شراب کا بل
تحریر: فہیم اختر
سچ اور جھوٹ کا زمانہ گزرگیا ہے اب ’بیانیے‘ کا زمانہ آگیا ہے جس کے حقائق تک پہنچنے میں وقت لگ جائے گا تب تک معاملہ کہیں اور پہنچ چکا ہوگا۔ عمران خان متعدد خوبیوں کے باوجود ناکام حکمران ثابت ہوئے تھے اور روز ایسے فلسفے ’قوم‘ کے سامنے پیش ہوتے تھے کہ جن پر سنجیدہ دنیا ہنسنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتی تھی، یہ تاریخی اعزاز بھی عمران خان کو اسی بنیاد پر ملا کہ پہلی مرتبہ کسی حکمران کو اسمبلی میں ’عدم اعتماد‘ کے زریعے نکال باہر کردیا گیا لیکن عمران خان نے ’بیانیہ‘ اپنایا۔ اس سے پہلے خود عمران خان کے خلاف ’بیانیہ‘ یہ تھا کہ نااہلی کی وجہ سے مہنگائی تھی جسے حکومت مہنگائی قرار دینے کو تیار نہیں تھی، عدم اعتماد کے راؤنڈ ٹیبل کے بعد مہنگائی کا بیانیہ عمران خان کے پاس گیا اور انکار کا بیانیہ پی ڈی ایم کے پاس چلا گیا۔ عمران خان کے پاس مہنگائی کا بیانیہ زیلی ہے جبکہ اصل بیانیہ بیرونی مداخلت باالفاظ دیگر امریکی سازش کا ہے جس کو لیکر وہ سڑکوں پر نکل گئے کہ حامیان کرام سارے خطاء بھول گئے۔
گلگت بلتستان اسمبلی کارکردگی کے اعتبار سے تو عضو معطل بن کررہ گئی ہے، پورا زور لگاکر اگر کوئی اجلاس کیا جاتا ہے تو اس میں معاوضے، مراعات اور تنخواہوں کی بات ہوتی ہے، ایسے میں گلگت بلتستان ریونیو اتھارٹی کا قیام انتہائی اہمیت کا حامل اور ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے جس کو سراہے جانے سے قبل ہی سچ کا جھوٹ اور جھوٹ کا سچ ملا کر اسے شراب کا بل بنادیا گیا۔
وزیراعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید نے کم از کم شراب کے بل والے معاملے پر اپوزیشن کو بالخصوص پیپلزپارٹی کو جھاڑ پلائی وہ حکومت کے چوکنے رہنے کی ایک دلیل ہے۔ گلہ گزاری کسی سے نہیں ہوسکتی ہے لیکن امجد ایڈوکیٹ ’حلقے کی مجبوریوں‘ کے باعث ریونیو اتھارٹی کو شراب کا بل قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں، اس کے علاوہ اور بھی کئی مقاصد ہوسکتے ہیں۔شراب بنانے کی اجازت (غیر مسلموں کے لئے)ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ایکٹ 2018میں دی گئی ہے جس کی تفصیل روزنامہ اوصاف گلگت بلتستان 24اگست کے شمارے میں گزری ہے۔ جی بی ریونیو اتھارٹی میں محض اس شے کو ٹیکس لگانے کے قابل سمجھا گیا ہے چونکہ ایکسائز کی دنیا میں ’انسان‘ کے علاوہ ہر شے پر ٹیکس لگائی جاسکتی ہے۔
