تحریر: فہیم اختر
وزیرتعمیرات ڈاکٹر محمد اقبال کی اس بات کی چاروں اطراف سے تعریف کرنی چاہئے کہ انہوں نے گلگت بلتستان کے ایک طویل المدتی مسئلے کے حل کے لئے تمام جماعتوں کو مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے کے لئے دعوت دیدی اور اپنی ہی جماعت کے وفاقی حکومت کے خلاف دھرنا دینے کا اعلان کردیا۔ انہوں نے اعتراف بھی کردیا کہ گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کے حوالے سے کمیٹیاں ناکام ثابت ہورہی ہیں ۔ سرتاج عزیز کی سربراہی میں آئینی حقوق کے لئے قائم کمیٹی سے امیدیں دم توڑ رہی ہیں ۔ڈاکٹر اقبال کا موقف ہے کہ گلگت بلتستان کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی ملتی تو ٹیکسز کے معاملے میں علاقے کے دوکانوں کو تین روز تک بند رکھنے کی نوبت نہیں آتی۔ گلگت بلتستان کے احساس محرومی کی اصل وجہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی نہ ہونے اور آئینی حقوق سے محرومی ہے ۔
خوشی اس وقت ہوتی جب ڈاکٹر اقبال ایک اصول کے مطابق ایسی چیز پر دعوت دے دیتاجس کا اصول سیاسی ہونے کی بجائے سائنسی ہوتا ۔ جناب ڈاکٹر محمد اقبال صاحب دو سال قبل ٹھیک انہی دنوں میں صوبائی حکومت کی جانب سے قائم کردہ کمیٹی کے چیئرمین تھے جس کا باضابطہ آل پارٹیز کانفرنس مورخہ 20نومبر 2015کو منعقد ہوا تھا۔ معلوم نہیں ڈاکٹر اقبال صاحب ان دنوں اپنے حواس میں تھے یا نہیں ۔ مذکورہ آل پارٹیز کانفرنس میں متفقہ طو ر پر اعلان کیا گیا کہ گلگت بلتستان کو پانچواں آئینی صوبہ بنایا جائے ۔ اس کانفرنس کے سفارشات وفاق کو ارسال کردئے گئے تھے لیکن وفاق نے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں کمیٹی قائم کردی ۔ ڈاکٹر اقبال اتنے بھی بھولے نہیں کہ پانچواں آئینی صوبے اور آئینی حیثیت کے تعین کے لئے کمیٹی میں فرق کریں لیکن خاموش رہے ۔ اس کمیٹی کے اجلاس سے قبل بھی راقم نے اپنے قلم کے ذریعے اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ 68سال کے بعد آئینی حقوق کے حوالے سے منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس کیا گل کھلاتی ہے ؟۔ کیا مختلف الخیال قوتوں کو یکجا کرکے ایک منشور اور متفقہ قرارداد پر اتفاق ہوسکے گا یا نہیں۔ اور نہیں ہونے کی صورت میں؟۔۔ اور اطلاعات کے مطابق مختلف افراد نے مختلف آراء بھی پیش کئے تھے تاہم صوبائی حکومت نے اسے میڈیا سے مکمل دور رکھ کے متفقہ قرارداد ظاہر کردیا۔
وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن کو اپنی پالیسیوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ مختلف ٹاک شوز میں بڑے دعوے اور فخر کے ساتھ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارا تحریری منشور موجود ہے جس میں ہم نے کسی صورت آئینی صوبے اور آئینی حقوق کا وعدہ نہیں کیاہے۔ وزیراعلیٰ صرف اس ایک جملے کو کئی پروگرامز میں جواب کے طور پر استعمال کرچکے ہیں اور ساتھ میں یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ ماضی کی حکومتوں نے علاقے کو آئینی حقوق کے نام پر گمراہ کیا ہے ۔ بجا طور پر مسلم لیگ ن گلگت بلتستان کے منشور میں اگر آئینی حقوق دینے اور آئینی حیثیت کے تعین کے لئے کسی بھی وعدے کا ذکر نہیں ہے تو تمام وزراء کیوں چیختے چلارہے ہیں۔ گلگت بلتستان میں موجودہ وزراء اور سابقہ نگران حکومت کے وزراء میں فرق کرنا بہت مشکل ہورہا ہے ۔ نگران حکومت کے وزراء خود کو عوام کی امیدوں کا محور سمجھتے ہوئے آئینی حقوق دلانے کا اعلان کرچکے تھے ۔ موجودہ وزراء بھی آئے روز وہی موقف بدلتے الفاظ کے ساتھ دے رہے ہیں ۔ سیپکر فدا محمد ناشاد تو اس بات تک مطمئن تھے کہ نوازشریف مسیحا بن کر آئے ہیں اور ہمیں پانچواں صوبہ بنائیگا۔ فدا ناشاد پوچھتے ہیں کہ اقوام متحدہ نے دنیا میں آج تک کون سے مسائل کو حل کیا ہے جو گلگت بلتستان اور مسئلہ کشمیر کو حل کرکے دیگا۔ پاکستان کے درجنوں سربراہان کے گزرنے کے باوجود کسی نے ہمارے لئے کمیٹی نہیں بنائی آج پہلی بار نوازشریف نے ہمارے آئینی حیثیت کے تعین کے لئے کمیٹی بنائی ہے ۔ اب ناشاد صاحب ذرا وضاحت کریں ؟
مسلم لیگ ن نے گلگت بلتستان میں ’آ بیل مجھے مار ‘ کے مصداق آئینی حقوق کا معاملہ چھیڑا ہے ۔ اور وزرائے خاص نے اس بات کو ’جھوٹ کو اتنا بولو کہ سچ نظر آئے‘ کی صورت پھیلانا شروع کردیا۔ آج نوبت یہاں تک آ پہنچی بعض حلقوں سے سول نافرمانی کی دھمکیاں ملنی شروع ہوگئی۔ اگر یہ سول نافرمانی عمران خان والی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ ان سب کے اس فعل کا پہلا جواب گلگت بلتستان کے وزراء کو دینا ہوگا۔
وزراء میں اب تک اگر کوئی وزیر میڈیا اور عوام کے سامنے آکر مسلم لیگ ن کی ترجمانی کررہا تھا تو وہ ڈاکٹر اقبال ہیں۔ لیکن گزشتہ دنوں ان کے انتہائی غیر منطقی موقف نے حیرت میں ڈال دیا ۔ بنیادی طور پر ڈاکٹر اقبال سیاست میں اسلامی تحریک کا پیداوار ہے اور اب بھی ایسے معاملات میں ڈاکٹر اقبال اسلامی تحریک کے ہی ہم نوا نظر آرہے ہیں ۔ ڈاکٹر محمد اقبال کو ایسے ’انتہاپسندانہ‘ بیانات دینے سے قبل گلگت بلتستان کی آئینی صورتحال ، بدلتے ہوئے معاملات ، عالمی اثرات ، مقامی تبدیلیوں اور مسئلہ کشمیر کو گلگت بلتستان کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ ایسا نہ ہو کہ کئی سال بیرون ملک رہ کر ’سہولیات‘ کے مزے لیکر چند روز کے لئے واپسی میں آکر گلگت بلتستان کے حساس معاملات میں اوٹ پٹانگ موقف اپنایا جائے ۔ آج ڈاکٹر اقبال آئے ہیں کل ڈاکٹر زمان بھی آئیگا اور باتیں یہی کریگا۔
