چترال میں 106 میگا واٹ بجلی کا منصوبہ تو موجود ہے، لیکن بجلی ندارد، عوام کی زندگی اجیرن، کاروبارٹھپ
چترال(گل حماد فاروقی) چترال میں بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے نہ صرف گھریلوں صارفین تنگ آچکے ہیں بلکہ کاروباری طبقہ بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ باوجودیکہ چترال میں گولین کے مقام پر 106 میگا واٹ کا پن بجلی گھر بھی تیار ہوچکا ہے اور بجلی بھی فراہم کی جاتی ہے۔
شاہی مسجد روڈ پر مقیم ویلڈنگ اور سٹیل کے کاروبار کرنے والوں کا انحصار بجلی پر ہوتا ہے مگر بجلی نہ ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کا کاروبار بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ فرید اللہ کا تعلق پشاور سے ہے وہ ایک عرصے سے شاہی مسجد روڈ پر ویلڈنگ اور سٹیل گیٹ کا کاروبار کرتا ہے ان کا کہنا ہے کہ دن میں تین چار مرتبہ بجلی چلی جاتی ہے ۔ مگر گاہک ہم پر دباؤ ڈالتا ہے اور اپنا گیٹ یا دوسرا سامان بروقت مانگتا ہے جس کیلئے ہم مجبوراً ڈیزل جنریٹر چلاتے ہیں جس سے بجلی پیدا کرتے ویلڈنگ اور دیگر مشینری استعمال کیلئے جنریٹر والی بجلی استعمال کرتے ہیں جس سے ہم روزانہ دو ہزار روپے کا ڈیزل خرچ کرتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جنریٹر میں نہ صرف ڈیزل کا خرچہ ہے بلکہ مبلائن اور دیگر مشنری بھی متاثر ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ سے ہمیں وہ سامان بہت مہنگا پڑتا ہے مگر اکثر گاہک وہی پرانے نرح پر مانگتا ہے جب کبھی بجلی ہوا کرتی تھی۔
اس کے ساتھ فضل الہی کا بھی ویلڈنگ اور سٹیل گیٹ بنانے کا دکان ہے اس کا دکان بھی حالی پڑا تھا کیونکہ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے اس کا کاروبار بھی بند پڑا تھا۔
چترال بازار کے تاجر یونین کے صدر شبیر احمد کا کہنا ہے کہ ہم نے اسی ہفتے واپڈا اور پیسکو کے حلاف احتجاج بھی کیا مگر ان کو کوئی شرم نہیں آتی۔ انہوں نے کہا کہ میرا ایک رشتہ دار پنجاب کسی کام سے گیا تھا اس نے بتایا کہ پنجاب میں ایک ہفتہ گزارنے میں ایک سکینڈ کیلئے بجلی نہیں گئی حالانکہ بجلی ہمارے صوبے کا پیدا وار ہے اور ہم اس سے محروم ہیں۔
اس سلسلے میں پیسکو (پشاور الیکٹریسٹی سپلائی کمپنی) کے دفتر بھی گئے تاکہ ایس ڈی او پیسکو سے اس کا موقف جانے مگر اس کے دفتر کو تھالہ لگا تھا پتہ چلا کہ موصوف پشاور کسی دفتری کام سے گیا ہے۔
چترال کے کاروباری طبقہ نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ واپڈا اور پیسکو کو ہدایت کرے کہ چترال کے باشندوں کو مفت یا سستی نرح پر بجلی چوبیس گھنٹے فراہم کرے تاکہ ان کا کاروبار بھی متاثر نہ ہو اور بجلی کے ذریعے وہ کھانا پکانے اور خود کو گرم رکھنے کیلئے ہیٹر استعمال کرتے تاکہ جنگلات کی بے دریغ کٹائی روکا جاسکے