’شراب کے بل‘ کے اس بیانیے سے چند چیزیں واضح سامنے آتی ہیں کہ مذہبی جماعتیں جنہوں نے، ’بیانیہ‘ میں رنگ کر، اس بل کی مذمت کی وہ قانون سازی کے اہل ہی نہیں ہیں کیونکہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ایکٹ 2018کے دوران بھی تین مذہبی جماعتیں گلگت بلتستان اسمبلی میں موجود تھیں۔ اپنے سیاسی مفادات کے لئے شراب کو شہد بنانے اور شہد کو شراب بنانے کے لئے کوئی بھی کسر باقی نہیں چھوڑتے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے پاس گلگت بلتستان میں بھی صرف وہ برگئیڈ موجود ہے جو اونچی آواز میں گالم گلوچ کرنے یا پھر مخالفین کی ذاتیات پر کیچڑ پھینک کر اپنے سیاسی وجود کا یقین دلاسکتی ہے تاہم اپنے کام اور کارکردگی کو سامنے رکھ کر کبھی بات نہیں کرسکتی ہے حالانکہ اسمبلی فعال ہو تو اچھے کام ’تُکے‘ میں بھی نکل سکتے ہیں۔جن چیزوں کو 20دنوں کے بعد خالد خورشید نے میڈیا کے سامنے رکھ دیا وہ ان کے دائیں بائیں بیٹھے اراکین حکومت 2دن میں بھی پیش کرسکتے تھے۔
گلگت بلتستان کا پاکستان سے تعلق اور صوبائی حکومت کا وفاق سے تعلق ہمیشہ کی طرح سوالیہ نشان بن کر کھڑا ہے اور اس کے نتیجے میں جن چیزوں کا نقصان ہوتا رہا ہے ان میں شہری شعور اور شہریت کا فقدان بھی شامل ہیں۔ متنازعہ حیثیت کی بنیاد پر ٹیکس نہ دینے کا موقف اصولی طور پر تو ٹھیک ہے لیکن اس کے فائدے اور نقصانات کو خود دیکھنے کی ضرورت ہے۔ پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر اور حزب اختلاف کے قائد امجد ایڈوکیٹ کہتے رہے ہیں کہ علاقہ متنازعہ ہوتا ہے شہری اور حقوق متنازعہ نہیں ہوتے ہیں تو لازم ہے کہ فرائض بھی متنازعہ نہیں ہوتے ہیں، 8 ارب کا معاوضہ برائے متنازعہ علاقہ کا سودا بہت مہنگا ثابت ہوتا جارہا ہے۔ نواز خان ناجی بھی متعدد جگہوں پر واضح اعلان کرچکے ہیں کہ حقوق اور فرائض لازم و ملزوم ہیں ہم حقوق کی بات کرتے ہیں لیکن فرائض کی بات نہیں کرتے ہیں جتنے فرائض ادا ہوں گے اتنے حقوق ملیں گے۔
ریونیو اتھارٹی کے قیام پر تنقید اس لئے بھی بے معنی ہے کہ اس کے اکثریتی معاملات کا تعلق غیر مقامی افراد، جو گلگت بلتستان سے باہر کے ہیں، کے ساتھ ہے۔ مثلاً سالانہ لاکھوں سیاحوں کی اس علاقے میں آمد سے مجموعی طور پر کیا فائدہ ملتا ہے؟ چند ٹورآپریٹرز یا ہوٹلوں کے علاوہ یہی پیغام ملتا ہے کہ گلگت بلتستان پر امن خطہ ہے اور اس پیغام کا مقصد بھی مزید سیاحوں کو اس علاقے کی طرف راغب کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اگر سیاحوں سے جڑی چیزوں پر فیس عائد کی جاتی ہے اور جی بی حکومت کے اکاؤنٹ میں جمع کی جاتی ہے تو عام آدمی کا کیا نقصان ہے؟ ہوٹلوں کے کمرے، ٹینٹ لگانے،مختلف اضلاع یا پھر سیاحتی مقام پر داخل ہونے جیسے معاملات پر فیس عائد کی جانے میں کیا حرج ہے؟ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی اپنی خدمات دینے کے باوجود اپنی تنخواہ وصول نہیں کرپارہے ہیں؟ یہاں پر چند مقامی لوگوں کو اپنے ساتھ ملاکر بڑے بڑے صنعتیں یا پھر ہوٹلز کھڑے کئے جارہے ہیں جن کا عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں ہے البتہ قدرتی وسائل پر ایک بوجھ ضرور ہے۔ گلگت بلتستان اسمبلی اس معاملے میں یقینا بااختیار ہے کہ وہ مقامی سطح پر ریونیو اتھارٹی کا قیام عمل میں لائے اور جی بی ویسٹ مینجمنٹ کی فیس حافظ حفیظ الرحمن کے دور میں شروع ہوئی تھی جس کا باضابطہ نوٹیفکیشن ہوچکا۔بالواسطہ تمام ٹیکسز دینے کے باوجود ’ٹیکس نامنظور‘ بھی ایک بیانیہ ہے۔
ریونیو اتھارٹی کا معاملہ ا تنا آسان بھی نہیں بڑا نازک ہے، اس کے استعمالات سے لیکر تمام چیزوں کو حکومت نے باریک بینی سے دیکھنی ہے۔ دیگر صوبوں میں ٹیکس مرکز میں جمع ہوتا ہے اور این ایف سی کے زریعے تقسیم ہوتا ہے، گلگت بلتستان کا بالواسطہ ٹیکس مرکز میں جمع ہوجائے اور جبکہ بلاواسطہ ٹیکس صوبائی حکومت کے پاس جمع ہوجائیں۔
خالد خورشید کو اب یہ بات زہن نشین کرلینی چاہئے کہ ان کی حکومت کو تقریباً دو سال مکمل ہورہے ہیں۔ سابقین پر بیان بازیوں پر وقت گزارنے سے کچھ نہیں ہوگا۔عمران خان اور پی ڈی ایم کی لڑائی کو گلگت بلتستان تک پھیلائیں، اس لڑائی کا کوئی بھی فائدہ نہیں ہے، حافظ حفیظ الرحمن نوازشریف کے دور میں ایسی لڑائی لڑچکے ہیں لیکن نتیجہ صفر رہاہے۔ جس طرح سیلاب متاثرین کو آپ نے اپنی موجودگی کے زریعے ہمدردی دکھائی ہے اسی طرح دیگر معاملات پر بھی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کو بھول کر آگے آنے کی ضرورت ہے۔ ’جعلی فرقہ پرستی اور جعلی قوم پرستی‘ کی راگ سے زرا باہر نکلیں اور جعلی گورننس، جعلی حاضری، جعلی علاج، جعلی تعمیرات، جعلی اشیاء خوردنوش، جعلی ادویات، جعلی تعلیم اور جعلی سیاست کے خلاف میدان میں اتریں۔ جتنی توجہ عمران خان کی حکومت بچانے، اس کو گرفتاری سے بچانے یا پھر وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ میں عید میلاد النبی منعقد کرانے پر دی ہے اتنی توجہ دیگر معاملات پر دیں تو نظام بہت بہتر ہوجائے گا، مرکز کے ہیروز کا بیانیہ گلگت بلتستان میں نہیں چل پاتا۔ اس وقت عمومی طور پر تو ماحولیاتی یا سیلابی ایمرجنسی نافذ ہے لیکن کس نے نافذ کی ہے، کون امور دیکھ رہا ہے، ہر طرف سے صرف پیسوں کے اعلانات ہورہے ہیں اور بحالی کے لئے کوئی اقدام نظر نہیں آرہا ہے۔وزیراعظم شہبازشریف نے بوبر غذر کا دورہ کیا اور اگلے روز متاثرین کو معاوضہ جات ادا ہوگئے اور متبادل رہائش کے لئے کام تیزی سے جاری ہے اسی طرح وزیراعلیٰ گلگت بلتستان بھی اعلانات پر فوری جامہ پہنائیں۔تاکہ تحریک انصاف کوکارکردگی کا ایک ’بیانیہ‘بھی مل سکے۔