تحریر : حاجی سرمیکی
سکردو میں پہاڑوں کا عالمی دن منایا جارہا تھا ، مقامی ہوٹل میں ہرچند کھڑپینچ ، سیاحت کے ٹھیکیدار اور گورے کوہ پیماؤں کے راہ گیرکا جم غفیر تھا ۔کوئی شیان شان سیج تو نہیں بنا ہوا تھا البتہ چند درازقد کرسیوں کو صف اول کے مخالف لگایاگیاتھا۔صف اول میں مقامی اکابرین کے درمیان فاتح کے ٹو اور ماونٹ ایورسٹ حسن سدپارہ براجمان تھے ۔خصوصی نشستوں پر سیاحت کا ضلعی مہتمم اور ایک گھنی مونچھوں والا وضعدار موٹا سا مشتنڈا اور ان کے ساتھ دو اور نوجوان براجمان تھے۔حسن سدپارہ نے خصوصی نشست پر بیٹھنے سے معذرت کی ، شاید وہ حکومتی اہلکاروں کی وعدہ شکنی پر نالاں تھے ۔ البتہ خصوصی نشستوں پر بیٹھے دونوں نوجوانوں کو دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ یہیں بلتستان کے کسی دیہات سے یوں ہی اٹھ کر آئیں ہیں ، بال اورمونچھیں بے ترتیبی سے چھٹی ہوئی، گلابی گال ، سخت سردی اور خشکی کی وجہ سے چہرے کا رنگ پھیکا پڑچکا تھا۔ سر پر گلگتی ٹوپی اور پھیکے سفید رنگ کے کپڑوں پر بورھے رنگ کی صدری جن کے بغل ضرورت سے کھلے ہوئے تھے ۔ساتھ میں بیٹھے سرکاری آفیسر اور ماونٹین گائیڈ کی واضع داری کے آگے سخت جانی اور مشقت پسندی کی دھندلی تصویر نظر آرہے تھے۔نیم شرمیلی مگر چمکدار آنکھیں ، تنی ہوئی گردن اور مضبوط ہاتھوں سے کسی جان کنیں رن کے تھکے ہوئے غازی لگ رہے تھے۔ پروگرام شروع ہوا۔ عالمی یوم کوہسار کے حوالے سے سنیئر صحافی قاسم نسیم نے اپنے خطاب میں سیاحت کی اہمیت پر روشنی ڈالی، انہوں نے گلگت بلتستان میں سیاحوں کی توجہ مرکوز کرانے کے لئے حکومت کو معقول اور واجب العمل تجاویز پیش کیں۔ چند میں سے چند ہوائی راستے پر وازوں میں اضافے، غیر ملکی سیاحوں کو ویزے کی فراہمی میں آسانیاں پیدا کرنا ، اس معاملے میں حائل سخت شرائط پر نظر ثانی کرنا، دیگر ناقابل اعتراض پہاڑوںیا سیاحتی مقامات تک رسائی بڑھانے جیسی اہم تجاویزات شامل تھیں۔ خوبصورت لب و لہجے کے مالک شاعر عارف سحاب نے کھرپوچو قلعے کی زبوں حالی پر دلچسپ اور توجہ طلب منظوم تجزیہ پیش کیا۔ پھر دیگر شعراء نے روایتی جمع خرچ اور کہانیوں کے ساتھ اظہارخیال کیا۔ نشست مہمانان پر براجمان ان دو دیسی نوجوانوں میں سے ایک کو دعوت خطاب دیا ، ایک نے تو پیشگی معذرت گزاری۔ سٹیج سکریٹری کے تمہیدی کلمات سے معلوم پڑا کہ اس سادہ تقریب کے مہمانان دونوں پاکستان کے صف اول کے کوہ پیما ہیں جو حال ہی میں کے ٹو کی بلند ترین چوٹی مسخر کرکے آئے ہیں ۔استاد کا احترام کہیں یا کم علمی کا اعتراف ، اس نوجوان نے حسن سدپارہ کی طرف اشارہ کیا کہ ان کی جگہ وہ اظہار خیال کریں۔ یوں حسن سدپارہ نے ان دونوں نوجوانوں اور اٹلی کے معاون کوہ پیما کو مبارک باد دی ۔پاکستان کی تاریخ میں ان کی جماعت کوہ پیماؤں کی وہ مقامی جماعت تھی جنہوں نے یہ کارنامہ سرانجام دیا تھا۔ اس نوجوان کا تعلق سکردو کے نواحی گاؤں ، مشہور سیاحتی علاقہ سد پارہ سے تھا۔حسن سدپارہ نے اپنی گلابی اور انتہائی سلیس اردو میں انہوں نے منتظمین کا شکریہ ادا کیا۔ اپنی بے ربط کی تقریر میں انہوں نے سادہ مگر دبے الفاظ میں اس شعبے کی بے بسی کا رونا رویا۔ انہوں نے اس تلخ حقیقت سے بھی نقب کشائی کی اورکہا کہ اس شعبے کوغریب اور مزدور طبقے کی مجبوری سے ایک باعزت پیشے کی طرف لے کر جانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بلتستان سے تعلق رکھنے والے ہائی پورٹرز کی بھی تعریف کی ، جو ان غیر ملکی سیاحوں سے بھی باہمت، پرعزم اور مشقت پسند ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اگر موزوں تربیت اور تھوڑی سی معاونت حاصل ہو تو یہ پورٹرز بہترین ماونٹنیئر بن کر ملک کا نام روشن کر سکتے ہیں۔ اپنی گفتگو میں انہوں نے ایک بار بھی یہ شکایت نہیں کی کہ حکومت نے انہیں ایورسٹ سر کرنے پر خطیر رقم کا انعام اعلان کیا تھا۔ تاہم انہوں نے سیاحت کے فروغ میں تجزیہ نگاروں کی رائے سے اتفاق کیا۔
