ماحول

چترال، سوختنی لکڑی کی فی من سرکاری قیمت 380روپے ہے، لیکن فروخت ہو رہی ہے فی من 550سے600روپے تک

چترال (بشیر حسین آزاد) چترال میں جنگلات کی کٹائی نے جہاں ماحولیاتی اور موسمیاتی مسائل پیدا کئے ہیں ۔ وہاں گھریلو استعمال کیلئے غیر دانشمندانہ طریقے سے جنگلات کی بے دریغ کٹائی کی وجہ سے ضلع کو ایندھن کے حصول میں تشویشناک حد تک مشکلات کا سامنا ہے ۔اور سوختنی لکڑی کی قیمت میں مسلسل اضافے کے باوجود اس کی قلت پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے ۔ ضلعی انتظامیہ چترال کی طرف سے چترال میں جلانے کی اعلی قسم کی شاہ بلوط کی لکڑی کی فی من قیمت 380روپے لگا یا گیا ہے ۔ لیکن یہ لکڑی مارکیٹ میں آئے بغیر فی من 550سے600روپے باہر ہی باہر بلیک میں فروخت ہوتی ہے ۔ جس پر انتظامیہ تاحال کنٹرول کرنے میں ناکام رہا ہے ۔ اس کے باوجود وہ اپنی انتظامی کمزوری ماننے کیلئے کسی صورت تیار نہیں ہیں ۔ اور اس کی تاویل یہ کی جارہی ہے ۔ کہ جلانے کی لکڑی کی مانگ بڑھ گئی ہے ۔ جس سے بعض افراد ناجائز فوائد حاصل کرنے کی کو شش کر رہے ہیں ۔ ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر چترال عبد الاکرم نے میڈیا سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا ۔ کہ انتظامیہ نے چترال شہر کیلئے پانچ لکڑی کے ٹلوں کو مخصوص کیا ہے ۔جہاں انتظامیہ کے مقرر کردہ ریٹ کے مطابق لوگوں کو جلانے کی لکڑی فروخت کی جاتی ہے ۔ تاہم جلانے کی لکڑی بہت کم مقدار میں مارکیٹ لائی جا رہی ہے ۔ جس کی وجہ سے لوگوں کو ضرورت کے مطابق لکڑی نہیں ملتی ۔ انہوں نے کہا۔ کہ لکڑی کا کاروبار کرنے والے ٹل مالکان کو ہم نے زیادہ مقدار میں لکڑی مارکیٹ پہنچانے کی ہدایت کی ہے ۔ اور مارکیٹ میں قیمتوں کو یقینی بنا نے کیلئے با قا عدہ طور پر مانٹرنگ کی جاتی ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ جو صارفین چوری چھپے زیادہ قیمت پر جلانے کی لکڑی خرید تے ہیں ۔ اُن افراد کے خلاف کاروائی کی جاتی ہے ۔ انتظامیہ کی طرف سے اقدامات کے باوجود ایندھن کے سلسلے میں چترال کے لوگوں کی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ کیونکہ چترال کے 14850مربع کلومیٹر رقبے کے صرف دو فیصدر قبے پر قدرتی جنگلات ہیں ۔ اور ضلع بھر کے تمام لوگ عمارات کی تعمیر سے لے کر چولہا جلانے تک ان ہی جنگلات پر انحصار کرتے ہیں ۔ اس لئے گذشتہ کئی سالوں سے ان جنگلات پر جلانے اور عمارتی لکڑی کی فراہمی کا بہت بڑا بوجھ ہے ۔ جس کی وجہ سے جنگلات میں تشویشناک حد تک کمی آئی ہے ۔ چترال میں کمرشل بنیادوں پر دیودار کے درختوں کی کٹائی موجودہ حکومت نے بند کردی ہے جو کہ جنگلات کے تحفظ کیلئے بہت اچھا قدم ہے ۔ تاہم جلانے کیلئے استعمال ہونے والے جنگلات پر دباؤ بدستور اپنی جگہ پر موجود ہے ۔ اگر کٹائی کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا ۔ تو چترال کا مستقبل مزید خطرات سے دوچار ہو سکتا ہے ۔ اس لئے مصنوعی جنگلات کے فروغ کے ساتھ ساتھ متبادل ایندھن کے طور پر رعایتی قیمت پر ایل پی جی فراہمی قدرتی جنگلات کو مزید تباہی سے بچانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button