کالمز

کورونا اور انسانیت کا رونا

دنیائے ہست و بود میں سب سے حسین و جمیل ترین خلقت انسان کامل کی ہے اور سب سے اہمیت والی چیز اس میں روح پھونک دی گئی اور اشرف المخلوقات ہونے کا اعزاز دیا گیا۔ روئے زمین پر اللّٰه کا نمائندہ قرار دیا گیا اور ملک و ملکوتی حقائق اور خدائی گرانبہا خزانہ کا مالک انسان کے وجود کو ٹھہرایا۔ وہ روئے زمین پر حق کا خلیفہ اور نمائندہ کے عنوان سے اہمیت رکھتا ہے تاکہ علم و عمل کے میدان میں قدم رکھ کر عدل و انصاف کا قیام کرے اور عبودیت اور معنوی کمال اور قربتِ خداوندی کے حصول کی راہ میں متحرک ہو اور دوسروں کو بھی اس راہ میں سیر و حرکت کرنے کی ترغیب دے کر انسانیت کا حق ادا کر سکے۔

خدا وند متعال قرآن مجید میں متعدد بار انسانی خلقت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ، ترجمہ: اور بتحقیق ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے خلق کیا۔ انسانی خلقت کے بارے میں ہزار ہا روایات ملتی ہیں جن میں خلقتِ انسان کو ہی ہدف بنا کر مباحثہ کیا گیا ہے۔ ہر سوں انسانیت کی ترویج و ترقی کی مثالیں دی گئی ہیں، صفاتِ انسانی کو موضوعِ سخن، موضوعِ تحریر و موضوعِ روایت بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ خدا وند عالم کی تخلیقات میں سب سے بہترین تخلیق تخلیقِ انسانی ہے جو کہ خدا وند عالم نے فخریہ انداز میں خلقتِ انسانی کی تعریف کی کہ میں نے روئے زمین پر انسان کو خلق کیا اور اپنا نمائندہ مقرر کیا۔ خلقتِ انسانی وجود میں آنے کے بعد مخلوقات کے درجے بنے جن میں انسان کو عقل و شعور کی بدولت سب سے افضل قرار دیا گیا اور اشرف المخلوقات ٹھہرا کر تمام عالم پر فضیلت بخشی۔

نسل آدم سے انسانیت کا سلسلہ شروع ہوا اور کئی ہزار سال سے نبوت و رسالت کے زیرِ سایہ دنیا کا نظام قائم ہوتا چلا آیا۔ یکے بعد دیگرے ہر رسول نے اللّٰه کا پیغام روئے زمین پر

پہنچاتے ہوئے آئے، وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ پیغامِ انسانیت عام ہوتا گیا ہر رسول نے اللّٰه کا پیغام انسانیت تک بخوبی پہنچایا۔ رفتعہ رفتعہ انسانیت ترویج کے منازل طے کرتے ہوئے دیکھائی دی۔ نسلِ آدم بڑھتی گئی اور روئے زمین پر مختلف تغیرات نے جنم لیے جن میں نسلی، رنگی، علاقائی اور دیگر اہم حقائق سامنے آنے لگے، وقتاً فوقتاً انسانیت کے دھڑے بندیاں شروع ہونے لگیں اور انسانیت کا سلسلہ کچھ بےتریب سا دیکھائی دینے لگا۔ نظامِ الہٰی تو مسلسل برقرار رہا مگر نظامِ انسانی میں تغیرات آنے لگے ہر مبعوث رسول نے اپنے ادوار میں انسانیت کے لیے اپنی بہترین خدمات پیش کیں اور عبودیت کا ثبوت دیتے رہے۔ ہر رسول کو امتحانات میں سے گزارا گیا تاکہ نسلِ آدم کی اور بہتر ترویج ہوسکے۔

