بابائے اردو مولوی عبدالحق نے تادمِ مرگ شادی نہیں کی تھی۔ کسی دل جلے نے مولوی صاحب سے شادی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ’’میری شادی تو کب کی اردو زبان سے ہوچکی ہے۔ میں کسی خاتون سے شادی کرکے اپنے پیروں میں زنجیر ڈالنا نہیں چاہتا۔‘‘ شادی بھی کیا چیز ہے کسی نے اس کو پیر کی زنجیر کہا تو کسی نے پاؤں کی بیڑی۔ میرزا اسداللہ خان غالب بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے، کہتے ہیں کہ ’’بیوی کی مثال بیڑی کی ہوتی ہے۔ شادی شدہ گھر کی مثال زنداں کی ہوتی ہے۔ اولاد کی مثال ہتھکڑیوں کی ہوتی ہے۔ معاش کی فکر جیل میں مشقت کےنام سے دیئے جانے والے سخت مشکل کام کی سی ہوتی ہے۔ بھلا ایسے میں تخلیقِ علم و ادب اور فکرِ نظم و نثر کیسے ہوسکتی ہے۔‘‘ خود غالب فرماتے ہیں؎
فکر دُنیا میں سر کھپاتا ہوں
میں کہاں اور یہ وبال کہاں
لیکن جناب ذرا ٹھہریے۔۔۔۔۔۔ میں نہ تو مولوی عبدالحق ہوں اور نہ ہی غالب۔ مجھے تو دو دو شادیاں کرنی پڑیں۔ پہلی شادی ادبِ عالیہ سے جبکہ دوسری ادبِ عالیہ کی طالبہ سے۔ میری شادی پر مجھے مبارکباد کے ڈھیر سارے خطوط ملے تھے ان میں ایک معنی خیز خط سکردو سے میرے محترم دوست نامور ادیب اور نقاد جناب محمد حسن حسرت کا تھا۔ حسرت صاحب کا اپنا اندازِ بیان ہے۔ خط میں سلام و دُعا کے بعد مجھ سے مخاطب تھے کہ ’’شادی خانہ آبادی مبارک ہو! سکردو کے کئی دیگر دوستوں کے ساتھ مجھے بھی آپ کا دعوت نامہ بذریعہ پروفیسرحشمت علی کمال الہامی موصول ہوا۔ یاد آوری پر دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ کئی مجبوریوں کے باعث عملی شرکت سے معذرت خواہ ہوں۔ البتہ فکری و روحانی طور پر آپ کی خوشی میں ضرور شریک ہوں۔ شکر ہے، آخر ہمارے پیارے دوست کریمی شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ شادی تو اس سے پہلے بھی آپ کی ہوچکی تھی اور قرطاس و قلم آپ کی رفیقۂ حیات بنی تھی جس کے بطن سے سہ ماہی ’’فکرونظر‘‘ کے اب تک درجن بھر پرچے جنم دے چکے ہیں۔ معلوم نہیں مستقبل میں کیا ہوگا؟ قرطاس و قلم آپ کی نئی دُلہن کے سوکن ہوں گے اور سوکنوں کی آپس میں نباہ بہت مشکل کام ہے۔ اپنا خیال رکھیئے گا۔ بہت بہت شکریہ۔‘‘
اسی طرح کئی سال پہلے جب ’’کریمی نمبر‘‘ شائع ہوا تھا۔ جس میں پروفیسر کمال الہامی صاحب جو اردو ادب میں امام کی حیثیت رکھتے ہیں، اپنی تحریر میں مستقبل کی پیش بینی کچھ اس طرح سے کی تھی کہ ’’کریمی صاحب عنقریب رشتۂ ازدواج میں جُڑنے والے ہیں۔ مانگی گئی ہے اور منگنی ہوگئی ہے، منگیتر بننے کے بعد میاں اور میاں والی بننے میں مزید دیر نہیں لگ سکتی۔ یہ بات تو اٹل ہے کہ وہ مولوی عبدالحق بن کر تو نہیں رہیں گے۔ البتہ غالب کی طرح ان کے معمولاتِ زندگی میں خلل پڑے گا یا نہیں یہ ابھی وقت بتائے گا۔ خود کریمی کا دعویٰ تو یہی ہے کہ شادی خانہ آبادی کے بعد نہ صرف ان کا گھر آباد ہوگا بلکہ اس سے کہیں زیادہ ادب کا آئینہ خانہ آباد ہوگا۔ خوش بختی سے بھابھی ایم۔ اے انگلش ہے۔ اب سہ ماہی ’’فکرونظر‘‘ کے اردو اور انگریزی دو حصے ہوں گے۔ کشورِ اردو کے راجا کریمی صاحب ہوں گے اور انگریزی کی راجدھانی کی مہارانی نئی مہمان صاحبہ ہوں گی۔ خواہ مخواہ میں نے ان کے گھر کے معاملات میں دخل اندازی کی اور شادی کی بھول بھلیوں میں منزل کے اندازے لگانے کی کوشش کی۔‘‘
حسرت صاحب اور پروفیسر صاحب کی یہ باتیں وقتی طور پر ہمیں طنزومزاح سی لگی تھیں لیکن باتیں پتے کی تھیں جس کی حقیقت کا تو ہمیں تب پتہ چلا جب شادی کے بعد نئی دلہن نے اتنی محبت دی کہ پرانی رفیقۂ حیات کو نہ صرف ہم وقت نہیں دے سکے بلکہ نئی دلہن کے عشق نے سال میں دو دو بچوں کا ایسا تحفہ دیا کہ کتابوں کا یہ شہزادہ پیمپرز اور بے بی پاؤڈرز کی تلاش میں بازاروں کی خاک چھانتا رہا۔ کتابوں سے پیمپرز تک کا سفر یا یوں کہیئے شادی کے ٹھیک چار سالوں بعد اب جب مڑ کر عمرِ رفتہ کو دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ وقت کی دُھول میں کھو کر پہلی رفیقۂ حیات کے ساتھ یقیناً ناانصافی ہوئی ہے۔ بخدا! اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم پہلی والی سے محبت نہیں کرتے۔ وہ تو بہت پہلے ہم نے کہا تھا کہ؎
قبروں میں نہیں ہم کو کتابوں میں اُتارو!