ڈاکٹر اقبال نے گلگت بلتستان اور فاٹا کے آئینی حیثیت کو یکساں چشمے سے دیکھتے ہوئے سمجھ لیا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام بھی فاٹا کے عوام کی طرح قومی اسمبلی کے سامنے دھرنا دینگے تو مسئلہ حل ہوجائیگا۔ ڈاکٹر صاحب سے بھول ہوگئی اور وہ یہ بھول گئے کہ فاٹا کا مسئلہ صرف خیبرپختونخواہ کے ساتھ ہے ۔ تمام قومی جماعتوں سمیت قومی میڈیا بھی ایک طرف ہونے کے باوجود فاٹا اصلاحات بلکہ فاٹا انضمام کا معاملہ لٹک گیا ہے اس کی وجہ یہ رہی کہ جماعتوں اور میڈیا کا موقف اپنی جگہ پر لیکن ’بنیادی ذہنیت‘ میں بنیادی خرابی پائی گئی اور امکانات ہیں کہ ان کا حال بھی سرتاج عزیز کی کمیٹی کا حال ہوگا۔ فاٹا کی حیثیت اور گلگت بلتستان کی حیثیت میں آسمان زمین کا فرق موجود ہے ۔ چند سال قبل تک فاٹا کی سیاسی شخصیات نے جی بی طرزکے سٹیٹس دینے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
یہ افواہ پھیلانے والے آج تک سامنے نہیں آئے ہیں کہ گلگت بلتستان کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی سمیت کئی اور سنہرے باغات میں نمائندگی مل رہی ہے ۔ رواں سال کے جنوری میں وزیراعظم کے معاون خصوصی بیرسٹر ظفرا للہ خان صاحب سے ملاقات ہوئی تھی جس میں انہوں نے اپنی مکمل معلومات سامنے رکھتے ہوئے یہ بتایا تھا کہ گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کو مزید بااختیار بناتے ہوئے چند مالیاتی اداروں میں نمائندگی اور حصہ مقرر کرنے کی حد تک اتفاق پایا گیا ہے ۔ بیرسٹر ظفر اللہ خان وزیراعظم ہاؤس کے ہی بندے ہیں ان کی معلومات ہمارے وزراء کی معلومات سے مکمل مختلف کیوں ؟ یہ ایک جان بوجھ کر افواہ بھی ہوسکتی ہے جس نے ’سول نافرمانی ‘جیسے نعرے کو جنم دیا ہے ۔ وزیراعلیٰ کا وہ دعویٰ اب بے معنی ہوکررہ گیا ہے کہ ہم نے آئینی حقوق کے حوالے سے کوئی وعدہ یا تحریری منشور پیش نہیں کیا ؟ صورتحال کچھ عجیب سی ہی ہے ۔ کسی بھی ایک موضوع پر وزراء کا اتفاق نہیں پایا جارہا ہے سوائے نوازشریف کے تعریف کرنے کے ۔
گزشتہ روز اسمبلی میں ہونے والی مباحثے نے اس صورتحال کو مزید کھول کر رکھ دیا ہے جب وزراء ایک دوسرے پر الزامات لگاتے ہوئے یہ کہنے لگے کہ ان کی موجودگی میں اپوزیشن کی ضرورت نہیں پڑتی ۔
آئینی حقوق کے اس خواب نے نسلیں تباہ کی ہے تو حکومتوں کاپریشان ہونا کوئی عجیب بات نہیں ہے ۔ انجمن تاجران کے ہڑتال کے بعد پہلی بار جی بی کونسل کے ممبران میڈیا کے سامنے آئے مگر صورتحال کو گھمبیر ہی کرتے گئے ۔ اور موقف یہ اپنایا ہوا ہے کہ ٹیکسز ختم کرنے کے لئے کوئی تاریخ نہیں بتاسکتے ہیں۔ ممبران کونسل تاریخ تو بعد میں بتائیں گے انہیں اس بات کی فکر لاحق ہے کہ آئندہ جو وزیراعظم ہوگا اس کے ساتھ تعارف کیسے ہوگا کیونکہ موجودہ وزیراعظم کے ساتھ بھی بڑی جدوجہد کے بعد ملاقات ہوئی ۔
گلگت بلتستان میں ایسے سیاسی شخصیات زمین بوس ہوکرر ہ گئے ہیں جو علاقے کے جغرافیائی اور سیاسی مسئلے کو حقیقی انداز میں سمجھتے تھے ۔ ممبرا سمبلی نواز خان ناجی صاحب چند سال قبل تک جلسے جلوسوں کی رونق ہوا کرتا تھا اور کھل کر اپنا موقف سنانے میں کوئی ثانی نہیں رکھتا اب وہ بھی نامعلوم مقام پر منتقل ہیں۔جہاں سے کوئی خبر تک نہیں آتی ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ علاقائی صورتحال کی بنیاد پر سیاست کو پروان چڑھائی جائے ورنہ ہر سال ایسے ہڑتالیں اور جلسے جلوس ہوتے رہیں گے۔