کالمز

فکرونظر: بارش کی بوندیں، آنسو کے قطرے اور عیدالفطر

عبدالکریم کریمی

پندرہ جون کی جھلستی دوپہر، ڈھلتی شام اور برستی رات کا میں عینی شاہد ہوں۔ مجھے اس لیے بھی اس کا ایک ایک لمحہ یاد ہے کہ دوسرے دن مجھے بوبر میں عید کے عظیم الشان اجتماع کی پیش امامت کرنی تھی اور عید خطبہ دینا تھا۔ اس لیے پوری رات اسلامی کتابوں کے مطالعے اور خطبے کی تیاری میں گزری۔ یہ غالباً رات کا پچھلا پہر تھا کہ آسمان خوب برسا تھا۔ میں آدھی رات تک جاگتا رہا تھا پھر نہ جانے کب نیند کی آغوش میں چلا گیا۔ صبح جلد ہی میری آنکھیں کھلی تھیں۔ نمازِ فجر سے فراغت کے بعد میں گاہکوچ سے بوبر عیدگاہ کی طرف نکالا تھا، رات کی بارش کی وجہ سے صبح کی خنکی میں خاصا اضافہ ہوا تھا جبکہ بارش کی ایک آدھ بوندیں گاڑی کی ونڈ اسکریں پر گر کر جہاں گزشتہ رات کی بارش کی تھکی تھکی یاد دلا رہی تھیں وہاں مٹی کی سوندھی سوندھی مہک بھی عجیب سرشاری طاری کر رہی تھی۔ نور و سرور کی کیفیت میں ڈوبا اور دل میں ارمانوں کا ایک ہجوم لیے میں اجتماع میں داخل ہوا تھا۔ عید کی دو رکعت نماز کی فراغت کے بعد مجھے روزے کے فلسفے پہ بولنا تھا، صوم کا پس منظر پیش کرنا تھا اور ہاں تقویٰ پہ بات کرنی تھی۔

انسانی تہذیب کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ترکِ طعام یا روزہ اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسانی تہذیب۔ انسان نے جب سے پتھر کے دور سے نکل کر انسانی تہذیب و تمدن میں قدم رکھا اور جب سے تاریخ نے اس کے لیل و نہار کا شمار کیا اسی وقت سے وہ روزے کو اہم جاننے لگا تھا۔ تذکیۂ نفس یا بالیدگیِ روح کے لیے انسان نے ایسی عبادات کا سہارا ازل سے لیا ہے۔ ’’ریگ وید‘‘، ’’پری بدسٹ انڈیا‘‘، ’’رالسن انڈیا‘‘، ’’سمبتھ انشنٹ انڈیا‘‘، ’’متی‘‘، ’’دانیال‘‘ اور ’’جیوش انسائیکلوپیڈیا‘‘ کا مطالعہ ہمیں ان مختلف ادیان اور اقوام میں روزے کے فلسفے کے بارے میں بتاتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط ہے کہ روزے کا تعلق صرف اسلام سے ہے بلکہ اسلام سے پہلے کے ادیان میں بھی لوگ اپنی روحانی بلندی کے لیے ایسی عبادات کا سہارا لیتے رہے ہیں۔ دین اسلام یا قرآن پاک نے اس تصور کو صوم کا نام دیا۔ صوم کو فارسی اور اردو زبان میں روزہ کہا جاتا ہے روزہ ایک فارسی لفظ ہے اور ڈاکٹر عزیز اللہ نجیب کے مطابق جس کا قرآن کریم میں ملنا ممکن نہیں۔ قرآن میں اس کے لیے صوم اور اس کے اشتقاقات مثلاً صیام وغیرہ استعمال ہوئے ہیں۔ اس لیے ہمیں عربی زبان کے لفظِ صوم کے لغوی معنی کو دیکھنا پڑے گا۔ صاحبِ مفردات امام راغبؒ فرماتے ہیں:

’’صوم کے اصل معنی کسی کام کے رک جانے کے ہیں۔ خواہ اس کا تعلق کھانے پینے سے ہو یا گفتگو کرنے اور چلنے پھرنے سے۔ اس بنا پر گھوڑا چلنے یا چارہ کھانے سے رک جائے تو اسے صائم کہا جاتا ہے۔ تھمی ہوئی ہوا اور دوپہر کے وقت کو بھی صوم کہتے ہیں۔ اس تصور کے ساتھ کہ اس وقت سورج وسط آسمان پر رک جاتا ہے۔‘‘

