فلسفہ اور شاعری
تحریر: محمود علی فتاکن
اگر انسان کی تاریخ کو کھول کر دیکھ لیا جا یئے تو ہمیں صاف نظر آجاے گا کہ صدیوں سے کتنی عظیم شخصیت ہو گزری ہیں اور کتنے ہی ظالم حکمران بھی اس فانی دنیا سے کوچ کر چکے ہیں۔ حکو مت کی بات جب ذہن میں نمودار ہوتی ہے تو کسی خوشحال دور ِحکومت کو یاد رکھا جاتا ہے اگر چہ کچھ حکمران ہمیں ایسے ملتے ہیں کہ جو انسان دوست تھے ٗ انھوں نے اپنی حکومت کے دوران اپنی رعا یاسے ہمیشہ خوشدلانہ انداز میں پیش آیئے ہیں تاکہ رعا یاکو حکومت میں انصاف ملے۔ قدیم زمانے میں جنگیں لڑی جاتی تھیں اور لاکھوں لوگ اس حولناک حادثے کی بدولت جان کھوں بیٹھتے تھے جس کے نتیجے میں انسانی زندگی کی کویئ قدر نہیں تھی‘ وحشی اور حیوانی کردار عام تھے کیونکہ مختلف قبیلے ایک دوسرے سے لڑیئیاں لڑتیں تھیں۔ معمولی فرق کو اپنا توہین سمجھتے تھے ا ور ضد کا نام قوم پرستی رکھا جاتا تھا جو کہ حقیقت کے برعکس تھا۔
ہر معاشرے میں الگ الگ قسم کے دانشور لوگ پیدا ہوے ہیں جن کا کردار انسانی سوساٹئی میں نمایاں ہیں۔ جب انسان طرح طرح کے قبیلوں میں بسنا شروغ کیا تو لوگ تقسیم ہوتے گیئے یہاں تک کہ مختلف فرقوں اور قوموں میں تقسیم ہو گیئے۔ایک قوم دوسری قوم سے برتری حاصل کرنے کے لئے ہر قسم کا ہربہ اپناتی تھی اخرکار اس دوران مذاہب وجود میں ایے۔قدیم اور عظیم فرعون کا دورِحکومت شروغ ہو گیا ٗ اس کا آغاز مصر کے دریا نیل سے کیا جاتا ہے اگر چہ بعد کے آنے والے مذاہب نے فرعون کی حکومت کو شیطانی حکومت قرار دیا حالانکہ اس زمانے کو دیکھا جایئے تو انسان کی اول سیولئزیشن کا دور تھا۔ اگر قدیم مصری لوگ نہ ہوتے تو شاید آج ہم کوسوں سال پیچے رہ چکے ہوتے۔یہ تو حکمران ہویئے! ابھی ہم جس بیمار معاشرے کی بات کر نے جا رہے ہیں کیا اس معا شرے کے لیے کویئ عظیم یا جاہل حکمران کی صرورت ہے؟ جو اس کا علاج ڈھونڈ لے؟
بیمار اور لاچار معاشرے کے لیے ایک ہی دوایئی درکار ہوتی ہے وہ دوایئی صرف اور صرف فلاسفر اور شاعر کے پاس موجود ہوتی ہے، شاعر اور فلاسفر کو نہ تخت کا نشہ ہوتا ہے اور نہ ہی عیش و عشرت کا۔ آج فلاسفی پر نہیں بلکہ شاعری پر کچھ قلم چلاتے ہیں۔ معاشرے میں عجیب و غریب مسایئل پایئے جاتے ہیں اس دوران شاعر زیادہ تر غریب ولاچار طبقوں پر ظلم و جبر کے خلاف لکھتا ہے عموماً تاریخ میں جو بھی شاعر آیئے انھوں نے تنقیدی شاعری کی؛ تنقیدی شاعروں میں ’ڈی۔ایچ۔لیورینس‘ جو کہ انگلش ناولیسٹ، نقاد، شاعر اور فلاسفر تھے۔ ڈی ایچ لیئورینس کی نظم (وزلینگ آف برڈز)مجھے بہت پسند ہیں کیونکہ یہ نظم بہار اور خزاں کے موسم پر مبنی شاعری ہے۔اس کے علاوہ لیئورینس کی ایک ناول مشہور ہے "Women In Love” جس میں فلاسیفیکل پوایئنٹ آف ویو پیش کیا گیاہے، لکھاری اس ناول میں سوشل لایئف پر مبنی کہانی میں انسانی موت کے بعد کی زندگی پر فلاسیفیکل نظریہ بیان کیا ہیں۔اور دوسرے جتنے بھی شاعر گزرے ہیں انھوں نے غلامی کے خلاف آواز بلند کی لیکن کویئی شاعری ماضی میں رومینٹِک نہیں لکھی گیئ۔ انگلش رایئٹر اور مشہور شاعر (ویلیم ورٹس ورتھ) جس نے فطرت کی خوبصورتی پر نظمیں لکھی۔ اِن کے نظمیں رومینٹِک تھیں اور نیچر پر مبنی شاعری کی تھی جو کہ آج بھی کثرت سے پڑھی جاتی ہے۔ ورٹس ورتھ نے انڈسٹریل لایئف کو خیرباد کہہ کر لیک ڈسٹرک چلے گئے جہاں انھوں نے بہت ساری قدرتی مناظر پر نظمیں لکھی، ان میں سے ایک نظم ’Daffodils‘ بہت مشہور ہے۔انگلش لیٹریچر میں ویلیم ورٹس ورتھ کا بڑا نام ہیں اس کے بغیر انگلش لیٹریچرنا مکمل ہیں۔
