چترال(گل حماد فاروقی) نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق کے چئیرمین چیف جسٹس ریٹائرڈ جسٹس علی نواز چوہان اور ان کے ٹیم نے خوبصورت وادی کیلاش کا دورہ کیا۔ اس دورے کا مقصد کیلاش لوگوں کے ساتھ کسی قسم کی بے انصافی اور ان کی بنیادی حقوق سلب ہونے کی سد باب کرنا تھا۔ بمبوریت کے مقام پر وادی بریر، بمبوریت اور رمبور سے آئے ہوئے کیلاش عمائدین نے چئیرمین کو اپنے مسائل سے آگاہ کیا۔ کیلاش قبیلے کی نمائندگی کرتے ہوئے سیف اللہ ، بہرام شاہ، انت بیگ، عمران ، شاہ حسین، اکرم حسین وغیرہ نے شکایت کی کہ چترال میں صرف کاغذوں کی حد تک لینڈ سیٹلمنٹ تو بنا ہوا ہے مگر عملی طور پر ابھی تک کوئی کام نہیں ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ زمین کی پیمائش اور حد بندی کرتے وقت نہ تو ان پٹواریوں نے ہمیں بلایا نہ ہم سے کوئی مشورہ کرکے دستحط کرایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیلاش ثقافت کے مطابق شاہ بلوط کی درخت ہماری حد بندی ہوتی ہے اور زمین کی تقسیم کے ساتھ ساتھ شاہ بلوط کی درخت بھی اسی کی ملکیت ہوتی ہے مگر پٹواریوں نے ہمیں ان شاہ بلوط کی درختوں سے محروم کیا ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ Land Settlement کا عملہ زیادہ تر گھر بیٹھے تنخواہ لے رہے ہیں کیونکہ ہم نے نہیں دیکھا کہ وہ لوگ یہاں آکر زمین کی پیمائش کرے یا نقشہ بنائے نہ ہمارے ساتھ کوئی مشاورت ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ کیلاش وادی میں لڑکیوں کیلئے کوئی سکول نہیں ہے وہ مجبوراً لڑکوں کے سکول میں پڑھتی ہیں مگر وہ بھی صرف میٹرک تک ہے۔ جبکہ ہسپتال میں ادویات اور دیگر سہولیات کی فقدا ن ہے۔ ان کی مذہبی عباد ت گاہوں کی حالت زار بھی نہایت ناگفتہ بہہ ہے۔ سڑک کی حالت اتنی حراب ہے کہ مریض ہسپتال پہنچنے سے پہلے جاں بحق ہوسکتا ہے۔
جسٹس علی نواز چوہان نے بتایا کہ اس سے پہلے انہوں نے تھر پارکر کا دورہ کیا تھا جہاں ہندوں لڑکیوں کو زبردستی مسلمان کرکے ان سے شادی کرتے ہیں اور کچھ عرصہ بعد ان کو چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ مجھے شکایت ملی تھی کہ کیلاش لڑکیوں کو بھی مسلمان بناکر ان سے مسلمان مرد شادی کرتے ہیں مگر شادی کے بعد ان کو طلاق دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 20 کے مطابق تمام اقلیتوں کو مکمل آزادی حاصل ہے۔انہوں نے سڑک کی حراب حالت پر بھی نہایت برہمی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق چاہتی ہے کہ وہ کیلاش ثقافت کو تحفظ دے اور اسے مٹنے سے بچائے کیونکہ یہ دنیا کی ایک نرالی ثقافت ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیلاش لوگوں کے مسائل کے بارے میں ایک مفصل رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔
