لفظ کی آبرو
نوائے سُرود: شہزادی کوثر
نزول قرآن کی ابتدا جس حکم سے ہوئی ہے اس نے انسانی عقل وشعور کے دریچے کھول دیئے ہیں یہ صرف کسی حرف یا لفظ کو دہرانے کا نام نہیں ہے حرف وصوت کی ادائیگی ،سمجھ اور عمل کا ایسا نظام ہے جس پہ دنیا کی بقا اور سالمیت کا انحصار ہے ۔پڑھا اس وقت جاتا ہے جب کچھ لکھا ہوا ملے، جو کاغذ پر ہو یا کسی پتھر پر نقش تحریر ہو۔لیکن کچھ ایسی بھی تحریریں ہوتی ہیں جو صرف چہرے پہ نقش ہوتی ہیں بظاہر وہ حروف نہیں ہوتے لیکن تاثرات کے طور پر اپنی کہانی ضرور بیان کرتے ہیں۔ایسی تحریر کو پڑھنے اور سمجھنے کے لئے وصف خاص درکار ہے۔
تحریر کسی بھی طرح کی ہو اس کا مقصد علم دینا ،معلومات فراہم کرنا ،بیتے سمے کی داستان بیان کرنا، مستقبل کے امکانات کی طرف رہنمائی کرنا یا لمحہ موجود میں رہ کر تمام تر لطافتوں اور مسرتوں سے محظوظ ہونے کا فن سکھانا ہوتا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی کام تحریر سے بے نیاز نہیں ہوتا ،ہر چیز کے لیے تحریر دلیل اور سند کا درجہ رکھتی ہے،اور خاص کر لین دین کا معاملہ ہو تو اس کی ضرورت و اہمیت دوچند ہو جاتی ہے، کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ ”جب تم آپس میں کسی چیزکا معاملہ کروتواسے لکھ لیا کرو۔” مذہب ،عدالت ،تعلیم،کاروبار ،سیاست غرض معاشرے کے ہر شعبے میں لکھنے پڑھنے اور سمجھنے کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ،لیکن ہمارا تمام علم وہاں آ کر ڈھیر ہو جاتا ہے جہاں ہم لکھنے پڑھنے اور سمجھنے کے قابل ہونے کے باوجود عقل وشعور سے بے بہرہ بن جاتے ہیں ۔وہ حروف جو ہمیں انسانیت اور علم و آگہی کی دولت سے مالا مال کرتے ہیں ہمارے سامنے اپنی وقعت کھو دیتے ہیں۔ جس علم کی بدولت ہم اوج ثریا کی ہمدوشی کے دعوی دار ہیں اسی علم کی بے حرمتی کے سبب تحت الثری میں منہ کے بل گر سکتے ہیں۔
ہر گلی کوچے اور سڑک کنارے جمع شدہ گندگی کے ڈھیر پہ اخبارات کے صفحے اور کتابوں کے ورق نظر آیئں گےان صفحوں پر وہی حروف ہیں جو قرآن مجید کے احکامات کو ہم تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں جن میں ایات قرآنی احادیث مبارکہ اللہ تعالی اور انبیا کے پاک نام تک شامل ہیں ۔اخبار پڑھنے کے بعد اسے اگر کسی اور جگہ استعمال نہیں کیا جا سکتا تو آتش دان میں جلانا چاہیے کم از کم کچرے کے ڈھیر پہ پھینک کر اس علم کی بے توقیری تو نہیں کرنا چاہیے۔ ملک میں روزانہ کئی لاکھ اخبار چھپتے ہیں جن میں ہر قسم کی خبریں ہوتی ہیں ،ایک حصہ خالص اسلامی صفحہ کا بھی ہوتا ہے لیکن آگہی کے فقدان کے سبب یہ سب کچھ کوڑے دان میں دیکھنے کو ملتا ہے۔