وقت گزرتا گیا نسلِ آدم روئے زمین پر بڑھنے لگی اور نبوت کا آخری درجہ مکمل ہوا جس کے بعد ختم رسالت مآب صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کی آمد ہوئی۔ سر زمینِ عرب میں اللّٰه سبحان و تعالیٰ کا آخری نمائندہ مبعوث ہوا اور عرب کے تاریک راہوں میں ہدایت کا چراغ روشن ہوا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے قبل عرب جاہلت کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا، ظلم وبربریت کا بول بالا عروج پر تھا اور انسانیت کی تحقیر عام تھی۔ مگر چشمِ آمنہ صل اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے دنیائے انسانی کو عدل و انصاف سے بھر دیا۔ اپنی زندگی خدماتِ انسانی پر وقف کی اور ترویج انسانیت پر زور دے کر انسانیت کی بقاء کی بنیاد مظبوط بنائی۔

محمد عربی صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد ہدایتِ انسانی کے لیے اللّٰه عزوجل نے قرآن کریم کا نزول فرمایا تاکہ نسل آدم کی اور بہتر ترویج و ترقی ہو سکے۔ دنیائے اسلام کا نظام قائم ہوا اور عرب ممالک سے ہوتے ہوئے اسلام کی تبلیغ و اشاعت تمام عالم میں اسلام کے عظیم میدانوں میں فتوحات حاصل ہوئیں۔ اسلام کے عین مطابق اصولوں پر مبنی سلطنتِنں قائم ہوئی اور اس طرح خالق حقیقی سے انسانیت کا راستہ ہموار ہوتا گیا۔ رسالت کے زیرِ سایہ دنیا میں موجود ہر شے کو خبردار کیا گیا کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ترجمہ: اور میں نے جن اور انسان کو بنایا ہے تو صرف اپنی بندگی و عبادت کے لیے۔

یہ تو تھی انسانیت کی تخلیق اور اسلام کی طرف انسانیت کی رغبت اور یہ کڑی جدید دور کے ساتھ ملانے کے لیے دنیا میں ہر طرح کے واقعات رونما ہوئے ہر طرح کی تحقیق عام ہوئی ہر جگہ موجود سائنسی علوم کا بول بالا ہوا، ہر محقق نے اپنے محققانہ انداز سے دنیا کا ادراک کیا اور خلقتِ انسانی کو اپنی زبانی بیان کیا، ارتقاء کے مراحل پر مشتمل اپنی رائے دی گئی، بگ بینگ جیسی تھیوری کا نام نہاد نظریہ پیش کیا گیا اور دنیا جدید دور سے ہوتے ہوئے آج اکیسویں صدی کے راہوں میں گامزن ہے۔ ہر طرح کی تحقیق عام ہے ہر محقق اپنی زندگی میں کچھ نہ کچھ نیا کرنے کے درپے ہے، ماڈرنزم کے اس پُر آشوب دور میں ہر طرح کی آسائشیں فراہم کرنے میں ہر کوئی اپنا کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ جدید دور کا انسان مختلف خرافات میں کھویا ہوا ہے چاہے وہ سوشل میڈیا کی یرغمالی ہو، سائنسی ابہام ہو یا تاریخ کے اوراق میں پیوست حقائق جن میں ایک سے ایک کڑی متصل ہے۔

