آؤ ایسی محبت کریں، مر بھی جائے تو زندہ رہیں
محبت کیا ہے اس قضئے کو سمجھنے سے پہلے کچھ اور باتیں ہوجائیں۔ کبھی کبھی ایسا کیوں ہوتا ہے کہ انسان اتنا بے بس ہوتا ہے کہ دل چاہتا ہے کہ اپنے بند کمرے میں جی بھر کے روئے۔ بعض دفعہ نہ چاہتے ہوئے بھی نہ جانے کیوں ماضی یادوں کے اسکرین پہ ایسے پلے ہوتا ہے کہ بس آپ دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔ وقت کیسے گزرتا ہے پتہ ہی نہیں چلتا۔ یا ہم گزر جاتے ہیں وہ ٹھہر جاتا ہے۔ محسن بھوپالی نے کیا خوب کہا ہے؎
محسن ہمارے ساتھ عجب حادثہ ہوا
ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا
آج ننھی آشا کو نوڈلز اور میڈیسن کھلا کے سلانے کے بعد میں ڈائنگ ہال میں بیٹھے یوٹیوب میں غزلیں سن رہا تھا۔ میتھالی سنگھ اور بھوپندر کی پُرسوز آوازوں میں گائی گئی اس غزل نے تو رلا دیا۔ یہ غزل ہم سالانہ ساتھ سنتے تھے۔ (کس کے ساتھ سنتا تھا اس کا ذکر تھوڑی دیر بعد آئے گا۔) ویسے بھی کبھی کبھی جی بھر کے رونا چاہئیے۔ آپ اس سے ہرگز یہ مطلب نہیں نکالنا کہ میں بہت چھوٹے دل کا آدمی ہوں اس لیے مشکل وقت میں رونے کی بات کر رہا ہوں۔ ایسا نہیں ہے میرا کہنا تو یہ ہے کہ مشکل وقت سبھی پر آتا ہے بس فرق یہ ہے کہ کوئی بکھر جاتا ہے اور کوئی نکھر جاتا ہے۔ درد کے حوالے سے آج کی سائنس اور میڈیکل نے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ جب درد حد سے سوا ہو تو رونا چاہئیے اس سے آپ کا سارا کرب آنسوؤں کی صورت میں بہہ کر فضاؤں میں تحلیل ہوجاتا ہے اور آپ خود کو ہلکا فیل کرتے ہیں۔ اگر آپ اپنا درد اپنے دل میں ہی رکھ کے مضبوط ہونے کی ایکٹنگ کرتے رہیں گے تو پریشان رہیں گے۔ کہتے ہیں کہ کچھ لوگ جب روتے ہیں تو اس لیے نہیں کہ کمزور ہوتے ہیں بلکہ اس لیے کہ مضبوط رہتے رہتے تھک جاتے ہیں۔ رونا تکان کی علامت ہے کمزوری کی نہیں۔ میرے فرینڈ لسٹ میں موجود میرے ڈاکٹر دوست اس پر مزید بات کرسکتے ہیں تاکہ اس مسلے کو میڈیکلی بھی سمجھنے میں مدد مل سکے۔ اگر پھر بھی رونا آپ کو مشکل لگتا ہے تو پھر اپنا درد شئیر کرنے کی عادت ڈالے اس سے بھی آپ خود کو ہلکا محسوس کریں گے۔ یہ درد و غم کی کہانی بڑی پُرانی ہے۔ کسی دل جلے نے حد کر دی ہے۔ کہتے ہیں؎
غم کی جاگیر وراثت میں ملی ہے مجھ کو
میں اس جاگیر میں رہتا ہوں نوابوں کی طرح
یا پھر ناصر کاظمی کی ایک مشہورِ زمانہ غزل کا یہ شعر کہ؎
پی جا ایام کی تلخی کو بھی ہنس کر ناصر
غم کے سہنے میں بھی قدرت نے مزہ رکھا
درد میں رونا تو آسان ہے لیکن ہنسنا ممکن نظر نہیں آتا۔ ارے جناب! بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ بات ہو رہی تھی محبت کی۔ میری یاد داشت کمزور ہے آج غالباً یومِ محبت بھی ہے۔ لیکن میں تو اپنی محبت سے میلوں دور شہر قائد میں ہوں وہ تو پہاڑوں کی شہزادی بنی گلگت میں ہے۔ پتہ ہے میں کس کے ساتھ یہ غزل سالانہ سنتا تھا۔ وہ کوئی اور نہیں میری منکوحہ سوسن ہیں۔ سوسن سالانہ اس دن مجھ سے کافی بحث کرتی ہے۔ محبت کے حوالے سے، ماضی کے حوالے سے۔ میرا صرف ان کو یہ کہنا ہوتا ہے کہ پُرانی فائلوں کو کھنگالنے کی کیا ضرورت ہے۔ جو تھا وہ میرا ماضی تھا اب حال ہے اور حال کی حالت ہے کہ جملہ حقوق آپ کے نام منسوب ہے۔ ہاں زندگی میں بہت سارے لوگ آجاتے ہیں چلے جاتے ہیں ضروری نہیں ہر ایک سے محبت ہوجائے۔ ایک پبلک فگر ہونے کی وجہ سے اگر کچھ لوگ ہم پہ مرتے ہیں تو اس میں آپ کو اعتراض نہیں ہونا چاہئیے؟‘‘ وہ پیار بھرے غصے میں ہنستی ہے اور پتہ ہے کیا کہتی ہے ’’جو ہر کسی پہ مر جائے وہ مر ہی جائے تو اچھا ہے۔‘‘ اب ان کو کون سمجھائے کہ بقول احسان شاہ؎
میں ایک اور محبت بھی کرنے والا ہوں
کہ مجھ سے ہوتا نہیں ایک کام دیر تلک
خیر مذاق مستی میں ہم یہ دن گزارتے ہیں۔ لیکن سچ پوچھے تو آپ ماضی کو، ماضی کی یادوں کو کیسے بھلا سکتے ہیں۔ جن یادوں سے آپ کا بچپن اور آپ کی کڑیل جوانی وابستہ ہو۔ بقولِ کسے؎
یادِ ماضی عذاب ہے یارب!
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
اس غزل میں بھی تو پتے کی شاعری کی گئی ہے۔ یومِ محبت پہ ہم آپ کو کیا تحفہ دے سکتے ہیں، بس اس غزل کو سنئیے اور یادوں میں کھو جائیے؎
آؤ ایسی محبت کریں
مر بھی جائے تو زندہ رہیں
پھول کہتے ہیں ہنس کر جیو
خوشبوؤں کو لٹاتے رہو
بلبلوں کی طرح اے صنم!
پیار کے گیت گاتے رہیں
زندگی ہے وہی زندگی
جو محبت میں ڈوبی رہی
ہو نہ پائے جدا اے صنم!
آؤ ہم آج ایسے ملے
رشک کرتا رہے آسماں
ناز ہم پر کرے دو جہاں
داستانیں ہماری صنم!
محفلوں میں ہمیشہ رہیں
آو ایسی محبت کریں
مر بھی جائے تو زندہ رہیں