ثقافتچترال

کیلاش قبیلے کا چار روزہ جشن چیلم جوشٹ احتتام پذیر

چترال(گل حماد فاروقی) جنت نظیر واد ی کیلاش میں دنیا کے نہایت قدیم قبیلے کے لوگ رہتے ہیں جو اپنی محصوص ثقافت اور طرز زندگی کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ کیلاش قبیلے کے لوگ اپنی نرالی اور انوکھی رسم و رواج کی وجہ سے دنیا بھر کی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ کیلاش قبیلے کے لوگ ہر سال دو بڑے اور دو چھوٹے جشن مناتے ہیں جو ان کی مذہبی رسومات پر مبنی ہوتی ہے۔ یہ تہوار ان کی مذہبی تہوار یں بھی ہیں۔

حسب سابق امسال بھی کیلاش قبیلے کے لوگوں نے سالانہ مذہبی تہوار چیلم جوش جسے جوشی بھی کہتے ہیں نہایت جو ش و خروش سے منایا۔ اس دفعہ اس جشن کو منانے کیلئے کیلاش قبیلے کے لوگوں سے تعاون اور اس کی اشتہارات دینے کیلئے ٹورزم کارپوریشن خیبر پحتون خواہ نے مالی مدد کی تھی۔اس دفعہ چیلم جوش کی تہوار کو دیکھنے کیلئے اتنی بڑی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی سیاح آئے تھے کہ پورے وادی کے ہوٹلو ں میں رہنے کی جگہہ نہیں ملی اور اکثر لوگ حیموں میں لیٹ گئے جبکہ TCKP نے ان کو سہولت فراہم کرنے کیلئے اقدامات کئے تھے ۔

فرانس سے آئی ہوئی بابرہ نے کہاکہ وہ یہاں آکر بہت خوش ہوئی کیونکہ یہ نہایت نرالی اور محصوص ثقافت کے حامل لوگ ہیں اور یہ نہایت اچھے لوگ ہیں ہمیں چاہئے کہ ان کی اقدار اور مذہبی عقائد کی قدر کرے۔

وزیر زادہ ایک سماجی کارکن ہے جن کا تعلق کیلاش قبیلے سے ہے ان کا کہنا ہے کہ کیلاش واحد اقلیت ہے کہ یونیسکو کے لسٹ کے مطابق کیلاش واحد انڈیجنیس قوم ہے جو کئی ہزار سالوں سے اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ان وادیوں میں آباد ہیں۔

چیلم جوش کے تہوار میں کیلاش کے مرد ڈھولک بجاتے ہیں جبکہ عورتیں، مرد، لڑکے، لڑکیاں اور بچے بھی ٹولیوں کی شکل میں روایتی رقص پیش کرتے ہوئے مذہبی گیت گاتی ہیں۔ جبکہ نوجوان لڑکے بھی لڑکوں اور لڑکیوں کی کندھوں پر ہاتھ ڈالتے ہوئے وہ بھی گول دائرے میں رقص پیش کرتے ہیں۔ کیلاش لوگ صبح کے وقت مشرقی میدان میں رقص کرتی ہیں جبکہ دوپہر کے بعد ان کی خواتین ایک محصوص راستے سے گزرتے ہوئے ہاتھوں میں پھول یا اخروٹ کی ٹہنیاں پکڑ کرے ان کو ہلا ہلا کر گزرتی ہیں اور اس جگہہ جمع ہوتے ہیں جہاں یہ مذہبی رسومات کے طور پر رقص پیش کرتی ہیں ان کو چرسو بھی کہا جاتا ہے۔

سہ پہر کے بعد کیلاش قبیلے کے مذہبی رہنماء قاضی کے حکم پر مرد حضرات سب الگ ہوکر ایک کھیت میں جمع ہوتے ہیں جبکہ ان کے بعض قاضی جو مذہبی رہنماء ہوتے ہیں وہ گندم کے فصل میں دودھ چڑھکاتے ہیں تاکہ اس میں برکت پیدا ہو۔

یہ مرد ہاتھوں میں پتے اور اخروٹ کے ٹہنی پکڑ کے ان کو مسلسل ہلاتے ہیں اور محصوص آواز میں گیت بھی گاتے ہیں ایک قاضی ان کی سربراہی کرتے ہوئے ان اس راستے کی نشادندہی کراتا ہے جہاں سے ان لوگوں نے گزرنا ہو۔ تاہم اس دوران کسی مسلمان یا باہر سے آیا ہوا کیلاش بھی ان کے سامنے اس راستے پر کھڑ ا ہونے کی اجازت نہیں ہوتی جہاں سے انہوں نے گزرنا ہوتا ہے۔ یہ لوگ دھیمے دھیمے چل کر اس میدان میں جمع ہوتے ہیں جہاں پہلے سے ان کی خواتین (لڑکیاں) ان کی انتظار کرتی ہیں اور وہ بھی جواب میں ہاتھوں میں پھول، پتے پکڑ کر ان کو مسلسل ہلاکر گیت گاتی ہیں جب یہ لوگ خواتین کے باالکل سامنے پہنچ جاتے ہیں تو ہاتھوں میں پکڑے ہوئے پتے ان پر نچاور کرتے ہیں جو انتہائی محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ جواب میں عورتیں بھی ان پر وہ پتے پھینکتے ہیں۔ او ر ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر بانہوں ملاکر مشترکہ رقص پیش کرتے ہیں۔ چند لڑکیاں رنگین دھاگے سے بنی ہوئی پٹی ہاتھوں میں باندھ کر جسے دوسری لڑکی پکڑتی ہیں اور یوں ہاتھوں کی زنجیر کا لمبا قطار بن جاتا ہے جو اس میدان سے گول دائرے میں گھوم کر ناچتی ہیں جہاں دوسر ے لوگ ایک دوسرے کے کندھوں پر ہاتھ ڈال کر ناچتی رہتی ہیں۔

