خبریںسیاست

حکومتی اور اپوزیشن ممبران نے مجوزہ آرڈر 2020 کو مسترد کر دیا

اسلام آباد ( محمد علی عالم ) مجوزہ آرڈر 2020 ہمیں منظور نہیں ہے سرتاج عزیز کمیٹی یا سپریم کورٹ فیصلے پر عملدرآمد کیا جائے ورنہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کریں گے.

ان خیالات کا اظہار گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے سپیکر حاجی فدا محمد ناشاد، اپوزیشن لیڈر کپٹین شفیع، صوبائی وزیر ڈاکٹر محمد اقبال، رکن اسمبلی کاچو امتیاز حیدر، کپٹین ر سکندر علی اور جاوید حسین نے اسلام آباد پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا.

انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کو ستر سالوں سے آرڈرز اور پیکیجز کے زریعے چلایا جا رہا ہے اور اسکو ہر سال نیا نام دیا جاتا ہے . اس وقت آرڈر 2020 نافذ کرنے کی تیاری کیا جا رہا ہے. ہم نہ آئین پاکستان کا حصہ ہے نہ ہی اس علاقے کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور قراردادوں کے مطابق متنازعہ خطے کے مراعات اور حقوق دئیے گئے ہیں. ہم پاکستان میں رہتے ہوئے بھی فیصلے ساز اداروں اور آئینی و مالیاتی اداروں میں نمائندگی سے محروم ہیں جو کہ بین الاقوامی قوانین اور آئین پاکستان کی رو سے بنیادی انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی ہے. یوں ہم قربانی کا بکرا بنتے ہوئے آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں 1947 میں تھا ہر آنے والے حکومت کے سامنے یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ یہ مسئلہ کم حل ہو گا اور علاقے کی عوام گومگو کی حالت میں بے بس زندگی گزارتے رہیں گے؟ تو آگے سے ہمدردی کا اظہار کیا جاتا ہے تسلیاں دی جاتی ہے کمیٹیاں بنتی ہے سفارشات مرتب ہوتی ہے مگر پھر کبھی مسئلہ کشمیر اور کبھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کا بہانہ بنا کر اس علاقے کو حقوق سے محروم کر دیا جاتا ہے. قومی اسمبلی، سینٹ اور وفاقی کابینہ میں نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے گلگت بلتستان اور وفاق میں بننے والی حکومتوں کے درمیان ہمیشہ سے ایک خلا رہا ہے اب یہ خلا تشویشناک حد تک بڑھ چکا ہے جبکہ دوسری طرف عوام بلخصوص نوجوان نسل کے اندر حقوق کے لئے آگاہی رکھنے کی وجہ سے احساس محرومی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے جس کا اظہار سوشل میڈیا پر حل کر کیا جا رہا ہے اور ہمارا دشمن اس کا فائدہ اٹھا کر بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر سازشیں کر کے بدامنی اور نوجوان نسل کے اندر پاکستان کے خلاف جذبات ابھارنے کی کوشش کر رہا ہے جو کہ کسی بھی وقت پاکستان اور اسکے مستقبل کے لئے اچھا شگون نہیں ہے عوام کے اندر حقوق نہ ہونے کی وجہ سے شدید غم و غصّہ پایا جاتا ہے اور خطرناک قسم کا لاوا پک رہا ہے جو کسی بھی وقت کسی بھی شکل میں پھٹ سکتا ہے.

انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے نزدیک اس مسئلے کا دو ہی حل ہے اول یہ کہ گزشتہ دور حکومت میں سرتاج عزیز کی سربراہی میں بننے والی کمیٹی کی سفارشات کو فوری طور پر من و عن نافذ کیا جائے یا دوسرا یہ کہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور قراردادوں کے مطابق اس علاقے کی متنازعہ حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے فوری طور پر تمام سہولیات اور مراعات دی جائے جو کسی متنازعہ علاقے کو حاصل ہے ان دنوں قسم کے حقوق پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے 19 جنوری 2019 کو اپنے فیصلے میں مہر بھی ثبت کر دی ہے اور پاکستانی حکمرانوں کو پابند کیا ہے کہ وہ اس علاقے کی عوام کو فوری طور پر یہ حقوق دے دیں.

اگر اس مسئلے کی طرف فوری توجہ نہ دے کر حل کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو ہمارے پاس ایک ہی آپشن بچھتا ہے وہ یہ کہ ہم عوام کے پاس چلے جائیں اور عوامی طاقت سے اس مسئلے کو حل کرنے کی بھر پور کوشش کریں گے جس کے لئے ہم نے مرحلہ وار لائحہ عمل ترتیب دیا ہوا ہے جس کے تحت پہلے مرحلے میں پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں ہر اتوار کو پریس کلبوں کے سامنے سنگل پوائنٹ ایجنڈہ یعنی آئینی حقوق کے اوپر مظاہرے کیے جائیں اس کے علاؤہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد نہ کرنے کے خلاف توہینِ عدالت کا کیس دائر کیا جائے گا اور آخری حربے کے طور پر اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا جائے گا۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button