کالمز
کپاس کے پھول
’’معصوم سات سالہ رجو اپنے ماں باپ کی لاڈلی، گھر بھر کو اپنی پیاری باتوں سے خوش رکھتی۔ وہ اپنی ماں کے ساتھ کھیتوں میں سے گزرتے ہوئے بے تحاشہ سوال کرتی، ماں یہ ٹیوب ویل سے پانی کیسے آتا ہے؟ یہ پودے اتنی جلدی کیسے بڑے ہوتے ہیں؟ درختوں پر پھل کیسے لگتے ہیں؟ پرندے کیسے اڑتے ہیں؟ ماں اس پر پیار بھری نظر ڈال کر خوش ہوتی اور کہتی یہ رب سوہنے کا کرم ہے۔ اس کا غریب باپ کسان تھا زمیندار کے کھیتوں میں کام کرتا اور جیسے تیسے گھر کا خرچ چلاتا اکثر تو ایک وقت کا کا کھانا ہی ملتا لیکن پھر بھی خدا کا شکر ادا کرکے دوسرے دن کام پر نکل جاتا۔
اماں میرا کرتا جگہ جگہ پھٹ گیا ہے تو کب بنا کر دے گی۔ اماں کہتی ابا کپڑا لا کر دے گا تو سی دوں گی۔ ماں سے بڑے بھولے پن سے کہتی اماں کپڑا کہاں سے آتا ہے ماں کہتی کپڑا کپاس سے بنتا ہے اب سیزن شروع ہونے والا ہے ہم کپاس چننے جائیں گے پھر یہ صاف ہو کر دھاگہ بنے گا پھر کپڑا تیار ہوگا۔ ننھی رجو بہت خوش ہوئی کیونکہ وہ کپڑے کا راز جان گئی تھی۔
اس دن وہ چپکے سے ماں کی نظر بچا کر زمیندار کے کپاس کے کھیتوں کی طرف نکل گئی آج اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ کپاس کے پھول توڑ کر لائے گی اور اپنے کرتے کے لیے کپڑا بنائے گی، ننھی سی بچی اتنی بڑی سوچ کے ساتھ کھیت میں چپکے سے داخل ہوئی چاروں طرف سناٹا تھا اس نے اپنی میلی سی چنری کو پھیلا کر اس میں کپاس کے چند پھول توڑ کر ڈالے اور سوچنے لگی اماں نے یہ تو بتایا ہی نہیں کتنے کپاس کے پھول میرے کرتے کے کپڑے کے لیے چاہیے ہیں ابھی وہ اپنی معصوم سوچوں سے لڑہی رہی تھی کہ اس پر چاروں طرف سے کتوں نے حملہ کردیا، ہش ٹامی پکڑ چور لڑکی ہے پکڑ زمیندار کی آواز اس کے کانوں میں آئی وہ چیخنے لگی نہیں میں چور نہیں میں کپڑا بناؤں گی لیکن کتوں نے اسے بھنبھوڑنا شروع کردیا اور زمیندار کے قہقہے گونجنے لگے، معصوم بچی کی چیخیں آسمان سے باتیں کررہی تھیں اور خبیث زمیندار اپنے کتوں کو شاباش دے رہا تھا، گاؤں والے جمع ہو گئے سب رحم کی اپیل کررہے تھے، زمیندار صاحب چھوڑ دو معصوم بچی ہے رحم کرو، زمیندار دہاڑا ان کمیوں کی یہی سزا ہے کپاس چوری کرتی ہے۔ زخمی بچی خون میں نہا کر بے ہوش ہو چکی تھی ارے آپ اتنے غور سے پڑھ رہے ہیں کیا! آپ سمجھے کوئی افسانہ ہے یا میں کہانی بیان کررہی ہوں نہیں جناب یہ ہمارے ملک پاکستان میں جنوبی پنجاب کے شہر مظفر گڑھ کا واقعہ ہے، حیرت نہ کریں۔
مقامی اخبار کے مطابق کپاس چوری کے شبے میں مظفر گڑھ با اثر زمیندار نے درندگی کی انتہا کردی۔ بچی نے صرف کپاس کے چند پھول توڑے تھے، زمیندار نے سات سالہ بچی پر کتے چھوڑ دیے خونخوار کتے بچی کو نوچتے رہے بے رحم زمیندار کو ذرا بھی ترس نہیں آیا، مرصوم بچی چیخیں مار مار کر رحم کی اپیل کرتی رہی تاہم بھیڑیا نما انسان تماشہ دیکھتا رہا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق حالت نازک ہونے پر مقامی لوگوں نے ننھی کلی کو سول ہسپتال منتقل کیا جہاں اس کا علاج جاری ہے جرم صرف کپاس کے چند پھول توڑنا تھا۔
ظلم کی انتہاء سات سالہ بچی پر کتے چھوڑنے پر ذرا رحم نہ آیا، یہ کیا ہو رہا ہے کو ئی اس طرح ظلم کرنے والوں کو پوچھتا کیوں نہیں انھیں سزا کیوں نہیں دیتا۔ وحشت اور درندگی کی مثال قائم کردی زمیندار نے لیکن کون روکے یہ تو بہت چھوٹا واقعہ ہے یہاں تو اس طرح کے واقعات تو روز ہوتے رہتے ہیں جو رونگٹے کھڑے کردیتے ہیں۔ آپ سوچیں سات سال کی معصوم بچی کپاس کے چند پھول توڑنے پر معتوب ٹہری اور ہسپتال میں موت وزندگی کی کشمکش سے گزر رہی ہےمر بھی گئی تو کون پوچھنے والا ہے۔
یہ ظلم نہ روکے گئے تو یہ بڑھتے بڑھتے ہمارے دامن تک بھی پہنچ جائیں گے۔ قانون کے محافظ کہاں ہیں، اس ملک میں ایسے جرائم کے لیے کوئی پکڑ ہے کوئی قانون ہے یا نہیں۔ انسانی حقوق ہیں یا وہ بھی ختم ہو گئے ہیں۔ اس واقعہ کو انسانی حقوق کی تنظیم اچھالے گی یا اس کا سدباب کا سوچے گی تو قانون کے محافظ اسے پاکستان کی بےعزتی قرار دین گے، حالانکہ جب وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں تو انسانی حقوق کی تنظیمیں ایسے واقعات کو ہوا دیں گی۔ براہ مہربانی قانون کی حکمرانی قائم کیجئے اور بے بسوں بے کسوں کو انصاف فراہم کیجئے ورنہ مملکت خداداد پاکستان میں خدا کی لاٹھی کب تک بے آواز رہے گی اور جب خدا حساب لے گا تو قہر خداوندی نازل ہوگا اور سب کچھ ختم ہو جائے گا سدھر جاؤ اس سے پہلے کہ؎
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا
جب لاد چلے گا بنجارہ‘‘
کبھی کبھی کچھ تحریریں ایسی ہوتی ہیں کہ جن کو پڑھ کر دھاڑیں مارکر رونے کو دل کرتا ہے۔ احساس کے جھروکوں سے جھانکتی ہوئی شاہانہ جاوید صاحبہ کی یہ تحریر بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔ شاہانہ صاحبہ بہت داد، بہت تحسین۔ ہم تو صرف اتنا کہہ سکتے ہیں؎
’’اللہ کرے حُسنِ بیاں اور زیادہ‘‘
اس دُعا کے ساتھ اجازت کہ اللہ پاک ظالموں کو نشانِ عبرت بنائے۔ آمین!