رومینٹِک شاعری کی بات کی جایئے تو (جون کٹس)کا نام سرِفرست ہیں، رومینٹِک شاعری کی بنیاد جون کیٹس (جو کہ ایک انگلش شاعر تھے)نے رکھی اور تاریخ کے اوراق میں اول شخص بن گے ئ جس نے محبت پر شاعری کی اور ثابت کر دیا کہ عشقِ حقیقی تک پہنچنے کے لیے لازم ہے کہ فرد کو عشق میزاجی پر مضبوطی حاصل ہو۔عشق و عاشقی دونوں فطری چیزیں ہیں یہی وجہ ہے کہ ہر معاشرے میں پایئ جاتیں ہیں۔اس کے علاوہ عشق کسی بھی چیز سے ہوسکتی ہے مثلاً: باغ میں رنگِ بے رنگے پرندے، پھول، سر سبز وشاداب میدان ہوتے ہیں جن کی خوبصورتی پہ آپ مر مٹتے ہیں اور شاعری لکھتے ہیں، اسی کو رومینٹِک شاعری کہتے ہیں۔
رومینٹِک شاعری دو قسم کی ہوتی ہیں، ایک شاعر تصور میں اپنی محبوبہ(جس چیز یا شخص پر اپ مصرے لکھتے ہیں) کی ہنسی اور آنکھوں کی تعریف اپنے فنکارانہ الفاظوں میں سماں دیتے ہیں اور شاعر خیال ہی خیال میں محبوبہ کا خاکہ تیار کرتے ہیں۔ اکثر رومینٹِک شاعری ہمیں محبوبہ کی ظاہری حسن و خوبصورتی کو ظاہر کر تی ہیں۔دوسرا وہ شاعری ہیں جن کو پڑھنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ شاعر کا محبوب انتہایئ حسین اور لاجواب ہیں، شاعر کے تعصورات سے صاف اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حقیقی زندگی میں محبوب سے اِن کا واسطہ ہیں۔اِنہی فنکاروں میں جون کیٹس کا نام فرست میں ٹوپ پر ہیں۔ جون کیٹس ایک نوجوان اور بہت خوبصورت انسان تھے،وہ ۵۹۷۱ میں پیدا ہوے۔ جون کیتس کی زندگی انتہایئی مختصر گزری ہیں اور ۱۲۸۱ میں وہ فوت ہویئے۔اس مختصر سی زندگی میں جون نے کچھ نظمیں لکھی جو اس کے مرنے کے بعد بہت مشہور ہو یئں (Ode to a Nightingle,Ode on melancholy)شامل ہیں، اِن کے قریبی دوست ’پی۔بی۔ شیلے‘ کا بھی شمار رومینٹِک شاعروں میں ہوتا ہیں، اپنے دوست کی طرح پی بی شیلے بھی کم عمر ی میں مر گیئے۔ اِن دو دوستوں کے دنیا سے رخصت ہو نے کے بعد رومینٹِک شاعری تھم سی گیئ اور بِل آ خرزوال پذیری کا شکار بنی۔جون کیٹس کی موت کی اصل وجہ کیا تھی جس نے اتنے عظیم شخص کی جان لے لی؟ اس کا جواب خود اس کے بایوگرافی میں اپ کو ملے گا، جی ہاں! جون کیٹس کے خاندان میں ایک مہلک وایئرس اس کے ماں کے ڈی این اے میں موجود تھا جس کی وجہ سے وہی وایئرس جون کے خون میں شامل ہو گیااور آ خرکار اس مرض نے جون کیٹس کی جان لی، یہ بیماری ’ٹی بی‘ تھی۔
کچھ ایسے بھی ناول ہمیں مل رہے ہیں جن کو پڑھنے سے شاعری محسوس ہوتی ہیں حالانکہ وہ شاعری نہیں ہوتی۔برازیل کے ایک ناولیسٹ جس نے کہیں کتابیں لکھی ہیں، اِن کی ناولز کے جملے شاعری کی انداز میں لکھی گیئ ہیں، جی ہاں! ’Paulo Coelho‘۔حال ہی میں پایئلو کے کتابیں بہت مشہور ہورہی ہیں اورکثرت سے پڑھی جاتی ہیں، امن کا نوبل پرایس بھی ان کو مل گیئ ہے۔ ان کی ساری کتابیں مزیدار اور دلچسپ ہیں جہاں انسان کی ذاتی زندگی پر مبنی کہانیاں لکھی گیئ ہیں اورمیرا سب سے پسندیدہ ارتھر ہیں۔ ان کے علاوہ لبنانی امریکن شاعر ’خلیل جبران‘ کی شاعری میں بھی لوگ انٹرس لے رہے ہیں۔ ’سینڈاینڈ فام‘ اور ’دی پروفٹ‘ ان کی مشہور کتابیں ہیں۔ آخر اس قسم کے شاعر ہمارے معاشرے میں بھی کیوں پیدا نہیں ہو رہے ہیں؟ اس کے پیچے کویئ بڑی وجہ ہوگیئ؟