قرآن کریم میں حضرت مریم کے روزے کا ذکر ہے جو خاموش رہنے کا روزہ تھا۔ قرآن کریم میں صوم کا مقصد ’’لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن تاکہ تم تقویٰ حاصل کرو‘‘ بتایا گیا ہے یہاں لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ تقویٰ کیا ہے؟ اس بارے میں مولانا کوثر نیازی اپنی کتاب ’’اسلام ہمارا دین‘‘ میں ایک خوبصورت واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ تقویٰ کی بہترین تشریح صحابی رسولؐ حضرت ابی بن کعبؓ نے فرمائی ہے۔ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروقؓ نے ان سے سوال کیا کہ ’’تقویٰ کسے کہتے ہیں؟‘‘ انہوں نے کہا ’’کیا آپ کبھی ایسے راستے سے گزرے ہیں جس کے دونوں طرف خاردار جھاڑیاں ہوں؟‘‘ حضرت عمرؓ نے جواب دیا ’’ہاں‘‘۔۔۔۔۔۔ پوچھا ’’آپ اس طرح کا راستہ کس طرح طے کرتے ہیں؟‘‘ حضرت عمرؓ نے کہا کہ میں اپنے کپڑوں کو دونوں ہاتھوں سے سمیٹ لیتا ہوں کہیں وہ جھاڑیوں میں اُلجھ نہ جائیں۔‘‘ حضرت ابیؓ نے فرمایا ’’بس یہی تقویٰ ہے۔‘‘

دیکھا جائے تو یہ مثال دُنیا کی اس زندگی پر بڑی اچھی طرح صادق آتی ہے دنیا میں یہ گزر گاہ بھی دو رویہ خواہشات اور تحریصات کی خاردار جھاڑیوں سے اٹی پڑی ہے۔ اس میں بے احتیاطی سے چلا جائے تو دامنِ حیات قدم قدم پر ان میں اٹکتا اور آخرکار تار تار ہوجاتا ہے۔ متقی وہ ہے جو اس راستے پر پھونک پھونک کر قدم رکھے اور اپنے دامن کو گناہ کے کانٹوں سے بچاتا ہوا منزلِ مقصود پر پہنچ جائے۔ وہ کبائر ہی پر احتراز نہ کرے صغائر سے بھی کنارہ کش ہوجائے۔ بقول حضرت امام ابنِ قیمؒ ’’وہ یہ نہ دیکھے کہ گناہ کتنا چھوٹا ہے یہ غور کرنے کا خوگر ہوجائے کہ جس کی نافرمانی کی جا رہی ہے وہ کتنا بڑا ہے۔‘‘

مولانا کوثر نیازی ایک خوبصورت مثال سے اس فلسے کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ روزہ کی حالت میں کھانے پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے جھوٹ، گالی، غیبت وغیرہ سے نہیں ٹوٹتا لیکن اس کی مثال یوں ہے جیسے ایک انڈہ ہے کہ وہ گر کر ٹوٹ جاتا ہے اور دوسرا ہے کہ بظاہر تو ثابت لگتا ہے لیکن اندر سے خراب ہوکر ضائع ہو جاتا ہے۔ روزے کے ممنوعات کی بھی یہی صورت ہے کچھ ممنوعات تو ظاہر ہیں۔ ان کا ارتکاب کیا جائے تو ہر شخص جان لیتا ہے کہ روزہ ٹوٹ گیا مگر کچھ ممنوعات باطنی اور روحانی ہیں ان سے بظاہر روزہ ٹوٹتا نہیں۔ اندر ہی اندر خراب ہوکر اپنی معنویت کے اعتبار سے گندے انڈے کی طرح بیکار ہو جاتا ہے۔

حضرت امام مستنصر باللہ علیہ السلام ’’پیر پندیات جوان مردی‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’تم سال بھر روزہ دار رہا کرو۔ روزہ سے ریاضت مراد ہے۔ پس اپنے آپ کی نگرانی کرتے رہو، اپنے آپ کو بری صفات، برے افعال، نازیبا حرکات اور شیطانیت سے بچائے رکھو تاکہ رفتہ رفتہ آئینہ دل پاک و صاف کر سکو۔‘‘

