فکرونظر: دُھوپ کی روپہلی کرنیں اور ہرگسہ نالے کی ہوائیں
عبدالکریم کریمی
آج صبح آنکھیں ابھی صحیح طرح سے کھلی بھی نہیں تھیں۔ مشہ بروم ہوٹل کے ایک روم میں پلنگ پر دراز تھا۔ تکان سے بدن ٹوٹ رہا تھا۔ پھر صبح کی نیند۔ بڑی مشکل سے کھڑکی کے پردے سرکا سکا تھا۔ کھڑکی کھولی۔ دُھوپ کی روپہلی کرنوں کی ہلکی تپش اور ہرگسہ نالے کی ہوائیں میرے لب و رخسار کا بوسہ لے رہی تھیں۔ انگڑائیاں لیتے ہوئے گیلیری میں آکے ہرگسہ نالہ اور آس پاس کے دیہات کا نظارہ کر رہا تھا۔ موبائل کی رینگ نے مجھے واپس روم کی طرف دھکیل دیا۔ فون پر پروفیسر حشمت علی کمال الہامی صاحب تھے۔ انہوں نے فرمایا ’’ہم آپ کے پاس آرہے ہیں آپ اٹھے ہیں یا نہیں؟‘‘ میں عرض کی کہ ’’میں ابھی اٹھا ہوں آپ کہاں ہیں۔‘‘ انہوں نے فرمایا ’’ہم ڈگری کالج میں ہیں تھوڑی دیر میں آپ کے پاس آجائیں گے۔‘‘ میں نے شرارتاً کہا کہ ’’پروفیسر صاحب ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کالج میں کیوں؟ اب تو آرام کیجئیے گا۔‘‘ انہوں نے برجستہ اپنا یہ شعر سنایا؎
چین سے رہنے نہیں دیتے ہیں لوگ
یہ ستم ہوتا ہے دلداروں کے ساتھ
تھوڑی دیر بعد پروفیسر صاحب اور بشارت ساقی صاحب تشریف لائے۔ مشہ بروم ہوٹل کے ہال میں کافی گپ شپ رہی۔ ادب اور ادبِ عالیہ پہ بات ہوئی۔ پروفیسر صاحب نے حسرت صاحب کو بھی فون کرکے میری آمد کا بتایا۔ حسرت صاحب کسی سیمینار میں تھے انہوں نے تھوڑی دیر بعد آنے کا کہہ کر فون بند کیا۔ ہم ہوٹل سے نکلے کچھ دیر گھوم گھام کے انڈس ہوٹل پہنچے۔ لنچ کا وقت تھا۔ بشارت ساقی صاحب نے لنچ کروایا۔ کھانے کے بعد بل دیتے وقت ساقی صاحب نے شرارتاً پروفیسر صاحب کو کہا کہ ’’برکت جو۔‘‘ یعنی کھانے کا شکریہ۔ پروفیسر صاحب نے کہا ’’نہیں جو! یہ کھانا میری طرف سے نہیں میں کل یا پرسوں باضابطہ دعوت کا اہتمام کر رہا ہوں۔ مہربانی کرکے برکت اپنے پاس ہی رکھ لے اور بل ادا کرے۔‘‘ ہمارے قہقہے بلند ہوئے۔ اتنے میں حسرت صاحب نے بھی ہمیں جوائن کیا۔ پھر کافی طویل نشست رہی۔ چائے کا دَور چلا۔ ادب، ادیب، ادبے رویے، ادبی سرگرمیاں سب پہ بات ہوئی۔ کیونکہ یہ پانچ سالوں بعد سکردو کا میرا دورہ تھا۔ پُرانے دوستوں سے ملاقات نے دلی تسکین دی۔
بشارت ساقی صاحب نے کہا کہ قہوہ کے لیے پی ٹی ڈی سی ہوٹل چلتے ہیں۔ میں نے معذرت کی میرے پاس تین بجے ڈاکٹر مظفر حسین انجم صاحب آنے والے تھے۔ اس لیے میں نے احباب سے اجازت لی اور مشہ بروم پہنچا۔ ڈاکٹر صاحب پہلے سے ہی پہنچ کر میرا انتظار کر رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب سے بڑی دلچسپ نشست رہی۔ اس کی تفصیل پھر کبھی۔