کالمز

بے بال و پر پرندہ

ہم ، میں اور میرے ایک دوست، ساتھ بیٹھ کر انیمل پلینٹ چنل دیکھ رہے تھے ۔ صورت حال یہ تھی کہ ایک جنگل میں بے شمار ہرن چوکڑیاں بھرتے اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر بھاگے جا رہے تھے ۔ ہرنوں کی معصومیت اور پھرُتی دعوت نظارہ دے رہی تھی ۔ کیا شان ہے فطرت کی واہ ۔ یہ تمام مخلوق نہ ہوتی تو یہ دھرتی کتنی بے رنگ ہوتی ۔ ان ہرنوں کو دیکھتے دیکھتے میں ایک گہری سوچ کی وادی میں چلا گیا تھا ۔ فطرت کی اس شان و شوکت پر میری سوچ کا نتیجہ یہ تھا کہ بچھو بھی اپنی ہستی کی صف میں اپنے اندر بلا کا حسن رکھتا ہے ۔ بلا وجہ اُسے بھی نہیں مارنا چاہئے بلکہ اُسے محفوظ راستہ دے کر اُسے گزرنے دینا چاہئے ۔ میں سوچ رہا تھا کہ آخر ہم کب قدرت کے کرشمات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے ؟ میں سوچ ہی رہاتھا کہ ایک ہرن کا بچہ چوکڑیاں بھرتا ہوا اپنی ماں کے پاس پہنچ گیا ۔ اُ س بے چارے بچے کو شدید بھوک لگی تھی ۔ اپنے نازک منہ سے اپنی ماں کے پیٹ پر زور زور سے جھٹکا دے کر دودھ پینے لگا ۔ جب خوب سیر ہوکر دودھ سے پیٹ بھر گیا تو ہرن کا معصوم بچہ دوبارہ چوکڑیاں بھرتا ہوا کبھی ماں سے آگے اور کبھی پیچھے چلتے ہوئے کیمرے کی آنکھ سے غائب ہو ا ۔ یہ ایک ایسا منظر تھا کہ جسے ہم دونوں دوست بہت ہی انہماک سے دیکھ رہے تھے اور اپنی اپنی سوچوں میں غرک تھے ۔

جیسے ہی ہرن کا بچہ اور اُسکی ماں ہماری انکھوں سے اوجھل ہوگئے تو ہم دونوں کے منہ سے ایک ساتھ آہ ! اور واہ ! کے کلمات نکلے ۔ ہم دونوں نے ایک ساتھ اتفاقاً طویل سانسیں بھی لیں ۔ مجھے سب سے بڑی خوشی یہ ہو رہی تھی کہ میرا دوست بھی میری طرح سوچ رہا تھا کیوں کہ ہم دونوں ایک ساتھ محو حیرت تھے ۔ مجھ سے رہا نہ گیا میں نے اُنہیں مخاطب کر کے کہا ’’ بھائی دیکھو اس دنیا میں کتنی خوبصورتی ہے ،تمام مخلوق اپنے انداز سے جیے جا رہی ہے یہ جو ہرن کی ماں نے اپنی مامتا کا اظہار کیا نا ، کتنا شاندار منظر تھا ‘‘ ’’ اہو ہو کیا مزاہ آیا یہ جو ہرنی تھی کم از کم چار سال کی تھی‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا ’’ آپ کو کیسے معلوم ؟‘‘ بولے ’’ میں نے تو انہیں بہت مارا ہے میں نے اپنی زندگی میں یہی کوئی ۱۵ ہرنوں کا شکار کیا ہے کوئی ۱۰ ہرن گھائل ہو کر پہاڑوں کے دراڑوں میں گر کر مر گئے ہیں ‘‘ اُن کا یہ جملہ تیر بن کر میرے سینے کے اُوپر پیوست ہوا کیوں کہ اُن کے اور میرے دیکھنے کے انداز میں اختلاف تھا ۔