ڈاکٹر عزیز اللہ نجیب اپنی کتاب ’’کتاب المعارف‘‘ مین لکھتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ صوم حصولِ تقویٰ کے متعدد طریقوں میں سے ایک ہے۔ اگر تقویٰ نہ ہو تو بندے کا صوم اس حدیث کا مصداق بن جاتا ہے۔

جس میں نبی کریمؐ نے فرمایا:

’’بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جن کو ان کے روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ نہیں ملتا۔‘‘

اس حقیقت کی ترجمانی میرے دوست محترم جمشید خان دکھی نے ہوں کی ہے؎

تھے لوگ بھوک پیاس سے بے حال شہر میں

لیکن نظر نہ آیا کوئی روزہ دار دیکھ

’’پندیات جوان مردی‘‘ میں ارشاد ہے:

’’باطنی روزے کی تفصیل یہ ہے کہ سر کا روزہ یہ ہے کہ اپنے سر کو لوگوں کا پاؤں شمار کرنا اور اپنے سر سے سرداری، بڑائی اور تکبر کی خواہش نکال دینی ہے کیونکہ سرداری اور بڑائی اللہ کی ذاتِ کبریا کے شایانِ شان ہے۔ آنکھ کا روزہ یہ ہے کہ بیگانہ عورتوں کی طرف بد نظری نہ کی جائے۔ کان کا روزہ یہ ہے کہ کان کو غیبت سننے سے محفوظ رکھا جائے۔ زبان کا روزہ یہ ہے کہ زبان کو فحش اور غیبت سے روکا جائے۔ دل کا روزہ یہ ہے کہ دل کو شکوک و شبہات سے بچا لیا جائے۔ پاؤں کا روزہ یہ ہے کہ پاؤں کو ناجائز جگہ جانے سے روک لیا جائے اور ہاتھ کا روزہ یہ ہے کہ اس کو خیانت سے باز رکھا جائے۔ مومن اپنے تمام اعضا کو روزے میں رکھے تاکہ ظالم نہ ہو۔‘‘

’’مذاق العارفین‘‘ میں امام غزالیؒ تین درجوں کے روزوں کا ذکر کرتے ہیں:

’’جاننا چاہئیے کہ روزے کے تین درجے ہیں، ایک روزہ عوام کا ہے ایک خاص کا اور ایک اخص خواص کا۔ عوام کا روزہ تو یہ ہے کہ پیٹ اور جسم کو اس کی خواہش ادا کرنے سے روکا جائے۔ خواص کا روزہ یہ ہے کہ ان کی کان، زبان، ہاتھ، پاؤں اور تمام اعضا کو گناہ سے روکا جائے اور اخص خواص کا روزہ اس طرح ہے کہ دل کو بری صحبتوں اور دنیاوی فکروں سے روزہ رکھایا جائے اور سوائے خواوند تعالیٰ کے اور چیزوں سے اسے مطلقاً روکا جائے۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تَخْلَقُوْ بِاَخْلَاقِ اللہِ یعنی اللہ کے اخلاق کو اپناؤ۔ (بخاری شریف) یعنی دین، الٰہی اخلاق کو اپنانے کی اور خدا کے رنگ میں رنگنے کی ترغیب دیتا ہے۔ صِبْغَۃَ اللہِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ صِبْغَۃ۔ یعنی رنگ تو اللہ کا ہے اور اللہ سے بہتر کس کا رنگ ہے۔ (البقرہ آیت ایک سو اڑتیس)

