کالمز

جون 1961کی یادداشت

تحریر: صوبیدار میجر (ر) افضل امان
یاسین غذر
مسگر وادی ہنزہ کا آخری گاؤں ہے۔ یہاں کے باسی بڑے محنتی اور حکومت پاکستان کے انتہائی وفادار ہیں۔ مسگر سے تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر قلندرچی گاؤں واقع ہے۔ قلندرچی میں ایک مضبوط قلعہ ہے جو کہ فوجی حکمت عملی اور دفاعی اہمت کے پیش نظر تعمیر کیا گیا ہے۔ قلندرچی سے آگے منتکہ نالہ آتا ہے جوکہ چین کے شہر یارقند کے قرب وجوار تک پھیلا ہوا ہے۔ گلگت میں جتنے بھی کاشغری آباد ہیں وہ سب منتکہ نالہ سے داخل ہوئے ہیں۔ منتکہ نالہ کے بائیں جانب کلک نالہ ہے۔ یہ نالہ بڑا خطرناک ہے جہاں سے زمانہ قدیم میں روسی فوج کے قلندرچی پر حملے کے خطرات موجود رہتے تھے۔ کلک نالہ وسیع و عریض میدانی علاقہ ہے جہاں روسی تربیت یافتہ اور گھوڑ سوار فوجی تعینات ہیں۔10جون1961کو صبح دس بجے کے قریب ہم اپنے معمول کی ڈیوٹی پر تعینات تھے کہ اچانک نائیک علی محمد نے مجھے،سپاہی ابراہیم اور سپاہی شہباز کو بلایا۔ہم تینوں حکم کی بجاآوری کے طور پر ان کے سامنے حاضر ہوئے تو حکم ملا کہ صبح ہم نے ان کے ساتھ خنجراب جانا ہے۔مزید یہ کہ اس دوران گل شیر اور عرب خان ہمارے گائیڈ ہونگے۔ کمانڈر صاحب نے کہا صبح سویرے تیار ہوجاؤ، ہمارے پہنچتے پہنچتے سروے آف پاکستان والے ہیلی کاپٹر کے ذریعے خنجراب پہنچ جائیں گے۔ہمارا اصل کام ان کی حفاظت اور کام میں مدد کرنا ہے۔

اگلی صبح یعنی 11جون کو قلندرچی گائیڈ گل شیر اور عرب خان کی رہنمائی میں ہم خنجراب کے لئے روانہ ہوئے۔ ہمارے قافلے میں گائیڈ، پورٹرز کو بھی شامل کرکے کل چھ افراد شامل تھے۔ راستہ بہت دشوارگزار اور پہاڑوں کے درمیان واقع تھا چنانچہ ہم نے اپنی تیاری بھی اسی مطابق کررکھی تھی۔ گائیڈ کی رہنمائی کے تحت ہم نے پہاڑی راستے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر احتیاط سے قدم بڑھانا شروع کیا تاکہ اس پرخطرسفر کے دوران کو حادثہ پیش نہ آسکے۔ خنجراب قلندرچی سے خاصے فاصلے پر واقع تھا جہاں کا پیدل سفر ایک ہی دن میں طے کرنا ممکن نہ تھا۔ لہذا ہم نے پہلے روز دن بھر چلنے کے بعد شام کو تھکے ہارے ایک تنگ نالے میں کھلے آسمان تلے رات گزار دیا۔ گائیڈ گل شیر اپنے نام کی طرح شیرجیسا ہی تیز اور ہوشیار بندہ تھا جس کی رہنمائی میں سفر انتہائی خوشگوار لگ رہا تھا۔ دوسرے روز نالہ وات خون سے اوپر کی جانب چڑھ کر اوپر سے پھر نیچے نالے میں اتر کر رات گزار دی۔ تیسرے دن صبح پھر سفر پر روانہ ہوئے اور نالہ وات خون کے دشوارگزار راستوں سے ہوتے ہوئے وادی دی میں داخل ہوگئے۔ وادی دی ایک کھلا کشادہ علاقہ تھا جوکہ پانی،لکڑی، ندی نالے میں مچھلی سمیت قدرتی حسن کی رعنائیوں سے بھرپور تھا۔ تھوڑا آگے چلنے پر مال مویشی بھی نظر آئیں جس کے بارے میں گائیڈ سے دریافت کرنے پر بتایا کہ یہ میر آف ہنزہ کی مویشی ہے۔ اسی اثناء ایک نوجوان ہاتھ میں بندوق لئے حاضر ہوا اور تعارف ہونے سے پتہ چلا کہ وہ میر آف ہنزہ کا یارپہ ہے۔ اس نوجوان کا نام امیرحیات تھا جو اپنی بیوی بچوں سے سمیت اس نالے میں رہتا تھا۔امیرحیات نے ہمیں لسی، دودھ اور گھی وغیرہ بھی دیا۔ رخصتی کے وقت گائیڈ نے امیرحیات سے بارخون ویلی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے ہاتھ سے کافی آگے کی طرف اشارہ کیا۔ ان کے اشارے سے ہمیں اندازہ ہوا کہ یارخون وادی دی سے تقریباً آدھے گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ اس کے بعد ہم بارخون کی جانب رخت سفر ہوئے اور اگے ٹھیک آدھے گھنٹے بعد ہم بارخون ویلی میں داخل ہوگئے۔ ہم نے وہاں تھوڑی دیر آرام کے بعد دو نالوں کے درمیان ایک ہموار جگہ پر کیمپ قائم کیا۔ساتھ ہی ساتھ ہم نے سروے آف پاکستان کی ہیلی کاپٹرکی لینڈنگ کے لئے جگہ بھی بنایا اور اردگرد چونا ڈال کر جہاز کی لینڈنگ کے لئے نشان واضح کئے۔ ہم نے رات یہی پراپنے کیمپ میں گزاری۔صبح گل شیر اور دو پورٹرز ہم سے اجازت لینے کے بعد واپس قلندرچی روانہ ہوئے۔ یہ 14جون1961کا دن تھا۔ اس روز میرآف ہنزہ کے یارپہ امیرحیات دوبارہ ہمارے پاس آیا۔ ہم نے امیرحیات سے بارخون کی معلومات لیں اور راستے وغیرہ دریافت کئے۔ یارپہ امیرحیات بڑا مہمان نواز اور خدا پرست انسان تھا۔ انہوں نے ہمیں مارخور کا گوشت کھلانے کی آفر دیتے ہوئے ہم میں سے ایک بندہ اپنے ساتھ پہاڑ پر بھیج دینے کو کہا۔ ہم نے ان کی خواہش کے تحت ابراہیم خان کو ان کے ساتھ روانہ کیاتو ایک گھنٹے کے اندر اندر ایک بڑا مارخور شکار کرکے واپس ہمارے سامنے حاضر ہوئے۔ اسی رات ہم یارپہ امیرحیات کے شکار کے گوشت کا مزہ چکا۔ اگلی صبح سویرے اٹھ کر ہم نے ہیلی پیڈ کی صفائی کی تو ٹھیک دس بجے وادی دی میں ہیلی کاپٹرکی آواز سنائی دی۔ تھوڑی دیر بعد جہاز ہمارے بنائے گئے ہیلی پیڈ کے اندر Hکے نشان پر اتر گیا۔

