لینگ لینڈ سکول کے اساتذہ اور استانیوں کی ملازمت سے برخاستگی کا فیصلہ فی الفور واپس لیا جائے۔متحدہ طلبہ محاذ
چترال (بشیر حسین آزاد) چترال کے معروف اور قدیم تعلیمی ادارہ لینگ لینڈ پبلک سکول اینڈ کالج سے گزشتہ دنوں متعدد اساتذہ اور استانیوں کی ملازمت سے برخاستگی پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے متحدہ طلبہ محاذ کے رہنماؤں قاضی وقار اقبال، اشفاق احمد ، امتیاز حسین، شیخ رشید عالم شاہ، امیر الدین، فضل داؤد اور دوسروں نے اس عمل کو سکول کی غیر ملکی خاتون پرنسپل شوفیلڈ کیرولینا مونیکا الزبتھ المعروف مس کیری کا غیر قانونی اور من مانی کاروائی قرار دیتے ہوئے اس ظالمانہ فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے ۔ بدھ کے روز چترال پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ملازمت سے برخاست کئے جانے والے ٹیچرگزشتہ اٹھارہ سے لے کر 23سال تک اس سکول میں تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے لیکن ان کو بیک جنبش قلم ملازمتوں سے فارغ کرنا ان کے ساتھ سراسر ذیادتی ہے جس سے سکول کے دیگر ٹیچروں ، طلباء وطالبات اور ان کے والدین میں بے چینی پھیل گئی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ یہ ادارہ چترال میں معیاری تعلیم کے لئے گزشتہ 25سالوں سے ایک منفرد نام کا حامل ہے جہاں سے فارغ التحصیل اسٹوڈنٹس اب مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں جن میں موجودہ ڈی۔ پی ۔او چترال بھی شامل ہے ۔ انہوں نے کہاکہ اگر اٹھارہ سالوں سے اس سکول میں کام کرنے والے یہ ٹیچرز نااہل ہیں تو اس سکول کا معیار کس طرح دوسرے اداروں سے ممتاز ہوا ۔ متحدہ طلبہ محاذ کے رہنماؤں نے زور دے کر کہا کہ موجود ہ پرنسپل نے گزشتہ سال سکول کا چارج سنھبالنے کے بعد سے ٹیچروں کو بلاوجہ اور ذاتی پسند اور ناپسند کی بنا پر ملازمت سے فارغ کرنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے جن کی تعداد پندرہ سے تجاوز کرگئی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ملکی قانون اور دستور کے مطابق بھی اٹھارہ سال ایک ادارے میں سروس کرنے اور سرکاری ملازمتوں کے لئے زائد العمر (اور ایج) ہونے والے ٹیچروں کو اس طرح ملازمت سے فارغ کرکے غیر ملکی خاتون نے ملکی قانون کی دھجیاں بکھیردی ہے جس کا سخت نوٹس لیا جانا چاہئے جبکہ یہ سکول سرکاری ایڈ سے چلتی ہے اور گزشتہ سال دسمبر کے مہینے میں اسی پرنسپل نے صوبائی حکومت کی طرف سے 12کروڑ روپے کا چیک صوبائی حکومت کی طرف سے لے لیا تھا۔ طالب علم رہنماؤں نے کہاکہ وہ اپنے ٹیچروں کے ساتھ ایسے ناروسلوک کو کبھی بھی برداشت نہیں کرسکیں گے ۔ انہوں نے سکول کے قانونی مشیر عبدالولی خان ایڈوکیٹ سے استفسار کیا کہ کیا اس طرح کی غیر قانونی اور ماورائے دستور قدم اٹھاتے ہوئے سکول پرنسپل نے ان سے قانونی مشاورت کی تھی اور اگر نہیں کی ہے تو وہ خاموش کیوں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کو اگر فی الفور واپس نہ لیا گیا تو طلبہ برادری احتجاج پر اتر آئے گی۔