’’مثنوی مولانا روم‘‘ میں مولانا رومیؒ ایک جگہ مصوری کے مقابلے کا ذکر کرتے ہیں جس میں چین اور روم کے مصور حصہ لیتے ہیں۔ دونوں مصوروں کو ایک جگہ لے جایا جاتا ہے، جہاں چاروں طرف پہاڑ، جرنیں اور درخت ہوتے ہیں۔ دونوں مصوروں کو ایک ایک گھر دیا جاتا ہے اور ان کو در و دیوار پر مصوری کرنے کو کہا جاتا ہے تاکہ تقابلی جائزہ کے بعد جس کی مصوری بہترین ہو وہ فاتح قرار پائے۔ چینی مصور خوبصورت رنگوں سے تصویر بنانا شروع کر دیتا ہے جبکہ رومی دیوار کو تراشنا اور ہموار کرنا شروع کر دیتا ہے اور اتنا تراشتا ہے کہ وہ آئینہ نما بن جاتا ہے جس میں کسی بھی چیز کا عکس حقیقی چیز سے بھی بہتر انداز میں نظر آتا ہے۔ جب بادشاہ جائزہ لیتا ہے تو چینی مصوری خوبصورت رنگوں اور نقش و نگار سے بہت ہی دلکش و خوبصورت معلوم ہوتی ہے لیکن رومی مصوری لاجواب نظر آتی ہے کیونکہ چاروں طرف کی خوبصورتی اور دلکشی یعنی چاروں طرف کے پہاڑ، جرنیں اور درخت اپنی حقیقی خوبصورتی کے ساتھ رومی مصوری میں جھلکنے لگتے ہیں وہ گھر قدرت کا شاہکار معلوم ہوتا ہے اور اس طرح رومی مصور فاتح قرار پاتا ہے۔

اس مثال کو اگر ہم ذکر صفات کے پہلو سے دیکھیں کہ جب ہم اللہ کے صفاتی نام کا ذکر کریں تو وہ ذکرِ جلی کے ساتھ ساتھ ذکرِ اعمالی و فعلی بھی ہو یعنی ہم پہلے اپنے دل کی زمین کو ہموار و آئینہ نما کریں جس میں محبوب کی صورت نظر آئے یعنی جب ہم اللہ اکبر (اللہ بڑا ہے) کہتے ہیں، یا اللہ الصمد (اللہ بے نیاز ہے) کہتے ہیں، یا وہاب (اللہ دینے والا) کہتے ہیں، یا رحیم یا کریم (اللہ رحیم ہے کریم ہے) کہتے ہیں تو ہم میں بھی یہ صفات جھلکنی چاہئیں۔ ہم میں بھی دوسروں کو معاف کرنے کی جرات ہونی چاہئیے، ہمیں بھی دوسروں کی کوتاہیوں سے بے نیاز ہونے کی خواہش ہونی چاہئیے، اپنی تعلیم، قابلیت، وقت اور وسائل کی نعمتوں کو دوسروں کو دینے والا، دوسروں کے درد کو سمجھنے والا، پیار و محبت اور دوسروں کی بھلائی چاہنے والا ہونا چاہئیے۔ پس خدائی صفات کو اوڑھنا، پہننا ہی صِبْغَۃَ اللہِ کو اپنانا ہے۔ یہی اسلام کی تعلیمات ہیں۔ لیکن بصد افسوس کہ ہم روایات کے معتقد امت ان چیزوں سے کوسوں دور ہیں۔

کچھ دن پہلے ایک مختصر افسانہ پڑھا تھا جس میں لکھا گیا تھا کہ ’’انیٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والا عیسائی مزدور بے چارگی سے اپنی بیوی سے کہنے لگا دیکھ پریشان مت ہو مسلمانوں کا یہ مقدس مہینہ گزر جانے دے ساری چیزیں پھر سے سستی ہوجائیں گی۔‘‘

چائینہ کے ایک تاجر نے اخبار میں بیان دیا تھا کہ ’’مسلمان تاجر میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے مال پر مشہور انٹرنیشنل کمپنیوں کے جعلی لیبل اور برانڈ کے نام لکھ دے۔ جب میں ان کو کھانے کی دعوت دیتا ہوں تو وہ انکار کر دیتے ہیں کیونکہ کھانا حلال نہیں ہوتا۔ کیا جعلی سامان بھیجنا ان کے لیے حلال ہوتا ہے؟‘‘

یہ وہ سوال ہے جو ہمارے اجتماعی ضمیر کو جھنجوڑ کے رکھ دیتا ہے۔ حضرت اقبالؒ نے خوب نے کہا تھا؎

رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل، وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے

اس کی وجہ کیا ہوسکتی ہے کہ ہم نے اپنے وعظ اور خطبوں میں یہ تو کہا کہ مسواک کا استعمال سنت ہے، کھجور کھانا سنت ہے، شلوار کو ٹخنوں سے اوپر رکھنا سنت ہے۔ لیکن معذرت کے ساتھ یہ نہیں کہا کہ سچ بولنا سنت ہے، صبر کرنا سنت ہے، کسی کی غیبت نہ کرنا سنت ہے، ملاوٹ نہ کرنا سنت ہے، اپنی ڈیوٹی صحیح طریقے سے ادا کرنا سنت ہے، کسی کی مدد کرنا سنت ہے۔ ہم سنت کی بات تو اس ہستی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کر رہے ہیں لیکن یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ وہ صادق اور امین بھی تھے۔ وہ رحمت اللعالمین بھی تھے۔ اس لیے ہم روایات میں تو بہت آگے گئے لیکن معاملات میں بے حسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ کسی صحابی نے مولا علیؑ سے کسی کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ ’’مولا یہ بندہ بہت اچھے ہیں اور صوم و صلواۃ کا پابند ہے۔‘‘ مولا علیؑ نے ان کی بات کاٹتے ہوئے فرمایا کہ ’’صوم و صلواۃ کو رہنے دو یہ معاملات میں کیسا ہے؟‘‘

صوم و صلواۃ ہماری ذاتی عبادت ہے اس کا فائدہ ہماری روح کو ہے۔ لیکن معاشرے میں انسان بن کے رہنے کے لیے معاملات کا اچھا ہونا ضروری ہے۔ جمشید دکھی نے بڑے پتے کی بات کی ہے؎

روزہ، نماز، حج تو خدا کے حقوق ہیں
خدمت میں آدمی کی ہماری نجات ہے

اس خدمت اور اچھائی کا آغاز ہمیں اپنی ذات سے کرنا ہوگا اپنے خاندان سے کرنا ہوگا ہمیں خود رول ماڈل بننا ہوگا تاکہ ہمارے بچے ہماری گفتار سے زیادہ ہمارے کردار سے متاثر ہوں۔ ورنہ اگر ہم خود سیگریٹ پیتے ہیں اور بچے کو کہتے ہیں بیٹا یہ صحت کے لیے ٹھیک نہیں تو یہ بے تکی بات ہوگی۔ ہم خود نماز پڑھتے ہیں تو بچے کو نماز کا کہہ سکتے ہیں۔ ہرجگہ بد اعنوانی سے انکار لکھنے سے بدعنوانی ختم نہیں ہوگی بلکہ اس کے لیے عملی طور پر ہمیں اپنی ذات سے بدعنوانی کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ اس رمضان میں مجھے اپنی بچی کے علاج کے سلسلے میں کراچی کی اڑتالیس ڈگری سیںٹی گریٹ کی گرمی میں روزہ کا سامنا ہوا۔ تو احساس ہوا کہ روزہ کتنا مشکل ہے۔ میں جب روزے میں ہوتا اور بیٹی کو شوربہ یا کھانا کھلاتا تو ان کا اصرار ہوتا ’’بابا تم کیوں نہیں کھا رہے۔ تم ناراض ہو؟‘‘ اب اس ننھی سی جان کو کیسے سمجھاتا۔ میں کہتا ’’بیٹا رمضان میں بڑے روزے رکھتے ہیں کہ اس سے ان میں بہتری آتی ہے۔ غصہ ختم ہوتا ہے۔ جھوٹ نہیں بولا جاتا۔‘‘ پھر جب کبھی اس کی شرارتوں پہ غصہ ہوتا تو یکدم سوال کرتی ’’بابا! آپ تو کہتے تھے کہ روزہ رکھنے سے غصہ ختم ہو جاتا ہے پھر آپ نے مجھے کیوں ڈانٹا؟‘‘ جب کبھی میں ان سے وعدے کے باوجود ان کو آئیس کریم لانا بھول جاتا تو پھر معصوم سوالوں کی بوچھاڑ ہوتی کہ ’’بابا آپ تو کہتے تھے کہ روزے میں جھوٹ نہیں بولا جاتا پھر آپ نے جھوٹ کیوں بولا کہاں ہے میری آئیس کریم؟‘‘ ہم اپنے مردہ ضمیر کو بھی مطمئین کرسکتے ہیں لیکن اپنی اولاد کے سوالوں کا جواب دینے کے لیے ہمیں خود رول ماڈل ہونا پڑے گا۔ ہم تو اس نبی کریمؐ کے امتی ہیں۔ جس کے پاس ایک خاتون آکے سوال کرتی ہے کہ یا محمدؐ! میرا بچہ کھجور زیادہ کھاتا ہے جس کی وجہ سے بیمار رہتا ہے۔ آپ ان کو نصیحت کرے۔ رسول کریمؐ فرماتے ہیں کہ آپ انہیں کل میرے پاس لائے۔ وہ خاتون دوسرے دن دوبارہ حاضر ہوتی ہے اور وہی سوال دھراتی ہے جس پر رسول کریمؐ اس کے بچے کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کے فرماتے ہیں کہ بیٹا کھجور کم کھایا کرے۔ اور اتنا کہہ کے انہیں رخصت کر دیتے ہیں۔ وہ خاتون حیران ہوتی ہے۔ یا رسول اللہؐ یہ بات آپ کل بھی کہہ سکتے تھے اتنی سی بات پہ آج بلانا سمجھ سے باہر ہے۔ رسول کریمؐ فرماتے ہیں کہ کل تک میں خود بھی کھجور زیادہ کھاتا تھا کل سے میں نے بھی کھجور کھانا کم کر دیا ہے اس لیے آج بلانا پڑا کیونکہ میں ہر کام کا آغاز اپنی ذات سے کرتا ہوں۔‘‘ سبحان اللہ!

