Uncategorized

چور مچائے شور

رشید ارشد

جیسے جھوٹ کے پاؤں نہیں ایسے ہی آج کل پیپلز پارٹی کے گلگت بلتستان میں زمین پر پاؤں نہیں ،،،،پاؤں تو تب بھی نہیں تھے،،، جب مہدی شاہ وزیر اعلی گلگت بلتستان تھے بس زرا نوکریوں کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم سے مصنوعی پاؤں لگا کر یہ ظاہر کیا گیا تھا کہ،،،ابھی تو میں جوان ہوں ،،،،لیکن
اس مصنوعی جوانی کی حقیقت انتخابات میں ایسے ہی کھل گئی جیسے عائشہ گلا ئی کی پریس کانفرنس کی ،کپتان کی حقیقت کھل گئی ،،پی پی پر سیاسی میک اپ کر کے ،جوانی دھوکا دیا گیا ،جیسے ہی سچ کی بارش ہوئی جھوٹ سارا دھل گیا،، انتخابات کے اگلے دن معلوم ہوا کہ جھوٹ اپنے انجام کو پہنچ گیا ،جھوٹ ہار گیا ،سچ جیت گیا ،پیپلز پارٹی ایک سیٹ کی ہو گئی ،بلکہ اپنی پیدا کردہ کرپشن اور نوکریوں کی فروخت والی دوائی پی کر بے ہوشی کی نیند سو گئی ،ایک عرصے تک یہ حالت رہی پھر امجد ایڈوکیٹ نے اس پر حق ملکیت کا چھڑکاؤ کیا،حق ملکیت کا ڈھنڈورہ ایسے پیٹا گیا جیسے آج کل عائشہ گلالئی عمران خان کے گندے مسیجوں کا ڈھنڈورہ پیٹ رہی ہے ،اس شور شرابے سے کچھ بن نہیں پڑا تو کسی سیاسی سیانے نے مشورہ دیا کہ کب تک مسلم لیگ ن کے گناہ دھونڈتے رہو گے پانچ برس یوں ہی گزر جائیں گے مسلم لیگ ن کی گلگت بلتستان حکومت کا کوئی ایسا گناہ سامنے نہیں آئے گا کہ جس کی بنیاد پر پیپلز پارٹی کو سیاسی آکسیجن مہیا ہو لہذا پیپلز پارٹی کے پرانے سیاسی گناہوں کے گودام سے کوئی گناہ نکال کر اسے مسلم لیگ ن کے کھاتے میں اس فارمولے کے تحت ڈالو کہ ،،،،جھوٹ اتنا بولو کہ سچ معلوم ہو ،،،سیاسی سیانے کے اس ۔۔نیک ،،مشورے پر عمل کرتے ہوئے ۔خود لگائے ہوئے ٹیکس پر شور مچایا گیا ، شور بھی ایسا کہ جیسے جھگڑالو عورتیں معمولی بات پر آسمان سر پر اٹھاتی ہیں ہائے ،واے ،ہم لٹ گئے ،،ہم برباد ہوئے ،،حکو مت نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا ۔اتنا شور کیا کہ عوام بھی جمع ہو گئے کہ یہ تو بہت برا ہوا ہے ۔۔۔جھوٹ نے ہمیشہ سچ کے ساتھ وہی سلوک کیا، جو اقتدار کیلئے مغل شہزادے اپنے بڈھے والدین سے کیا کرتے تھے، کچھ ایسے ہی اگر پیپلز پارٹی کے لئے کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ پیپلز پارٹی نے بھی جھوٹ بول بول کر وہی حال عوام کا کر دیا جو حال مغل شہزادے اقتدار کیلئے اپنے والدین سے کرتے تھے۔۔۔ کسی سیانے سے پوچھا گیا کہ ’’انسان نے جھوٹ بولنا کب شروع کیا‘‘ جواب ملا ’’جب سے بولنا شروع کیا،،،اب اگر پوچھا جائے کہ پیپلز پارٹی نے جھوٹ بولنے میں کب سے مہارت حاصل کی تو کہا جا سکتا ہے کہ جب سے،،،، سیاست کے مفتی اعظم آصف علی زرداری ،،،،نے یہ کہا تھا کہ ،وعدے قرآن حدیث نہیں ہوا کرتے ،،
چینی کہاوت ہے کہ مچھلی کھاتے اور جھوٹ بولتے وقت دماغ کی آنکھیں کھلی رکھیں،لیکن کیا ہے کہ گلگت بلتستان میں پیپلز پارٹی جھوٹ بولتے وقت نہ دماغ سے کام لیتی ہے اور نہ اسے حقائق نظر آتے ہیں،،، شاید آج بھی پیپلز پارٹی کو گمان ہے کہ ستر کی دھائی والے وہی عوام ہیں جنہیں ،،،روٹی کپڑا اور مکان ،،کے نعرے میں الجھایا گیا تھا ،،روٹی کپڑا مکان کے نعرے کے معنی پیپلز پارٹی نے ہی بدل ڈالے ،روٹی کے بدلے گولی ،کپڑے کے بدلے کفن اور مکان کے بدلے قبرستان ،،،
جھوٹ کی سب سے خطرناک قسم وہ جو بیو ی سے بولا جائے، کیونکہ بیو ی سے جھوٹ بولنا مطلب شیر کے منہ میں یہ جاننے کے لئے ہاتھ ڈالنا کہ اس کے کتنے دانت ہیں، اب مسئلہ تب تک تو ٹھیک رہے کہ جب تک آپ شیر کے دانت گن رہے ہوں، مسئلہ تب بگڑے جب شیر آپ کی انگلیاں گننے لگ جائے، بیوی سے یاد آیا کہ بیوی سے تنگ ایک بھلا مانس دعا کروانے جب ایک دربار پر گیا تو وہاں اس نے سات بابوں کو زمین پر دریاں بچھائے عالمِ مراقبہ میں دیکھا، وہ بھی ہاتھ باندھ کر ایک طرف باادب کھڑا ہو گیا، تھوڑی دیر بعد جونہی ایک بابے کی نظر اس پر پڑی تو یہ بولا ’’باباجی بیو ی سے بہت تنگ ہوں‘‘ یہ سننا تھا کہ بابے نے آواز لگائی ’’اوئے چھوٹے اندروں اِک دری ہور لے آ‘‘، دوستو! جیسے بڑھاپے میں شادی نہ کرنے سے مشکل کام شادی کر لینا، جیسے جہیز میں ملنے والی سب سے مہنگی شے ساس اور سالی جیسے ’’خشک سالی‘‘ گھر اور ملک دونوں کیلئے اچھی نہیں ہوتی، ویسے ہی تازہ جھوٹ باسی سچ سے معتبر، ویسے ہی جھوٹ جیسے جیسے بوڑھا ہوتا جائے سچ میں ڈھلتا جائے اور ویسے ہی سچ میں ذرا سا جھوٹ ڈال دیا جائے تو بالآخر سارا سچ ہی جھوٹ ہو جائے جبکہ جھوٹ میں چاہے جتنا مرضی سچ ڈال دیں، جھوٹ،جھوٹ ہی رہے۔ایسے پیپلز پارٹی کو جھوٹ کے ہزار پردوں میں چھپایا جائے ،جدید قسم کا سیاسی میک اپ لگایا جائے ،،کھبی بلاول بھٹو تو کھبی بلاول زرداری کا تڑکا لگایا جائے ،،پیپلز پارٹی بدلے گی ،،نہیں جیسے شیخ سعدی نے کہا تھا کہ انسان بہت پہلے ایک حادثے میں مرچکا اب آدمی ملیں گے ،اسی پر چچا غالب نے کہا تھا کہ
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی مئیسر نہیں انساں ہونا