جہاز کی لینڈنگ کے بعد دو بندے باہر آئے تو ہم نے پہلے ان کو سلوٹ کیا پھر اپنے ساتھ کیمپ میں لاکر مارخور کے گوشت کے کباب اور چائے سے خاطرتواضح کیا۔ چائے کے بعدہیلی کا پائلیٹ وہاں سے رخصت ہوا جبکہ دوسرا صاحب ہمارے ساتھ رہ گئے۔ ان صاحب کا نام جلیل احمد تھا جو بارخون سے چین کے بارڈر تک روڈ کے سروے کی غرض سے آئے تھے۔ پروگرام کے تحت انہوں نے16جون1961سے کام کا آغاز کرنا تھا۔ اس دوران ہمیں گل شیرخان اور میرآف ہنزہ کے یارپہ امیرحیات کی گائیڈنگ درکار تھی۔ امیرحیات نے دو نالے دکھائے جن میں سے ایک کا نام روست دور دوسرے کا نام چپ دور تھا یعنی دائیں اور بائیں کے نالے۔ دائیں کا نالہ سیدھا چین کے بارڈر کراس کرکے پیرعلی اور کاشغر جاتا تھا جبکہ بائیں کا راستہ آگے جاکر ختم ہوتا تھا۔ 16

جون1961کو بارخون کیمپ سے چین کے سرحد کی طرف سروے کا کام شروع ہوا۔ رات ایک تنگ نالے میں گزار دیا جہاں نہ لکڑی میسر تھی نہ پانی۔ بڑی مشکل سے کوپی میں پانی لاکر ہم چھ بندوں نے استعمال کیا۔ جلیل احمد صاحب نے اپنے دستیاب آلات کے ذریعے سروے کا کام شروع کیا اور ہم پیچھے سے نشانات لگاتے گئے۔ یہ سفر انتہائی خوشگوار اس لئے بھی رہا کہ راستے میں مارخور تھے اور ہم روزانہ کے حساب سے مارخور کا شکار کرکے کھاتے تھے۔ اسی طرح ہوتے ہوئے ہم 22جون کو چائینہ بارڈر تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ بارڈر پر جس جگہ ہم پہنچے وہاں پر چائینہ والوں نے پہلے ہی سروے کرکے پتھر وغیرہ رکھے تھے۔ساتھ ساتھ انہوں نے ہمارے لئے بیٹھنے کی جگے کا بھی اہتمام کیا تھاجسے دیکھ کر خلیل صاحب بہت خوش ہوئے۔ یہاں پر قیام کے بعدپاکستانی سروے گروپ سروے ایریاز کا جائزہ لے رہا تھا اس دوران اوپر سے کچھ لوگ آگئے۔ ان لوگوں نے ہمارے پاس پہنچ کر خیریت دریافت کی اور ہمیں پھل فروٹ پیش کیا۔ دراصل وہ لوگ چائینہ سے آئے تھے اور ہماری زبان ان کی سمجھ نہیں آرہی تھی مگر ان کے ترجمان نے دونوں زبانوں کا ترجمعہ کرکے ہمارے درمیان رابطے بحال کردیئے۔ اس دوران خلیل صاحب نے چین سے آئے ہوئے مہمانوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس سروے کے نتیجے میں تعمیر ہونے والی شاہراہ پاکستان اور چین کے مابین تجارتی تعلقات اور باہمی دوستی کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہوگی۔ انہی الفاظ کے ساتھ ہم رخصت ہوئے اور اسی روز دوپہر کے بعد ہم چائینہ بارڈر سے بارخوں کی طرف روانہ ہوئے۔ 22

جون کی رات راستے میں ہی گزاری اور23جون کی صبح منزل کی جانب روانہ ہوئے۔سفر طویل اور راستہ دشوارگزار ہونے کے باعث 23اور 24جون کی رات بھی راستے میں گزر گئی اور یوں ہم25جون1961کو بارخون عارضی کیمپ پہنچ گئے۔ صبح26جون کو گائیڈ گل شیرکے ہمراہ قلندرچی کی طرف روانہ ہوئے اور اسی رات ہم نے نالہ وات خون میں گزاری۔ صبح 27جون کو وات سے روانہ ہوکر سہ پہر تین بجے کے قریب بڑی مشکل سے بلی پل پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ اس دوران خلیل صاحب ہمارے ساتھ ہونے کے باعث سفر خوشگوار اور پرلطف رہا۔ خلیل صاحب نے بلی پل پہنچ کر ہمیں شاباش دی اور اس سفر کو زندگی کا ایک یادگار قرار دیا۔ بلی کے مقام پرمیر آف ہنزہ کی جانب سے بھیجے جانے والے دولیوی گھوڑے لئے خلیل احمد صاحب کے منتظر تھے۔ چنانچہ خلیل صاحب ان لیویز کے ہمراہ گھوڑے پر سوار ہوکر سوست کی جانب روانہ ہوئے جبکہ ہم قلندرچی کے سفر پر چل نکلے۔ اس سفر کے دوران ہمیں ہنزہ کے درجہ زیل نالہ جات کے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں۔
۱۔ منتکہ نالہ، یہ نالہ قلندرچی سے سے آگے واقعہ ہے جوکہ چین کے شہریارقند تک پھیلا ہوا ہے۔ گلگت میں جتنے بھی کاشغری آباد ہیں وہ سب اسی نالے کے راستے سے آئے ہیں۔۲۔ کلک نالہ، یہ نالہ اس زمانے میں دفاعی اہمت کے حوالے سے خاصا مشہور تھا جہاں پر روسی فوجی تعینات تھے۔ ۳۔ دلسنگ نالہ، اس نالے کا راستہ پامیر سے ہوکرروس تک جاتا ہے۔۴۔ چپورسن نالہ، اس نالے کا بارڈر ضلع غذر کے گاؤں اشکومن سے ملتا ہے جہاں سے قدیم زمانے میں مال برداری اور دیگر کاموں کے حوالے سے لوگوں کا آنا جانا رہتا تھا۔ باباغندی کی مشہور زیارت بھی اسی نالے میں واقع ہے۔ شمشال نالہ، یہ نالہ کوز میں چینی فوج کی مظبوط پوزیشن جوکہ1960میں پاکستان کے حوالے کیا گیا۔
نوٹ: اس یادداشت کو منظرعام پر لانے کا میرا مقصدنئی نسل کو پاکستان اور چین کے مابین تعمیر ہونے والے اولین روڈ کے پس منظر سے متعلق اگاہ کرنا ہے۔ کیونکہ اس روڈ کا سروے آج سے چھ دہائی قبل میرے ہاتھ سے ہوا تھا اور بفضل خدا میں آج بھی تندرست وتوانا ہوں۔ اس زمانے میں ہم نے کئی دن اور راتیں پیدل چل کر چائینہ بارڈر تک پہنچ کر اس روڈ کا سروے کیا تھا جبکہ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد سنہ1990میں ہم محض چند گھنٹوں کی مسافت طے کرکے چائینہ بارڈر پہنچ گئے۔ وقت کے ساتھ ہرطرح کے حالات بدلتے ہیں مگریادیں وہی کی وہی رہتی ہیں۔ پاک چین دوستی زندہ باد۔۔۔پاکستان پائندہ باد۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button