکھنے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گی۔ میں وہ فقرے من وعن بیان کرنا نہیں چاہتا جو فقرے مذکورہ ادارے نے بیان کیے ہےتاکہ مادری زبان کی ادبی شان وشوکت اور اس کے قائلین حوصلہ شکنی کا شکار نہ ہوں۔ اس رپورٹ میں اقوام متحدہ کے ادارے نے دنیا کی متعدد زبانوں کی ایک لمبی فہرست جاری کی تھی جس میں ان پہلووں کی نشاندہی کی گئی تھی جو زبانوں کی سالمیت کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔اس رپورٹ کی روشنی میں ہمارے مقامی لسانی ماہرین کے کاندھوں پر زبان و ادب کی سالمیت کے حوالے سے مزید بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
بلتی زبان کو قدرت نے بے پناہ صلاحیتیں عطا کی ہے۔ان صلاحیتوں میں مزید نکھار پیدا کرنے کے لیے ادبی وعلمی سطح پر اقدامات کرنے ہوں گے۔کسی بھی زبان کی سالمیت کے لیے ضروری ہے،کہ اس کی علمی سطح پر پرورش کی جائے۔اگر بروقت اس کی مطلوبہ پرورش نہ کی جائے تو زبان کی سالمیت خطرے میں پڑ جائے گی۔اگر مقامی اہل زبان علمی سطح پر بلتی زبان کی خاطرخواہ مدارت اور نظارت کرنے میں ناکام رہے تو بلتی زبان کو مزید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔انہی خطرات کے پیش نظر شاید مقامی اہل قلم مادری زبان کو بطور اظہار رائے کتابی شکل میں لکھنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ جوصلاحیتیں بلتی زبان میں موجود ہیں ان کو مواد کی شکل کی شکل میں مرتب کی جائے،تاکہ اس مرتب شدہ مواد سے اہل قلم استفادہ کریں۔
صرف گلی کوچوں اور گھر کی چاردیواری کے اندر رائج رہنا کسی زبان کی زندہ رہنے کی دلیل نہیں بن سکتی۔صحیح معنوں میں اس زبان کا زندہ وجاوید رہنے کی دلیل یہ ہے کہ دنیا کی دیگر جاندار زبانوں کے شانہ بشانہ علمی وادبی افق پر تابندہ و پائندہ رہے ورنہ تاریخ میں اس قوم کی تہذیب وتمدن کا سراغ ملنا آنے والی نسلوں کے لیے دشوار ہو گا۔
مذکورہ چند گنی چنی خامیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے اس کی خوبیوں کو بنیاد بنا کر مقامی اہل قلم اگر اپنے قلم کو جنبش دیں تو اس کا نتیجہ مثبت آسکتا ہے۔اس مثبت نتیجے کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ بلتی نثری ادب کو فروغ دیا جائے۔کیونکہ نثری ادب میں ان تمام کمزوریوں ،خامیوں اوردشواریوں کی نشاندہی کی جا سکتی ہےجوزبان میں پائی جاتی ہے۔ بلتی زبان میں نثر ادب کو پروان چڑھانے کے لیے اگر اردو نثری ادب سے استفادہ کیا جائے تو مستفید ہو سکتا ہے۔جب اردو والے اردو میں اپنی اظہار رائے قلم بند کر سکتے ہیں تو اہل بلتی کیوں نہیں۔کسی اچھی حرکت کا نقل اتارنا بری بات نہیں۔ اس میدان میں ہمارے لوگ دوسری قوموں کی مثبت مشاغل کی نقل نہیں اتارتے جبکہ کھیل کود اور تفریحات کے میدانوں میں ہم بندر کی طرح دوسرے قوموں کی نقل اتارنے پہ بضد ہیں۔ نقالی بندر کا یہ کھیل اور تماشا کب تک جاری رہے گا مجھے پتہ نہیں۔علم وآگہی کے میدان میں اگر نقل اتاری ہوتی تو یہ قوم کب کی دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑی ہو چکی ہوتی۔