ایسے ہی پیپلز پارٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے ساتھ ہی گھڑی خدا بخش میں دفن ہو گئی ،،اب تو پیپلز پارٹی کے نام پر زرداری اور بھٹو کے ناموں کو مکس کر کے جو مصالحہ تیار کیا گیا ہے اس کو پیپلز پارٹی کا نام دیا گیا ہے ،،وہ دن گئے جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے،،،وہ دن گئے جب پیپلز پارٹی پر عوام اعتبار کرتے تھے ،اب تو جھوٹ اور پیپلز پارٹی کا چولی دامن کا ساتھ ہے ،گلگت بلتستان میں پیپلز پارٹی کے رہنما دو قدم آگے بھی بڑھے ہیں جھوٹ اتنے تواتر اور مہارت سے بول رہے ہیں جس مہارت اور محنت سے اپنے دور میں کرپشن اور نوکریاں فروخت کیں۔پیپلز پارٹی جنتا شور مچائے کہ ٹیکس موجودہ حکومت نے لگایا ہے اس جھوٹ کی مثال ایسی ہی ہے جیسے بلاول زرداری کے نام کے ساتھ ،،بھٹو لگا کر زرداری خاندان کے فرد کو بھٹو بنا دیا گیا ہے نام لگانے سے جیسے زرداری بھٹو نہیں بن سکتا ایسے ہی پیپلز پارٹی کا اپنا گناہ کبیرہ گلگت بلتستان میں ٹیکس لگانے کامسلم لیگ کے کھاتے میں نہیں لکھا جاسکتا ،،،بس پیپلز پارٹی اپنے ہونے کا ثبوت دینے کیلئے جھوٹ پر اتر کر ،،،چور مچائے شور کے فارمولے پر پوری سچائی سے عمل کر رہی ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button