بہت سے لوگ پرانی کتابیں اور کاپیاں چھاپڑی والے کے ہاتھ فروخت کرتے ہیں دونوں حضرات یہ دیکھنے کی زحمت نہیں کرتے کہ یہ کس قسم کی کتاب ہے نتیجتا اسلامی کتاب کے صفحات پر پکوڑے سموسے اور چپس وغیرہ ڈال کر بیچا جاتا ہے ۔خریدنے والا اپنی پسند کی چیز سے لطف اندوز تو ہوتا ہے لیکن اپنی ”صفائی دشمنی ” کی عادت کے پیش نظراس صفحے کو راستے میں ہی کہیں پھینک دیتا ہے اور یہ صفحہ راہگیروں کے قدموں تلے کئی بار کچلا جاتاہے۔اور انجانے میں ہمارے پیروں تلے اللہ اور اس کے حبیبﷺ کا نام روندا جاتا ہے اس میں ہم سب گناہ کے مرتکب بن جاتے ہیں کوئی جان بوجھ کر اور کوئی انجانے میں۔
ایک انسان اس کا ذمہ دار نہیں بلکہ ہر وہ انسان سزا کا مستحق ہے جو اس بات کو سنجیدگی سے نہیں لیتا ۔ان پڑھ لوگ پھر بھی کوئی جواز پیش کر سکتے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ ایسے پڑھے لکھے جاہلوں سے بھرا ہوا ہے جو نہ تو خود سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں بچوں کو یہ تعلیم نہیں دی جاتی کہ جو کھائیں اس کا کاغذ کوڑے دان میں ڈالیں ۔گھر کے بڑے دیکھ رہے ہوتے ہیں اور بچہ جہاں کھاتا ہے کچرا وہیں بکھیر کر کھڑا ہو جاتا ہے ۔خود بڑوں کو بھی تمیز نہیں ہوتی کہ کونسی چیز کہاں ٹھکانے لگانی ہے۔ بچے بھی وہی کرتے ہیں جو اپنے بڑوں کو کرتا دیکھتے ہیں اب ایسے میں کسی کارٹون کا نام ہو یا کوئی آیت راستے میں ہی پھینک کر چلتے بنتے ہیں جس سے ایک طرف ہمارا ماحول غلاظت کا ڈھیر بنتا ہے اور دوسری طرف اسلامی احکامات اور تعلیمات کی دھجیاں اڑ جاتی ہیں۔
اسلام میں صفائی کو نصف ایمان کہا گیا ہے ،کتنا اسانی پسند اور فطری مذہب ہے کہ صرف صفائی کا خیال رکھنے سے ہی ہم نصف ایمان کے حقدار بن جاتے ہیں لیکن اسلام کے نام لیوا اپنی غلاظت پسند طبیعت کی وجہ سے اپنے نصف ایمان کو اپنے ہاتھوں سے غارت کرتے ہیں اور باقی نصف جھوٹ بداخلاقی ،دھوکہ ملاوٹ کی نذر ہو جاتا ہے ۔یہ بہت بڑا مسلہ ہے جس سے پورا ملک دوچار ہے۔ لیکن اس کا حل ڈھوڈنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ یہ ذمہ داری کسی ایک فرد یا ادارے پر عائد نہیں ہوتی مل کر اس کو حل کرنا ہوگا۔ گھروں میں اپنے بچوں کو پابند کرنا ہو گا کہ کوئی بھی صفحہ ادھر ادھر نہ پھینکے سکولوں میں طالب علموں کو صرف کتاب پڑھنا نہ سکھائیں بلکہ علم کی عزت اور قدر کرنا اور حرف و لفظ کی آبرو کرنا سکھائیں ۔مدارس میں پڑھانے والے معزز علما کرام اور دوسرے منتظمیں بچوں کے ذہنوں میں یہ بات نقش کرنے کی کوشش کریں کہ جب تک علم کی قدر نہیں ہو گی تب تک ثواب سے اور علم کے فوائد سے محروم رہیں گے کیونکہ یہی علم دنیا اور آخرت میں کامیابی کا واحد ذریعہ ہے۔