گلگت بلتستان میں قدرتی آفات سے کیسے نمٹنا چاہئے؟
کالم ۔ قطرہ قطرہ
تحریر۔ اسرارالدین اسرار
گلگت بلتستان آجکل قدرتی آفات کی ذد میں ہے۔ گذشتہ دو روز میں ایمت اشکومن، شیرقلعہ، بارگو، سکار کوئی، داریل دیامر، الترہنزہ، جوتل، سلطان آباد، نگر، بگروٹ، روندو، خیبر گوجال، سمیت گلگت بلتستان کے کئ مقامات پر لینڈ سلائڈنگ ، ندی نالوں میں طغیانی اور اونچے درجے کے سیلاب جیسے قدرتی آفات رونما ہوئے ہیں۔ جن سے بڑے پیمانے پر تباہ کاریاں ہوئی ہیں۔ ہر طرف تباہی مچی ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنا حکومت اور عوام دونوں کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ( ایچ ار سی پی ) کے زیر اہتمام ہم نے محض دو ہفتے قبل گلگت میں ” کلائمٹ گورننس ان گلگت بلتستان ” کے عنوان سے ایک پالیسی ڈائیلاگ کا انعقاد کیا تھا۔ جس کا مقصد قدرتی آفات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے اور ان کے دیر پا نقصانات کو کم کرنے کے لئے منصوبہ بندی کے لئے ذمہ دار اداوں کے ساتھ مشاورت کرنا تھا۔ اس ڈائیلاگ میں متعلقہ سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے علاوہ سیاسی جماعتوں، ماحولیات کے ماہرین، ماہرین تعلیم، منتخب نمائندوں اور حکومت کے ذمہ داروں سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو مدعو کیا گیا تھا تاکہ سیاسی جماعتیں، حکومت، سرکاری و غیر سرکاری ادارے اپنے پروگرامز اور منشور میں قدرتی آفات سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کو اولیت دیں۔
یہ بات دیکھی گئ ہے کہ قدرتی آفات رونما ہونے سے پہلے اور بعد کے لئے مکمل تیاری نہ ہونے کی وجہ سے نقصانات کا حجم زیادہ ہوتا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ ان قدرتی آفات کو رونما سے نہیں روکا جاسکتا لیکن ایک جامع تیاری سے ان آفات کے نقصانات کو کم ضروت کیا جاسکتا ہے اور متاثرہ لوگوں کی بہتر آباد کاری کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
گلگت بلتستان چاروں طرف سے برف پوش پہاڈوں، گلیشئرز، ندی نالوں اور دریاوں میں گرا ہوا ہے۔ یہاں ہر وقت قدرتی آفات کا خدیشہ موجود رہتا ہے۔ اب دنیا بھر میں رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات بھی یہاں پہنچے ہیں جس کے نتیجے میں ان واقعات کی تعداد اور شدت میں اضافہ ہوا ہے۔
قدرتی آفات کے نتیجے میں کئ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ہوتی ہے جن میں زندگی کا حق سب سے اہم اور بنیادی انسانی حق ہے۔ اس کے بعد مناسب خوراک، رہائش، پینے کا صاف پانی، تعلیم، صحت سمیت کئ شہری، سیاسی، سماجی، معاشی اور ثقافتی حقوق متاثر ہوتے ہیں۔
گلگت بلتستان میں ان آفات سے نمٹنے کے لئے ایک پالیسی یا ایکشن پلان بنایا جاسکتا ہے۔ جس میں قلیل المدتی اور طولیل المدتی پروگرامز کے زریعہ ان واقعات کے نقصانات کم کئے جاسکتے ہیں۔
مثلا قدرتی آفات کے رونما ہونے سے پہلے ارلی وارننگ سسٹم کو فعال کرنا، جو آبادیاں خطرے میں ہیں ان کو بروقت متبادل جہگوں کے انتخاب کی طرف مائل کرنا، قدرتی آفات کے دوران کن کن حفاظتی تدابیر کی ضرورت ہے ان کی آگاہی دینا، سیلاب اور قدرتی آفات کے زد میں آنے والے علاقوں میں رہائشی مکانات اور دیگر تعمیرات پر پابندی لگانا وغیرہ شامل ہے۔
اسی طرح ان واقعات کے رونما ہونے کے دوران اپنی جانوں کو کیسے محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔ متعلقہ ادارے موقع پر پہنچ کر کسی بھی سیلابی صورتحال میں بروقت کارروائی یا سیلاب کے رخ کوموڑنے کے لئے کیا کیا اقدامات کرسکتے ہیں اس بارے میں مکمل تیاری کو ممکن بنانا وغیرہ شامل ہے۔
اسی طرح ان واقعات کے رونما ہونے کے بعد کی صورتحال میں مقامی رضاکار، سرکاری و غیر سرکاری اداروں کو کس طرح کی مشترکہ کارروائیوں کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ مثاثرین کی آباد کاری، تعلیم، ذہنی و جسمانی صحت کے علاوہ دیگر ضروریات زندگی کو پوری کرکے ان کو کیسے دوبارہ نارمل ذندگی کی طرف لانا ہے اس کے لئے جامع
منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
اسی طرح عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہونے والی ان تباہ کاریوں کو پوری دنیا کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے کس طرح اپنا کردار ادا کیا جاسکتا ہے اور آنے والی نسلوں کو ان تباہ کاریوں سے کیسے آگاہ رکھا جاسکتا ہے۔
مذکورہ امور کے علاوہ دیگر کئ اہم امور کو بھی شامل کر کے ایچ ار سی پی کے زیر اہتمام پالیسی ڈائیلاگ کے بعد جی بی ڈی ایم اے کے زیر سر پرستی سٹیک ہولڈرز کا ایک فورم تشکیل دیا گیا جس کو ڈیزاسسٹر ریسک ریڈکشن فورم کا نام دیا گیا ۔ اس ایونٹ کے بعد ڈیزاسسٹر منیجمنٹ اتھارٹی جی بی اور ڈبیلو ڈبیلو ایف نے جی بی ڈیزاسسٹر ریسک منیجمنٹ پلان کو از سر نو تشکیل دینے پر کام شروع کیا ہے جو کہ 2008 میں پہلی دفعہ بنایا گیا تھا جس میں اب نئ اور جدید چیزیں بھی شامل کر کے مستقبل میں اس پر عمل کیا جائے گا۔ جی بی ڈی ایم اے کی یہ کاوش لائق تحسین ہے۔ جی بی حکومت کو چاہئے کہ وہ اس ضمن میں مزید کام کے لئے جی بی ڈی ایم کو مکمل سپورٹ فراہم کرے۔ جی بی ڈی ایم اے کا موجودہ ڈی جی ایک سنجیدہ اور محنتی افسر ہیں امید اس کام کو احسن طریقے سے جلد ازجلد پائہ تکیمل تک پہنچائینگے اور اس کو قابل عمل بنائینگے۔
گلگت بلتستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے ایک جامع اور فعال پالیسی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ پچھلی حکومت کی طرف سے اس مد میں رکھے گئے فنڈ میں دو گنا اضافہ کرے کیونکہ گلگت بلتستان کے لوگ اس وقت قدرتی آفات کی وجہ سے شدید معاشی و معاشرتی مسائل سے دوچار ہیں۔ .