میرا قصور یہ تھا
کریم علی غذری
وطن عزیز میں جب سے ہم درسی کتابوں سے متعارف ہوئے ہیں یہی پڑھتے ارہے ہیں کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے جس میں سب سے ترجیح جمہوریت ہی کو دی جاتی ہے۔ لیکن آج ایکسویں صدی میں ہم دیکھیں تو سب کچھ الٹا نظر آتا ہے۔ یا تو ہم نے بچپن سے لے کر آج تک جو جمہوریت کے تعارف کو رٹا ہے وہ غلط ہے یا تو پھر ملک میں جمہوریت سرے سے ہی غلط ہے۔
یہ کیسی جمہوریت ہے جہان عوام کی رائے شماری سے منتخب نمائندوں کو آئینی مدت پوری کرنے نہیں دیا جارہا۔
تاریخ کے اوراق کو ذرا پلٹیے اور مطالعہ کیجیے۔ لیاقت علی خان سے لیکر آج عمران خان تک کتنے عوامی نمائندوں کو اقتدار کے ایوان سے گھر بھیج دیا گیا۔
کیا یہی ہوتی ہے جمہوریت؟ کیا اسی جمہوریت کی بقا کے لیے روز ایوانوں میں گن گرج سنائی دیتی ہے؟ اور اگر ایسی جمہوریت کا دفاع کریں گا بھی تو کون جو اپوزیشن میں ہوتے ہیں وہ اسی طرح حکومتوں کا خاتمہ کرکے کہتے ہیں ہم جمہوریت کی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں۔
کیا جمہوریت وہ تھی جو ہم نے قائد اعظم سے سنا تھا یا وہ جو بچپن ہمارے ذہنوں کے ساتھ روح میں بھی پھونکا جارہا تھا کہ "عوام کی حکومت، عوام کے لیے, عوام کے ذریعے”۔
آج تک اس ڈیفنیشن کو ہم نے پاکستان کے ایوان میں امپلیمنٹ ہوتے نہیں دیکھا۔ ہم نے تو محض یہ دیکھا کہ کس طرح جمہوریت کے علمبرداروں کو پھانسی کے تختوں پر لٹکایا جاتا ہے۔ ہم نے تو یہ دیکھا کہ کس طرح لاکھوں کے مجموعے میں جمہوریت پسندوں کو لہو لہان کیا جاتا ہے۔ ہم تو یہ دیکھا کہ جب کوئی کہے کہ بیرون ملک سے پاکستان میں انتشار پھیلایا جارہا ہے اور سازش کے تحت ریجیم تبدیل کی جارہی ہے۔ باوجود اس کے کہ اس پر اعلیٰ اداروں میں گفت و شنید ہو اس حکومت کو نکال باہر پیھنک دیا جائے۔
کیا نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ واشنگٹن ڈی سی سے ایک فرمان صادر ہو اور اسلام آباد میں 342 ارکان پر مشتمل ایوان بے بس تماشائی بن جائے۔ کیا امریکہ نے اپنے پنجے اس قدر مضبوطی سے گاڈ دیا ہے کہ 15 ارب روپے میں ریجیم تبدیل ہورہی ہے۔ اور نیشنل اسمبلی میں ایک روز بھی اس ڈاکومنٹ کی شنوائی کے لیے مقرر نہیں ہوتا۔ پتا نہیں یہاں کس جمہوریت کی دفاع ہورہی ہے جس میں عوامی نمائندوں کو ہوٹلوں میں یرغمال بنا کر رکھا جاتا ہے جب تک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوتا۔
دوسری چیز جب حکومت کے ساڑھے تین سال مکمل ہوچکے ہیں تو اپوزیشن نے محض ساتھ ماہ کے اقتدار کے لیے کیوں اتنی سر توڑ کوشش کی؟ اس سے بہتر یہ تھا کے وہ اگلے الیکشن کی تیاری کرتے اور سرے سے ایک نئے حکومت کی بنیاد رکھی جاتی۔ آخر کار کیا نوبت ائی کے ایک پارٹی کی حکومت کو گرانے کی خاطر گیارہ جماعت ایک ہی بندھن میں بندھ گئیں؟ اور وہ بھی ایسی پارٹیاں جو ماضی میں ایک دوسرے کو عدالت میں گھیسٹتی رہی ہیں۔