کیلاش طلباء و طالبات کیلئے کوئی تعلیمی وظیفہ بھی نہیں ہے اور نہ ہی ان کو دیگر کسی قسم کی سہولیات میسر ہے۔ کیلاش قبیلے کے عمائدین نے مطالبہ کیا کہ کیلاش طلباء کیلئے میڈیکل کالجوں اور یونیورسٹیوں میں حصوصی کوٹہ ہونا چاہئے کیونکہ ہمارے طلباء بڑے شہروں کے طلباء کے ساتھ مقابلہ نہیں کرسکتے۔
انہوں نے یہ بھی شکایت کہ چند افراد جو باہر سے آکر یہاں زمین خریدتے ہیں مگر وہ تجاوزات کرتے ہوئے ہمارے زمینات پر بھی قبضہ جمارہے ہیں جبکہ ہم ان کے سامنے بے بس ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مہتر چترال نے ہمیں شاہ میلات کے طو رپر جو زمین دی تھی موجودہ لینڈ سیٹلمنٹ میں ان کا کوئی ذکر نہیں ہے اور اسے سرکاری اراضی قرار دیا ہے۔ نذرگئی کونسلر نے کہا کہ افغانستان سے لوگ آکر یہاں ہمارے جنگل بھی کاٹتے ہیں، ہمارے مال مویشی بھی بھگاکر لے جاتے ہیں اور ہمارے چند افراد کو بھی قتل کیا۔
انہوں نے کہا کہ اچول گاہ کے مقام پر ہماری زمین اور جنگل ہے جس پر آیون کے بااثر افراد نے قبضہ کرکے ہمارے حق کو سلب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس دوران سیکورٹی فورسز کے ایک اہلکار نے جب جسٹس علی نواز چوہان اور اسکی ٹیم سے NOC مانگا تو اس پر چئیرمین نہایت برہم ہوگئے کہ ہمیں اپنے ملک میں سرکاری کام کرنے کیلئے بھی این او سی لینا پڑے گا جو کہ غلط ہے انہوں نے کہا کی وہ چیف آف آرمی سٹاف اور ایڈجوٹنٹ جنرل سے ضرور یہ مطالبہ کریں گے کہ ان کے چند جونئر لوگ سیاحوں، صحافیوں اور باہر سے آئے لوگوں کے ساتھ نہایت غیر ناشائسہ طریقے سے ملتے ہیں اور ان سے این او سی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
جسٹس علی نواز چوہان نے اس کے بعد کیلاشا دور، عجائب گھر اور کیلاش سکول کا بھی دورہ کیا جہاں اکرم حسین، عمران کبیر نے ان کو بریفنگ دی۔ انہوں نے کلاس روم میں جب ایک بچے کے ہاتھ میں اسلامی کتاب دیکھی تو نہایت حیرانگی کا اظہار کیا کیونکہ کیلاش چونکہ غیر مذہب ہے ان کو اپنے مذہب اور ثقافت کے مطابق تعلیم دینی چاہئے اور ان کے کورس میں اسلامی کتب اصولی طور پر شامل نہیں ہونا چاہئے۔ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے ٹیم میں چیف جسٹس ریٹائرڈ علی نواز چوہان، سابق صوبائی وزیر اور رکن بلوچستان فضیلہ الیانی، سید حضر علی شاہ ڈائریکٹر، رضا ع الرحمان اسد کو آرڈینٹر، سید احسن آیاز کاظمی کو آرڈینیٹر اور سید حیدر الی ظفر کو آرڈینیٹر بھی شامل تھے۔اس کمیشن کا یہ چترال کا پہلا دورہ ہے۔
ہمارے نمائندے سے حصوصی باتیں کرتے ہوئے جسٹس علی نواز چوہان نے کہا کہ ان کا ادارہ ایک خود محتار ادارہ ہے اور ہر قسم کے انسانی حقوق کی حلاف ورزی پر آواز اٹھاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ضرور صوبائی اور وفاقی حکومت کو اپنی سفارشات بھیجے گے تاکہ وادی کیلاش کی کم از کم سڑکوں کو تو تعمیر کرے تاکہ ان لوگوں کے علاوہ سیاحوں کو بھی آنے جانے میں دقت نہ ہو۔ وادی کیلاش کے لوگوں نے ان کا اور اان کے ٹیم کا بے حد شکریہ ادا کیا کہ وہ انتہائی دشوار راستوں سے گزر کرے یہاں پہنچے اور ا ن کی فریاد سنی اور داد رسی کی۔