ہم لوگ محبت کی کہانی میں مرے ہیں
اس میں مسٔلہ سوکنوں کی محبت کا نہیں کیونکہ جہاں پہلی بذاتِ خود ادبِ عالیہ ہے تو دوسری والی اسی ادبِ عالیہ کی طالبہ یعنی انگریزی ادب کی طالبہ۔ سو، سوکنوں کی اچھی گزر رہی تھی۔ مسٔلہ تو میرا تھا میں منیج نہیں کر پا رہا تھا۔ میں نے ادبِ عالیہ سے زیادہ اس کی طالبہ کو اہمیت دی۔ اور دینی بھی چاہیئے کہ آخر بچوں کی دیکھ بھال اور تربیت و پرورش میں ماں باپ دونوں کا حصہ ہوتا ہے۔ مجھ سے اکثر دوست کہتے ہیں آپ کے بچے تو انگریزی و اردو ادب کے حسین امتزاج کے ساتھ پرورش پائیں گے کیونکہ ماں انگریزی ادب کی طالبہ تو باپ اردو ادب کے قدردان ہیں۔ اب جبکہ آشا اور اذین قدرے بڑے ہوئے ہیں۔ تو ہم نے سوچا کہ اب پہلی رفیقۂ حیات کی طرف بھی توجہ دینی چاہیئے جس میں سوسن کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ ان کا ساتھ نہ ہوتا اور خصوصاً ان کے ہاتھوں کی بنی ہوئی ادرک والی چائے کا ساتھ نہ ہوتا تو ہم تھک چکے ہوتے کہ جس کی چسکیاں ایسا لطف دینے لگتیں کہ چاندنی راتوں کا لطف دوبالا ہو جاتا۔ بچوں کو سلانے کے بعد صحن میں دیر تک بیٹھے انگریزی و اردو ادب میں کھو جانا یہ ہمارا روز کا معمول ہوتا۔ ذرا تصور کرے چاندنی رات ہو، ادرک والی چائے ہو اور نظروں کے سامنے محبت کرنے والی بیوی ہو تو لامحالہ انسان خوابوں کی دُنیا میں پہنچ جاتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا سکوت چھا جاتا کہ اس پر بقول شاعر مشرق تقریر بھی فدا ہوجاتی تو یقیناً محترمہ کو مخل ہونا پڑتا اور سکوت کو توڑتی ہوئی ایک آواز کانوں میں گونجتی کہ بہت چپ ہیں آپ؟ اب اس محترمہ کو کون غالب کا شعر سنائے کہ؎
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چُپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
جب کوئی جواب نہ بن پاتا تو محترمہ کی طرف سے ذرا تلخ لہجے میں مجازی خدا کو محبت بھری ڈانٹ پڑتی کہ بخدا! کچھ تو بولے کہاں ہیں آپ؟ تو بادلِ ناخواستہ خود غالب کے شعر کو سنانا پڑتا کہ؎
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
میں مولوی عبدالحق اور میرزا اسد اللہ خان غالب سے معذرت کے ساتھ ذرا اختلاف کرنے کی جسارت کرتا ہوں کہ بیوی پیر کی زنجیر کی حیثیت نہیں بلکہ ادب سے شغف رکھنے والی بیوی شوہر کے لیے خوش قسمتی کا درجہ رکھتی ہے۔ سوسن کا شکریہ کہ انہوں نے ہماری پہلی رفیقۂ حیات کو تنگ نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنی سوکن کا محبت سے ساتھ دیا تب کہیں جاکے پہلی رفیقۂ حیات سے کلیاتِ کریمی کی دوسری اور تیسری جلدیں یعنی ’’سسکیاں‘‘ اور ’’تلخیاں‘‘ کا جنم ہوا۔ ہماری اردو میں لکھی ہوئی کتابوں میں ’’سسکیاں‘‘چوتھی اور ’’تلخیاں‘‘ پانچویں کتاب ہے۔ آخر آپ کی تخلیقات اور کتابیں بھی تو آپ کے بچوں کی طرح ہوتی ہیں۔ اس لحاظ سے اب تک مجھے پانچ کتابوں اور دو بچوں کے باپ ہونے کا اعزاز حاصل ہو رہا ہے۔ سو، ہمیں اُمید ہے کہ ان جڑوے بچوں کی پیدائش پر اور سب سے اہم بات ہماری سوکنوں کی محبت پر ان کو مبارکباد دینے کے لیے آپ ہمارے ساتھ دیں گے۔ ان نئی کتابوں کی تقریب رونمائی بہت جلد آپ سب کی محبتوں کی صورت میں منعقد ہوگی۔