زبان وادب سے معا شرے کی عدم توجہی اور بے رخی کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ معاشرے میں فی زمانہ ایک ایسا طبقہ موجود رہا ہےجن کو علم وادب کے شعبے سے چڑ ہے اور ادبی سرگرمیوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے کیونکہ اس طبقے کو علم وآگہی کی اہمیت کا بلکل اندازہ نہیں۔ بندہ حقیر نے اس طبقے کی علم و ادب دشمنی کی اصل وجہ جاننے کی کوشش کی تو اس نتیجے پر پہنچا ،کہ یہ طبقہ کسی بھی شعبے میں اصلاح کے خواہاں نہیں۔ لہذا اس طبقے کی ادب دشمنی کو کسی معقول عذر سے تعبیر نہیں کی جا سکتی۔ زبان وادب ایسے ہتھیار ہیں جن کے سہارے انتہائی خوبصورتی اور شائستگی سے معاشرے کے اچھے اور برے پہلووں کی نشاندہی کی جا سکتی ہے تاکہ خو بیوں میں مزید نکھار اور خامیاں دور کی جاسکیں۔اصل میں مذکورہ طبقہ اہل ادب کی اس شائستہ ادبی تنقید سے خو ف زدہ ہے۔
ماضی میں نثری و شعری ادب نے دنیا میں عطیم فکری،اقتصادی انقلابات کے لئیے راہیں ہموار کی ہیں۔ شعری ادب پر ماضی بعید اور قریب میں خاصی توجہ دی گئی لیکن نثری ادب پرضرورت سے کم توجہ دی گئی، اس کمی کے ازالے کے لئے برسوں پر محیط کوششوں کی اشد ضرورت ہے۔
نثری ادب کی انہی اہمیت کے پیش نظر ادبی بورڈ)رجسٹرڈ( شگر نے ماضی قریب میں نثری ادب میں قدم رکھا تھا،لیکن اس کی روانی تا دیر قائم نہ رہی۔ ۔پے در پے کئی تصانیف منظر عام پرآنے کے بعدادبی تخلیقات کا یہ سلسلہ تا دم تحریر جمود کا شکار ہے۔ اس جمود کو توڑنا وقت کی ایک ضرورت ہے نقیب آذادی )بہ زبان اردو ( بلتی لغت اور شوق بجیس تینوں تصا نیف راجہ محمد علی شاہ صبا کی زبان و ادب کے لیے ایک گراں قدر عطیہ ہیں۔جن مضوعات پر صاحب کتاب نے قلم اٹھا یا ہے ان کی اہمیت اور ادبی لطا فت داد و تحسین کے مستحق ہیں۔
یہ تینوں تصا نیف وزیر فدا حسین مایا کی انتھک کو ششوں سے ادبی بورڈ شگر کے پلیٹ فارم سے شائع کی گئیں۔اراکین ادبی بورڈ شگر ان دو نو ں ادبی شخصیات کے برسوں قدرداں رہیں گے۔
اس رکی ہوئی ادبی تخلیقات کی بحالی کے لیے ان جیسی ادبی شخصیات کو میدان عمل میں کودنے ہوں گے۔ تاکہ قرطاس و قلم کا رشتہ دوبارہ بحال ہو اور بحالی کی یہ اثرات معاشرے کے ہر طبقے کے چہرے پر نمو دار ہوں۔مجھے امید ہے کہ قرطاس وقلم کے مقدس فریضے سے سر شار کارواں ادب کی نئی ادبی تخلیقات کے سفر کا جلد آغاز ہو گا۔مجھے امید کی کرن نظر آرہی ہے ۔یقنناً یہ کرن مستقبل میں سورج بن کر ابھرے گی،زبان وادب کا ایک نیا سورج طلوع ہو گا، یہ سورج ماضی کی طرح سر زمین شگر کے ادبی افق سے ہی طلوع ہو گا۔