حیرت یہ ہوتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں آج کی اس ترقی یافتہ دنیا میں بھی ایسے بے شمار ظالم لوگ موجود ہیں جو کہ اپنے ایک وقت کی ضیافت کے لئے فطرت کے حسن کو تاخت و تاراج ک اور سر تا پا پامال کر رہے ہیں ۔ ہم جب چھوٹے تھے تو ہمارے پہاڑی علاقوں میں موسمی پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ نظر آتے تھے جن میں فاختے ، تیتر ، بٹیر، چکور، چلی بختو، چیچیر، دون توتوق، چھیر بوئیک ، چلینگی، سوسوروک ، اڑی بوئیک، چورغوڑیک ، منڈاغ، پیلیلیسی، ٹینسک، شوئچ، تاتالی ، واوالی، سیخدوم ، پھیوک ، روش، مچھی خور، کروئی رومی ، غلوانج، بلپھاک، کھانجوڑ ، بت بات، شو ٹو ٹور ، قوز، یورج، بزبار ، ٹیوف، بوبوک، غاروئے، کووور، چغڑی،بوواور چوک کے علاوہ بے شمار ایسے پرندے ہوا کرتے کہ اُن سب کے نام یاد نہیں۔ یہ پرندے انسانی آبادی کے ساتھ مل جل کر رہا کرتے ۔ ان کا شکار بھی ہوتا لیکن بہت کم پیمانے پر ۔ ہرنوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ جب برف باری زیادہ ہوتی تو ہرن گاؤں میں گھس آتے بلکہ ہمارے علاقے میں یہ شواہد بھی ملتے ہیں کہ ہرن نیچے آکر بعض مرتبہ بکریوں کے ساتھ مویشی خانوں تک گھس جایا کرتے ۔ لیکن آج صرف ٹیلی وژن پر ایکا دکا نظر آتے ہیں ۔ ہمارے علاقے میں بھیڑیوں اور لومڑیوں کی باد شاہت ہوتی تھی ۔ دن دہاڑے مویشی خانوں پر بھیڑیوں کییلغار کے چشم دید گواہ موجود ہیں ۔ لومڑیاں تو ہر پتھر کے نیچے سے دو دو نکلتے تھے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ بھیڑیے بھی ہوتے تھے اور لوگوں کے یہاں بکریوں کے ریوڑ کے ریوڑ بھی ہوا کرتے ۔ لومڑیاں بھی تھیں لیکن ہر گھر میں کم از کم ۵۰ مرٖغیاں بھی ہوتی تھیں۔ ہماری نسل نے جیسے ہی شکار کھیلنا شروع کیا تو ان تمام جانوروں کی نسلیں معدوم ہوتی چلی گئیں کیوں کہ دنیا ایکو سسٹم سے چلتی یہاں ہم سب ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں ۔ ہماری حیات میں ہم سب کی برابر برابر اہمیت ہے ۔ اس کررہ ارض کو بہتر بنانے کے لئے جتنی ضرورت ایک انسان کی ہے اُتنی ہی ضرورت ایک چوہے یا مینڈک کی بھی ہے ۔ ہم نے اپنی سہولیات کی خاطر دنیا کو تباہی کے دہانے دھکیل کے رکھ دیا ہے ۔ کچھ جانوروں کا شکار کر کے ہم اُن کا گوشت کھاتے ہیں اور کچھ جانوروں اورحشرات کو اپنے لئے خطرہ سمجھ کر زہر کھلا کے صفحہ ہستی سے مٹا دیتے ہیں ۔ اور نتیجے کے طور پر ہم خود بھی اپنے آپ کو غیر مرئی انداز سے آہستہ آہستہ ایک بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جا رہے ہیں ۔ بے تحاشا شکار کی وجہ سے ہمارے معاون جانور معدوم ہو گئے ہیں اور ٖفصلوں پر زہر چھڑکنے سے فائدہ مند حشرات بھی صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں ۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم طرح طرح طرح کی مہلک بیمارویوں کے نرغے میں آگئے ہیں ۔ ہماری مثال ایک بے بال و پر پرندے کی ہے جو کہ آزاد تو ہے لیکن اُڑ نہیں سکتا ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button