یہ سلسلہ شام تک جاری رہتا ہے اور شام کے بعد جن چلے اپنے چاہنے والیوں کو پکڑ کر دوسرے وادی میں بھاگتے ہیں جہاں وہ شادی کا اعلان کرتے ہیں۔ لاہور سے آئی ہوئی مس جمیلہ نے کہا کہ یہ نہایت خوبصورت لوگ ہیں مگر قدرے شرمیلے ہیں ان کی لباس اور سروں پر ٹوپیاں بہت اچھی لگتی ہیں ان کا کہنا ہے کہ جس نے کیلاش نہیں دیکھا اس نے کچھ بھی نہیں دیکھا۔ کراچی سے آئی ہوئی مس حنا ء کا کہنا ہے کہ زندگی میں کیلاش کا تہوار ایک مرتبہ ضرور دیکھنا چاہئے۔

سکھ قبیلے سے تعلق رکھنے والے سردار ولن سنگھ جو لاہور سے اس تہوار کو دیکھنے کیلئے آیا تھا اس کا کہنا ہے کہ یہاں آکر اسے بہت مزہ آیا۔ شانگلہ سے آیا ہوا عباد اللہ کا کہنا ہے کہ اگر کیلاش وادیوں کی سڑکوں کو بہتر بنائے تو مزید سیاح یہاں آئیں گے اور ان سیاحوں کی آمد سے ان غریب لوگوں کی بھی معاشی حالت بہتر ہوگی۔

سید گل کیلاش جو پہلی کیلاش ماہر آثار قدیمہ خاتون ہے ان کا کہنا ہے کہ وہ تین ہزار سالوں سے یہ رسم مناتے چلے آرہے ہیں اور کیلاش لوگ نہایت پر امن لوگ ہیں جو نیچر یعنی قدرتی حسن کو بہت پسند کرتے ہیں اور تھوڑے پر بھی گزارہ کرتے ہیں ان کی ان محصوص ثقافت اور رسم و رواج کو دیکھنے کیلئے دنیا بھر سے سیاح ان وادیوں میں آتے ہیں جس سے ملک کی معیشت پر مثبت اثرات پڑتے ہیں تاہم مقامی لوگوں کو مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے تاہم وہ پر امید ہے کہ آنے والی حکومت ان کیلئے کچھ کرے گی۔

شمائلہ ایک ماہر نفسیات ہے جو ملتا ن سے اس تہوار کو دیکھنے کیلئے آئی ہوئی ہے ان کا کہنا ہے کہ وہ پہلی بار چترال اور وادی کیلاش آئی ہے یہاں آکر اسے بہت مزہ آیا اور یہ لوگ نہایت ملنسار ہیں جو سب سے ہنس کر ملتے ہیں۔

جرمنی سے آیا ہو ا ایک سیاح اینگلو کا کہنا ہے کہ یہ بہت خوبصورت جگہہ ہے اور نہایت پرامن بھی۔ ان کا کہنا ہے کہ میں دنیا بھر کے سیاحوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ ضرور یہاں آئے اور اس پر امن ناحول اور قدرتی حسن سے لطف اندوز ہوجائے۔

کیلاش قبیلے سے تعلق رکھنے والے قانون دان نابیگ ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ حکومتی ادارے ہمارے نام پر فنڈ تو لیتا ہے مگر ہمیں کچھ بھی نہیں ملتا ۔ ہمارا جو بنیادی رقص گاہ ہے اسے بھی ایک غیر سرکاری ادارے اے وی ڈی پی نے بنا یا ہے تو پھر سرکار کیا کرتی ہے۔اس نے کہا کہ ہم خود کو محفوظ کرتے ہیں اور اپنی ثقافت کو بچاتے ہیں مگر حکومت کی طرف سے ان کے ساتھ کوئی حاطر خواہ مدد نہیں ہوتا۔

چیلم جوش کا تہوار وادی رمبور سے شروع ہو ا تھا اور بمبوریت سے ہوتے ہوئے وادی بریر میں حتم ہوا۔جسے دیکھنے کیلئے کثیر تعداد می سیاح آئے تھے جن میں بڑی تعداد غیر ملکی سیاحوں کا بھی تھا۔ضلعی انتظامیہ نے کیلاش لوگوں کو ون ڈش یعنی چاول مفت میں فراہم کی جو رقص کرنے والے مرد و خواتین کھاکر چلے جاتے

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button