بیسویں صدی ہو یا اکسویں صدی انسانیت نے ہر طرح کے خرافات کا سامنا کیا ہے مگر آج کے اس خرافاتی وقت میں انسان کورونا وائرس جیسے ایک جرثومہ سے دو چار دیکھائی دے رہا ہے۔ انسانیت کی مظلومیت کا ادراک یہاں سے کیا جا سکتا ہے کہ انسانیت اپنے ہی ہاتھوں کتنی بے قیمت اور بے بس ہے۔ آج دنیا جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال اور پیدوار سے کہیں برتر دیکھائی دی رہی ہے مگر دوسری طرف ایک معمولی جرثومہ کے سبب لاچار نظر آرہی ہے۔ وقت کا تعین کرنے والے وقت کے ہاتھوں مجبور ہیں، کورونا وائرس نے دنیا بھر کی اینٹ کی اینٹ بجا دی ہے۔ حقیقت انسانیت کو عیاں کرنے والا کورونا کا جرثومہ زور و شور سے انسانیت کی نسل کشی کرتے ہوئے اس بات کا ثبوت دے رہا ہے کہ انسان کی ہی خرافات زدہ تخلیق انکے برعکس کام دیکھا رہی ہے۔ آج ہر سوں کورونا کی وجہ سے انسانیت کا قتل عام ہو رہا ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کورونا خود بخود پیدا ہوا؟ یا اسکا پس پردہ کوئی بنانے والا موجود ہے؟۔ تو ایک عام فہم شخص بھی اس بات سے عاری نہیں ہوگا کہ اس جرثومہ کا کوئی نہ کوئی محقق پس منظر ضرور ہے۔ دنیا ففتھ جنریشن جنگ کے مراحل طے کر رہی ہے ہر ملک اپنی انا کو تسکین دیتا ہوا دیکھائی دے رہا ہے کوئی اپنی معاشی ترقی کو تقویت دینے میں مصروف ہے تو کوئی اپنی ایٹمی طاقت کا مظاہرہ دیکھانے میں پیش رفت، کوئی اپنی تیل کی صنعت کو فوقیت دے رہا ہے تو کوئی اپنی جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے انسانیت کے دھجیاں بکھیر دینے میں سرگرم ہے۔ ہم آج بظاہر ایک مشکل دور سے گزر رہے ہیں دنیا کی معیشت صفر کے مقابلے میں آکھڑی ہے، بھوک و افلاس کا ڈھنکا بج رہا ہے انسانیت کورونا کے ہاتھوں لاچار ہے۔ سفید پوش طبقہ انسانیت کی خدمت پر مامور ہے، سلفیاں اور تصاویری طبقہ ریاکاری کے منازل طے کر رہے ہیں جدید سائنس اور میڈیکل سائنس کورونا کے تریاق کی کھوج میں مصروف عمل ہے، ملا و مولوی تجزیہ نگار بن کر رہ گئے، صحافتی تنظیمیں تشہیر و اشاعت کے جوہر دیکھا رہے ہیں اور دنیائے انسانی کورونا وائرس کی زد میں بےحال و بے آسرا ہے۔ متاثرہ لوگ اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھا رہے ہیں۔ لاکھوں لوگ اس جرثومہ کا شکار ہوئے ہیں سیاست کے میدان میں اپنے فن کو منوانے کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے والے ڈرامے باز بلوں سے نکل آئے ہیں کہیں پر ریاکاری کا مظاہرہ ہے تو کہیں پر سیاست کی اشاعت۔ ملکی عزت و تکریم کو بچانے کے لیے الزامات عائد کیے جاتے ہیں کہ فلاں ملک نے کورونا وائرس کو بنایا اور جدید ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ یہ بات واضح اور روشن تعبیر ہے کہ بیشک ملکی عزت کو اجاگر کرنے کے لیے جرثومے کی افزائش کی گئی ہوگی اور مناسب وقت کا تعین کر کے جرثومہ کو ہتھیار بنایا گیا ہوگا۔

ذہنِ انسانی میں ہزار ہا ابہام پیدا ہوتے ہیں کہ آیاں دنیا میں اپنی بہترین ملکی مثال قائم کرنے کے لیے انسانیت اتنی حد تک گر بھی سکتی ہے؟نسل آدم کا قتل عام کر کے اپنی ملکی بقاء کا حصول ممکن بنایا جا سکتا ہے؟ انسانیت کی ہنستی مسکراتی زندگی کو ہدف بنا کر دنیا میں خود کا لوہا منوانا کیا مناسب عمل ہے؟ ان تمام ابہام کے ساتھ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے پر کام کرنے والے تمام انسان دوست آج مصروف عمل ہیں کہ کہیں نہ کہیں تریاق کو بنایا جائے اور انسانیت کی نسل کشی کو روک دی جائے۔ کورونا وائرس کے اس پُر اسرار خوف سے نسل آدم کو چاہیے کہ انسانیت کا راستہ ہموار بنانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کرے اور دنیا بھر میں امن و امان قائم رکھنے کی کوشش کو رہتی دنیا تک جاری وساری رکھے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button