کالمز

پاکستان پیپلز پارٹی چترال کا مستقبل

شیر جہان ساحلؔ

مشرقی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو ایک بات بڑی واضح طور پر سمجھ میں آتی ہے کہ یہ معاشرے شروع سے ہی شخصیت پرست رہی ہے۔ یہان کے لوگ عظیم شخصیتون کی تقلید پسندی کرتے ہیں اور ان کے بتائے ہوئے اصولوں پر چلنا اپنے لئے باعث فخر اور زندگی کا اصول سمجھتے ہیں اور اسی تقلید پسندی کو اگر اور زیادہ وسیع کرکے مطالعہ کیا جائے تو یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اکثر مذاہب کا جنم بھی اسی معاشرے سے ہوا ہے کیونکہ یہاں کے لوگ فطری طور پر تقلید پرست ہیں ۔

تقلید پسندی کو پاکستانی معاشرے کی نظر سے دیکھتے ہیں کہ اس معاشرے میں اس کی کیا اہمیت رہی ہے تو سب سے پہلے بانی پاکستان کا ذکر آتا ہے کیونکہ آزادی کے بعد قائد اعظم کو (جن کی سربراہی میں تحریک آزادی انجام پذیر ہوئی تھی) بابائے قوم کا درجہ دیا گیا اور پوری قوم اس کی شخصیت کے گن گانے لگے جو کہ آج تک جاری ہے کیونکہ آزادی کی تحریک تو پچھلے نو دہائیوں سے چلی آرہی تھی اور اس تحریک میں بہت سارے شخصیت شامل تھے مگر ہم صرف قائد کو ہی یہ کریڈٹ دیتے ہیں کیونکہ آزدی کے وقت وہی تحریک کو لیڈ کر رہاتھا۔ اس کے بعد آمریت کا دور شروع ہوا اور جمہوریت ایک خواب بن کر رہ گئی توایسے میں ذوالفقارعلی بھٹو صاحب سامنے آئے اور ملک کی بھاگ دوڑ سنبھال لی۔سقوط ڈھاکہ کے بعد درپیش چیلنجز سے نمٹا اور ملک کو آئین دیا اور تقریباً جمہوریت کے لئے راہ ہموار کئے۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی سمیت پوری قوم بھٹو کے گن گانے لگے ۔ حالانکہ پیپلزپارٹی کا بانی ڈاکٹر مبشر حسن تھا اور پارٹی بنا بھی اسی کے گھر تھا مگر جیالے سمیت پارٹی سپورٹر سب کو یہ یقین ہے کہ پیپلز پارٹی بھٹو صاحب جادوئی شخصیت ہے۔ کیونکہ ہم لوگ شخصیت پرست ہیں تاریخ سے کچھ سیکھنے کی عادت ہمارے ہاں قطعی نہیں ہے۔