یہ وہ پہلا موقع تھا کہ جب بلندشہرت شخصیت حسن سدپارہ کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ان کا توانا جسم ہڈیوں کی مضبوطی سے ظاہر ہوتا تھا البتہ ان کا چہرہ کسی تن ساز کی مانند مضبوط پٹھوں والا مگر پچکا ہوا تھا۔ چہرے پر آوارہ مونچھیں، فرقت پر منحصر آتی جاتی داڑھی ۔لمبے قدم ایسے جب وہ چلتے تھے تو عام آدمی کے دوقدموں کے برابر ایک ہی قدم میں فاصلہ طے کرتا تھا۔ ان کے لمبے اور چوڑے پاؤں چھوغور ی، ننگاپربت ، براٹ پیک اور ایورسٹ کو اپنے تلے روندنے میں ان کے کتنے معاون رہے ہوں گے۔وہ اپنی برادری کے دیگر لوگوں کے برخلاف نہایت کم گو شخصیت تھے۔گوکہ وہ صرف قومی سطح کی نہیں بلکہ اپنے شعبے میں بین الاقوامی شخصیات سے بھی زیادہ خصوصی خوبیوں کا مالک اور وہ اکلوتے کوہ شکن ، کوہ نورد اور کوہ پیما تھے جن کے حصے میں دنیا کی سات بلند ترین پہاڑی چوٹیوں کو مسخرکرنے کا کارنامہ آیاتھا۔ یوں تو ان تمام کارناموں کے باوجود وہ اپنی تقریر کی مانند خالی اور اپنے مزاج کی مانند سادہ سے رہے اور خاطر خواہ اور شایان شان علامتی اعزاز و امتیازنہیں پا سکے ۔وقت ثابت کرے گا کہ یہ کوہ دمن شاید ہی کوئی دوسرا حسن سدپارہ دیکھے جو ان کے سینوں سے چڑھ کر سروں پر راج کرے۔ حسن سدپارہ کے پاس روایتی تعلیم تونہ تھی البتہ اپنے شعبے میں درکا ر تعلیم وہنر میں لاثانی تھے ۔ان کی بے قدری میں وفاقی وصوبائی حکومتیں تو شامل ہے ہی مگر مقامی فرض شناس ابلاغ عامہ اور دانشوروں نے بھی طوطاچشمی سے کام لیا۔ کیا ہی بات تھی اگر قراقرم یونیورسٹی اگر انہیں پہاڑکاری و کوہ پیمائی میں انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازتی۔ اگر بیرونی ممالک سے کل کلاں کوئی ادارہ یہ کام بھی کرجاتا ہے تو ہمارے دانشور اپنی کٹی ہوئی ناک کو کہاں کہاں چھپاتے پھریں گے۔ کیا ہمیں معلوم نہیں کہ کیسے کیسے لوگ یہ ڈگریاں اور تمغات حاصل کر چکے ہیں ۔ ہمارے آگے وہ چند کوہ نورد شخصیات بھی موجود ہیں جنہوں نے صرف اپنی تعلیم، رابطہ کاری کی صلاحیت اور بیرونی معاونت و مواقع کی فراہمی سے نہ صرف زیادہ نام کمائے ہیں بلکہ خاطرخواہ مراعات بھی پائی ہیں۔ کسی کا کیا جاتا کہ اگر حسن سدپارہ کی قابل رشک شخصیت کو فلمی اداکاروں ، کھلاڑیوں کی مانند کسی ٹی وی و اخبارات کے کمرشل میں شامل کیا جاتا۔ کاروباری نہ صحیح فلاحی و پیشہ وارانہ تشہیر کے لئے بھی ان کی شخصیت غیر موزوں ہرگز نہ تھی۔
آج ایورسٹ ، کے ٹو اور ننگا پربت سے چلنے والی یخ بستہ ہوا بربت بربت بین کرتی گزررہی ہوگی۔ برف کفن بننے کی آس لگاتی ہوگی اور ایورسٹ کے سر پر گاڑھا ہوا علم حضرت عباس لہرا لہرا کر اس شخص کی بلند ہمت، عزم و ہمت اور بے نظیر عقیدت کی گواہی دے رہاہوگا۔ کسے یقین تھا کہ بغیر آکسیجن کے بلندیوں کو چھونے والا انسان آکسیجن سے ہار جائے گا۔ حسن سدپارہ آج ہم میں نہیں رہے ۔ لیکن بربت بربت پھیلی اس کی ہمت و جرات کی پکار تا حد زمانہ سنائی دی جاتی رہے گی۔بلتستان کی آنکھ کا تارہ بطرز سکندر آج تہی دست ودامان زندگی کی مشقت آفرین چوٹی بھی بغیر آکسیجن کے سرکرکے غروب ہوا۔ مگر اے اہل چمن ، ارباب علم و دانش ان کو تو نے کیا انعام دیا تھا؟۔ ان کی ستائش و شاباشی میں سوائے ان کے اپنے کارناموں کے تمہارے پاس فخر کرنے کے لئے کیا رہ گیا؟
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button