کالمز

جنگلات و جنگلی حیات کا تحفظ

جنگلات کی کٹائی ایک خلاف فطرت عمل ہے اور دور حاضر میں جب پوری دنیا کو بدترین فضائی آلودگی اور موسمی ہدت کا مسئلہ درپیش ہے،  ایسے میں درختوں کی کٹائی گویا پوری انسانیت کو تباہی کی طرف لے جانے کے مترادف ہے ۔ ہماری زمین بہت تیزی کے ساتھ جنگلات سے محروم ہو رہی ہے پاکستان میں اگرچہ ماحولیات کے تحفظ پر کافی بات ہورہی ہے  اور اقدامات بھی کیے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود جنگلات کی کٹائی  کئ صورتوں میں جاری ہے۔ محققین کے مطابق گلگت بلتستان، کوہستان بشمول داریل تانگیر  اور وادی نلتر میں مختلف اقسام کے درخت پائے جاتے ہیں۔ اور دیامر کے علاقے بالخصوص گوہرآباد چلغوزے کے قیمتی جنگلات سے مالامال ہے اسی طرح ان علاقوں میں دیگر اقسام کے پیڑوں کی بھی بہتات نظر آتی ہے۔ تاہم گذشتہ دس پندرہ سال کے دوران ہزاروں کی تعداد میں درخت کاٹ کر مقامی افراد اور ٹمبر  مافیہ نے ان خوبصورت جنگلات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ جنگلات کے متعلقہ ادارے اگرچہ اس بربادی کی دہائیاں تو دیتے ہیں لیکن اس مسئلہ کو حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کرتے نظر نہیں آتے۔ لیکن بھلا ہو پرائم منسٹر عمران خان نیازی کا جنہوں نے دس ارب درختوں کے نام سے ایک منصوبہ متعارف کروایا اس منصوبے میں نہ صرف جنگلات کی کٹائی کے خلاف بھرپور مہم کا آغاز کیا بلکہ ملک کے متعدد علاقوں میں تقریبا ایک ارب سے زائد درخت لگا کر ماحول دوستی کا ثبوت دیا ۔ میری جنگلات کے متعلقہ  اداروں سے یہ گزارش ہے کہ اس منصوبے کو بھرپور انداز میں  استعمال کریں اور زیادہ سے زیادہ درخت لگا کر ہمارے جنگلات کو بچائے۔

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام جنگلی حیات کا عالمی دن منایا جارہا ہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ جنگلی حیات کسی بھی ملک کا سرمایہ ہوتی ہیں اور قدرت کی اس تخلیق کا تحفظ ہم سب کا فرض ہے تاہم یہ  بھی ایک تلخ سچائی ہے کہ دنیا میں جنگلی حیات کم ہوتی جارہی ہیں ۔سائنس دانوں کاکہناہے کہ دنیا میں بڑے جنگلی جانوروں کی آبادی کم ہو رہی ہے جس سے خطہ ارض ’خالی ہوجانے‘ کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔

یوں تو پوری دنیا میں  بیشمار تنظیمیں جنگلی حیات کے بچاؤ اور تحفظ کیلئے کام کررہی ہیں لیکن اس کے باوجود نایاب پرندوں اور جانوروں کی تعداد بتدریج کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے۔جنگلی حیات کو بچانے اور افرائش نسل کیلئے حکومتوں اور اداروں کی طرف سے اقدامات کے باوجود نایاب پرندوں کا شکار کسی صورت کم ہونے میں نہیں آرہا جس کی وجہ سے جنگلی حیات پر عرصہ حیات تنگ ہوتا جارہا ہے۔

جنگلی حیات صرف جنگل تک محدود نہیں بلکہ ہمارے آس پاس ہمارے معاشرے میں ہمارے قریب موجود ہے، مختلف جانور اور پرندے ہمیں وقتاً فوقتاً اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں، زمین، آسمان اور سمندر میں موجود آبی حیات انسان کی توجہ کی متقاضی ہیں۔

انسان کی طرح جانور اور چرند پرند اور تمام جنگلی حیات کو زندہ رہنے کیلئے گھر اور کھانے کی ضرورت ہوتی ہے، ماحول کو انسان دوست بنانے میں جنگلی حیات کا بھی بڑا کردار ہے لیکن موجودہ دور میں انسان تیزی کے ساتھ جنگلی حیات پر اثر انداز ہورہے ہیں جس کی وجہ سے کئی نایاب جانوروں کی نسلیں معدوم ہوچکی ہیں۔

جانور نہ صرف ماحولیات کو متوازن رکھتے ہیں بلکہ قدرتی خوبصورتی کو بھی نمایاں کرتے ہیں، آج دنیا بھر میں نایاب پرندوں اور جانوروں کو بچانے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔

جنگلی جانوروں  کے بچاؤ اور افزائش نسل کیلئے شکار پر پابندی لگائی جاتی ہے اس کے باوجود غیر قانونی شکار کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ غیر قانونی شکار، اسمگلنگ اور آگاہی نا ہونے کی وجہ سے پاکستان میں جنگلی حیات کو بہت سے خطرات درپیش ہیں اورمختلف اقسام کے جانوروں کی نسلیں ناپید ہونے کو ہیں۔

جنگلی حیات کا تحفظ صرف حکومت یا متعلقہ اداروں کی نہیں بلکہ ہر انسان کی بنیادی ذمہ داری ہے،عوام کی شمولیت اورمدد کے بغیر جنگلی حیات کے تحفظ کا کام نہیں کیاجاسکتا۔ہمیں اپنے بچوں کو بچپن سے ہی جنگلی حیات کے تحفظ کے بارے میں آگاہ کرنا چاہیے۔

ہمیں اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں آگاہی کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے ۔اور عوام کو جنگلی حیات پر جاری ظلم کو روکنے میں متعلقہ اداروں کا ساتھ دیناہوگاتاکہ قدرت کی اس تخلیق کا تحفظ یقینی بناکر ماحول کو بچایا جاسکے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button