اب چترال میں پیپلز پارٹی کے مستقبل کی طرف آتے ہیں(جس کی مستقبل کو میرا ایک محترم دوست اپنے مضمون میں خطرے سے دوچار قرار دیا)۔ تمام تر اختلافات کے باوجود یہ ماننا پڑے گا کہ پیپلز پارٹی کی جڑیں چترال میں اب بھی مضبوط ہیں اور کارکن یا جیالے صرف پارٹی کے نا م اور انتخابی نشان سے عقیدت رکھتے ہیں اور یہ بات ان کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا کہ اس ٹکٹ پر کون الیکشن لڑ رہا ہے اور اس کا تعق کس مذہب، رنگ، نسل اور علاقے سے ہے۔اور رہی بات سلیم خان صاحب کی۔ موصوف پچھلے سال جب چترال میں انٹرا پارٹی الیکشن منعقد کروایا تو واضح اکثریت سے صدر منتخب ہوا اور اس وقت بھی کچھ مفاد پرست لوگ یہ واویلا شروع کررکھے تھے کہ سلیم خان اختیارات کا ناجائز استعمال کررہا ہے اور ہر طرح سے اثرانداز ہوکر دونوں عہدے اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے مگر پھر بھی ان کے پاس یہ امید باقی تھی کہ بلاول بھٹو ضرور ان کے حق میں فیصلہ دیں گے۔ اس کے بعد اسلام آباد میں پارٹی کے مرکزی قائدین کا اجلاس منعقد ہوا جس میں خیبرپختونخوا کے ضلعی اور صوبائی کابینہ کے لئے انٹریو کا سلسلہ شروع ہوا۔ جس میں چترال اور ہنگو سے آئے ہوئے صدارتی نمائندون سے ایک ساتھ انٹرویو لیا گیا ۔ اس انٹرویو میں بھی سلیم کے دونوں عہدوں کی بھر پور مخالفت کی گئی اور یوں کہا گیا کہ آئندہ انتخابات میں جن امیدواروں کو ٹکٹ دینا ہے انہیں ضلعی سیٹ اپ میں شامل نہ کیا جائے اس سے وہ لوگ پارٹی کے لئے وقت نہیں نکال سکتے۔ گو کہ یہ بات ایک تکنیکی طریقے سے کیا گیا مگر در حقیقت یہ سلیم خان کے دونوں عہدوں کی کھلم کھلا مخالفت تھی اور اس اجلاس (انٹریو) کے بعد یہ افواہ بھی پھیلائی گئی تھی کہ چترال کی ضلعی صدارت سلیم خان کے ہاتھ سے نکل رہا ہے کیونکہ پارٹی اجلاس میں شریک کارکنوں کی طرف سے دو عہدہ رکھنے کی سخت مخالفت کی گئی ہے اور بلاول نےبھی ناراض کارکنون کی بات ہر حال میں ماننے کا اشارہ دیا ہے اور ناراض کارکنون کو واپس پارٹی میں شامل کرنا بلاول کی اولین ترجیح ہے۔ مگر افواہیں پھیلانے والے یہ بھول گئے کہ پیپلز پارٹی میں بھٹو کا نام چلتا ہے اور وہاں عہدہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ جیالے اور سپورٹر صرف پارٹی نشان کو دیکھتے ہیں انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ پارٹی ٹکٹ پر کون الیکشن لڑ رہا ہے۔ اور دوسری بات ان سے یہ بھول ہوئی کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین جب ملک کا صدر تھا تب بھی دو عہدے اپنے پاس رکھا تھا۔ اور رہی بات سلیم خات کی۔ سلیم خان مسلسل دوسری بار پارٹی ٹکٹ پر منتخب ہو ا ہے اور جیالوں کی بھر پور سپورٹ ان کے ساتھ ہے اور اسکا اظہار وہ ضلعی صدارت کے لئے منعقدہ الیکشن میں کرچکے ہیں مگر اب چند شر پسندافراد تمام مکاریوں کی ناکامی کے بعد یہ واویلا شروع کر رکھے ہیں کہ اپر چترال کو نظر انداز کیا جارہا ہے اور جیالے سخت غم و غصے میں ہیں اس کا آنے والے الیکشن پر منفی عمل پڑیگا۔ مگر درحقیقت یہ لوگ سلیم خان کی کامیابیوں سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکے ہیں انہیں پارٹی کو ہونے والے نقصانات سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں ہے وہ صرف اور صرف ذاتی مقاصد کے حصول کے لئے ناکام جدوجہد کر رہے ہیں اور پارٹی کے حقیقی جیالے ان لوگوں کو پہلے بھی رد کرچکے ہیں اور آئندہ بھی کریں گے۔ اور سیلم خان کے خلاف ان کا یہ پروپگنڈا صرف اور صرف سوشل میڈیا کی حد تک ہی ہو سکتا ہے اور اصل جیالے ہمیشہ پارٹی کے مرکزی فیصلے کی ہر حال میں تائید کریں گے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button