ان کے کمزور ارادوں میں کس طاقتور ملک نے اتنی جان ڈالی کے یہ سب اپس کے تفرقات بھلا کر گلے ملنے پر آمادہ ہوگئے؟
عالمی دنیا میں امریکہ کو چھوڑ کر باقی ساری دنیا میں عمران حکومت کی داد رسی ہورہی تھی۔ واحد ملک متحدہ ہائے امریکہ تھا جو شدید رنج و عالم میں تھا کیونکہ اسلام آباد میں پہلی بار ایک ایسی حکومت قائم ہوئی تھی جو ان کے قابو سے باہر تھی۔
وہ آگے سے ڈو مور کہتے تھے اور ادھر سے ابسولٹلی ناٹ کا جواب ملتا تھا۔ اس لیے عمران سرکار سپر پاور کو کھٹکتی تھی کیونکہ یہ ہر فورم میں افغانستان میں ملٹری آپریشن کے خلاف بات کرتے تھے۔
امریکہ اس لیے خان سرکار کو میلی آنکھ سے دیکھتا تھا کیونکہ war on terror میں مارے گئے پاکستان کے 80 ہزار بے گناہوں کی خون کا حساب مانگتا تھا۔ واشنگٹن میں بے صبری کی چنگاری اس لیے جل رہی تھی کیونکہ عمران خان آزاد خارجہ پالیسی لے کر آیا تھا جس میں ملک آزادانہ طریقے سے اپنے تعلقات دوسرے ممالک سے جاری رکھا ھوا تھا۔ سپر پاور اس بات سے نالاں تھا کہ اب ایسے لیڈر اسلام آباد کے ایوانوں میں نہیں رہے جو کہتے ہے کہ Beggers Are not choosers۔
اب امریکہ کو ایسے ہی بندوں کی حکومت منظور تھی جو ان کے اشارے کے مطابق چلے اس لیے ریجیم چینج ہی واحد حل تھا۔ اب دیکھنا یہ ھوگا کے ان سب بحرانوں سے خارجہ پالیسی، ملک کی معشیت،چین اور روس جیسے ہمسایہ ممالک سے روابط مستحکم ھونگے یا کمزور۔ کیا اس نہ تھمنے والی سازشی ہوائیں بیجنگ، اور ماسکو کو اپنے لپیٹ میں لیں گے؟ محو طاری کر دینے والی معمہ تو یہ ہے کے جن حالات میں یوکرین میں روس کی جنگ جاری ہے اور چین اس میں کا کردار ادا کر رہا ہے پاکستان میں منتخب حکومت چین کا ہاتھ تھامے گی یا امریکی بیساکھیوں کا سہارا لے گی جو ہمارے لیے وینٹیلیٹر کا کام کرتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو اس کے دوررس اثرات معشیت پر مرتب ہوں گے۔ جس میں سی پیک اور سپیشل ایکنامک زون اور ون روڈ ون بیلٹ انشیٹیو شامل ہیں۔
اگر کسی بھی ملک کو گھٹنوں کے بل گرانا ہو تو وہاں کی مضبوط حکومت کا خاتمہ لازمی ہوتا ہے۔ ان سب حالات کو اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو ایک بات ہر ذی شعور کو پرشان کرتا ہے کیا ہم مڈل ایسٹ جیسے حالات اور بحرانوں میں مبتلا تو نہیں ہونے والے ہیں؟ جو کٹھن حالات اس وقت فلسطین، یمن، شام، عراق اور لیبیا میں رونما ہورہے ہیں مستقبل قریب میں ہمیں بھی اسی طرح اگ میں دھکیلا جاسکتا ہے۔
مسلم ممالک کو آپس کے انتشار، علحیدہ کرنے کی سوچ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک مسلم امہ ایک طاقت نہیں بن جاتا یوں ہی کبھی ہمیں اندرونی تو کبھی بیرونی شازشوں کے زور پر کچل دیا جائے گا۔
وہ قوم صفحہ ہستی سے مٹتی ہے جو اپنے اقدار کی حفاظت نہ کرسکے جو اندرونی تقسیم اور ضرب کاری سے الجھ بیھٹی ھو وہ قوم کبھی بھی ترقی کی راہوں میں آگے نہیں بڑھ سکتی جس میں غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کی سکت نہ ہو۔