یہی وہ زندہ تعلیمات ہیں جو ہمارے لیے زادِ راہ کا درجہ رکھتی ہیں۔

انہی خیالات کو خطبے کا رنگ دے کر میں عید الفطر کے اس روح پرور اجتماع سے مخاتب تھا۔ میری نظر جب میری گھڑی کا طواف کرنے لگی تو میں حیران تھا پورا ایک گھنٹہ گزر چکا تھا۔ لیکن اجتماع انہماک سے سن رہا تھا۔ مجھے فارسی شاعر کا یہ شعر یاد آرہا تھا؎

مستمع گر طالب و جوئیندہ شد
واعظ ار مردہ بود جوئندہ شد

یعنی سننے والوں میں تجسس کی روح موجود ہو تو واعظ مردہ بھی کیوں نہ ہو وہ خطابت کا حق ادا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

دعا و سلام اور عید ملن کے بعد میں کچھ مقامی لیڈرز کے ساتھ باہر آرہا تھا تو پنڈال کے مین گیٹ پہ ایک بزرگ کے ہاتھ میں اپنے چپل دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی۔ میں نے تیزی سے آگے بڑھ کے ان کے ہاتھ سے اپنی چپل لے لی، اور کہا ’’میں گناہگار انسان ہوں آپ مجھے مزید گناہگار بنا رہے ہیں۔ آپ میرے والد کی عمر کے ہیں۔ مجھے آپ کے جوتے لاکے آپ کو پہنانا چاہئیے۔‘‘

وہ میری چپل میرے سامنے رکھ کے مجھ سے بغلگیر ہوا تھا۔ ’’واعظ صاحب! اللہ ہر ایک کو آپ جیسی اولاد سے نوازے۔ آج آپ نے دل کی بات کی۔‘‘ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور میری نظریں ان کی پُرنم آنکھوں پر پڑیں۔میں جذباتی انسان ہوں میرے آنسو کہاں رکنے والے تھے۔ لیکن احسان مند ہوں بارش کے بوندوں کا کہ انہوں نے میرے آنسو کے قطروں کو راز میں رکھا تھا۔

کسی شاعر نے کہا ہے ’’مجھے بارش اس لیے بھی پسند ہے کہ یہ میرا غم چھپاتی ہے۔ میرے آنسو بارش میں لوگوں کو نظر نہیں آتے۔‘‘ لیکن یہاں میرے آنسو غم کے نہیں تشکر اور محبت کے آنسو تھے۔ اللہ کرے تمام مسلمان محبت و تشکر کے آنسوؤں سے اپنی روحانی بالیدگی کا سامان کرے۔ آمین!

نوٹ: دوران نماز اور خطابت کسی قدر دان نے یہ تصویریں کھینچی ہیں۔ ورنہ تو میں نے سینکڑوں اجتماعات سے خطاب کیا ہے۔ ان میں سے خال خال ہی میرے پاس کچھ تصویریں موجود ہیں۔ اس قدردان کے تشکر کے ساتھ یہ تصویریں بھی آپ کی نذر ہیں۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button