چترال (سیدنذیرحسین شاہ ) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثارنے کہا ہے کہ ہم میں پاکستانیت کو جگانے اور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے اور جس وقت پاکستانیت کا جذبہ بیدار ہوجائے تو اسی دن مسائل بھی حل ہوں گے اور ہمیں اس بات پر انتہائی فکر مند ہونے کی ضرورت ہے کہ ہم نئی نسل کو کوئی قیمتی چیز کی بجائے فی کس ایک لاکھ سترہ ہزار روپے کا قرض دے رہے ہیں اور ہمیں ان قرضوں سے بھی نجات حاصل کرنا ہوگا۔ ہفتے کے روز ڈسٹرکٹ بار روم چترال میں وکلاء کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ہمیں دیانت داری کی عادت کو اپنا نا چاہئے اور اس عمل کو ہمیں ہر ایک کو اپنی ذات اور اپنے گھر سے ہی شروع کرنا ہے۔ا نہوں نے بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کا نام لئے بغیر کہاکہ ہمیں اس پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے اور یہ مسئلہ آگے جاکر گھمبیر صورت اختیار کرسکتی ہے اور ملک کے مخالفین اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو قوت کے ذریعے زیر کرنا ممکن نہیں ہے اس لئے وہ اس کے خلاف سازشوں کا سوچ رہے ہیں اور ملک میں پانی کا قلت پیدا کرنا بھی سازشوں کا حصہ ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے کہاکہ انہوں نے کبھی بھی بار اور بینج میں تفریق روا نہیں رکھا کیونکہ دونوں انصاف کے حصول کے ذرائع ہیں اور ایک ہی جسم کے دو حصے ہیں جن کے درمیان ربط نہ ہونے کو مغذوری کا نام دیا جاتا ہے ۔ انہوں نے چترال میں سڑکوں کی خراب انفراسٹرکچر پر انتہائی مایوسی کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ اکیسویں صدی میں چترال کے روڈ خچر کے بھی قابل نہیں ہیں اور اس بات پر حکمرانوں سے آئین کے تحت باز پرس بھی کی جائے گی کیونکہ سڑک بنیادی سہولیات میں سے ایک ہے اور موجودہ صورت حال ناقابل برداشت ہے۔ انہوں نے لواری ٹنل کو چوبیس گھنٹے کھلا نہ رکھنے کا نوٹس لے لیا ہے اور چیر مین نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو پانچ دنوں کے اندر جواب طلبی کی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال میں اسٹاف اور ادویات کی کمی کو پورا کرنے کے حوالے سے کہاکہ انہوں نے حکومت کو تین ماہ کی مہلت دے دی ہے جبکہ ادویات کی پروکیورمنٹ میں ٹیسٹنگ کے مرحلے کو سہل تر بنادیا ہے۔ انہوں نے چترال میں پشاور ہائی کورٹ کے سرکٹ بینچ اور سنگل بینچ کی باقاعدگی کا بھی اعلان کیا جبکہ پشاور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس سے موقع پر ہی ٹیلی فون پر بات کرنے کے بعد بونی اور دروش میں ججوں کی کمی پوری کرنے کا بھی اعلان کیا۔ اس سے قبل ڈسرکٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر خورشید حسین مغل اور خیبر پختونخوا بار کونسل کے رکن عبدالولی خان عابد ایڈوکیٹ نے چیف جسٹس کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا ۔ انہوں نے پیسکو کی طرف سے بجلی کے من مانی رقم کی بل بھیجنے، شندور، گرم چشمہ، کالاش اور اویر تا تریچ روڈ کے منصوبہ جات سمیت چترال میں ایل پی جی ٹینک کی تنصیب کے ذریعے گھروں میں گیس کی فراہمی کے منصوبہ ، اپر چترال کے ریشن ہائیڈرو پاؤر ہاؤس کی دوبارہ تعمیر میں حکومت کی لیت ولعل، ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال میں اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی کمی اور دریائے کابل کو دریائے چترال کا نام دینے کے ذکر کیا۔
پامیر ٹائمز
پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔
یہ بھی پڑھیں
Close
-
حالیہ برفانی آفت اورسیاسی دعوؤں کے تناظر میں چند گذارشاتفروری 11, 2017