“اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے”
سوات کے علاقے مدین میں ایک واقعہ کیا رونما ہوا تمام لوگوں نے آسمان سر اٹھا لیا جیسے ہمارے عدم برداشت، مذہبی انتہا پسند ی اور فکری جمود کے شکار معاشرے میں یہ کوئی عجیب و غریب یا انوکھا واقعہ وقوع پذیر ہوا ہو ۔سوشل میڈیا پر لوگ دَھڑا دَھڑ پوسٹیں کرکے مذمت کر رہے ہیں اور اس حوالے سے مغز ماری کرتے ہوئے یہ دلائل دے رہے ہیں کہ ”دیکھیں جی! اسلام ایک امن کا مذہب ہے بس یہ کچھ لوگ ہیں جو مذہبی طور پر جزباتیت کا شکار ہوکر ایسی حرکیتیں کرتے ہیں مگر اسلام اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتا اور پاکستان ایک پر امن ملک ہے” جبکہ کچھ لوگ مذہبی اور قبائلی طرز زندگی کے حامل علاقوں کا رخ کرنے سے اجتناب کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں مگر جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ اس واقعے پر خود کو ورطہ حیرت میں ڈالنے کی ہرگز ضرورت ہے کیونکہ ہمارےمعاشرے میں نہ یہ پہلا واقعہ ہے اور نہ آخری۔ ماضی میں درجنوں ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں اور مستقبل میں رونماہونگے ۔سوشل میڈیا پر کئی لوگ اس کی مذمت کرتے اور تشویش کا اظہار کرتے نظر آئیں گے ،حکومتی عہدیداران کی جانب سے ایسے واقعات کو رد کرتے ہوئے ملوث افراد کو قانون کے شکنجے میں لانے کے بیانات اخبارات کی زینت بنیں گی ،کچھ واقعات میں اصل مجرموں کا بال بھی بیکا نہیں ہوگا اور کچھ میں گرفتار بھی ہوئے تو پولیس اور وکلاء اور ججز کے دل میں ان کے لیے نرم گوشہ ہوگا اور ان کو جیلوں میں مکمل عزت و احترام سے نوازا جائے گا اور ان کو کسی ہیرو کی حیثیت حاصل ہوگی ۔وقت گزرتا جائے گا اور اگلے کسی واقعے کے رونما ہونے تک مکمل خامشی چھا جائے گی۔
اس واقعہ پر کچھ لوگوں کی جانب سے مذہبی اور قبائلی طرز زندگی کے حامل علاقوں کا رخ کرنے سے اجتناب کرنے کی بات مجھے معقول لگی مگر عرض کرتا چلوں کہ پاکستان میں مذہبی جنونیت کا رجحان یا میلان قبائلی علاقوں یا چھوٹے شہروں یا قصبوں میں کچھ زیادہ ضرور ہے مگر اب ملک کے بڑے شہر بھی اس سے محفوظ نہیں اور مذہبی جنونیت اب تو "عالم اسلام کا قلعہ”،”مملکت خداداد پاکستان” کے شہریوں کے رگوں میں سرایت کر گئی ہے۔اسلام آباد ہو یا لاہور، کراچی کو یا پشاور، ہر ایک کلو میٹر کے فاصلے پر کوئی نہ کوئی مدرسہ یا مسجد آپ کی منتظر ہوگی مگر واضح رہے کہ اس مذہبی جنونیت پر محض مدارس کو ہی ہرگزقصوروار نہیں ٹھہراتا جا سکتا۔ ہمارا تعلیمی نظام ، گھریلو نظام اور عدالتی نظام وغیرہ سبھی اس میں قصوروار ہیں۔تعلیمی نظام اس لیے کہ جس ملک کی درسی سائنسی کتب کا آغاز "بسم اللہ الرحمان رحیم” یا "ایمان ،اتحاد ، تنظیم”سے ہوتا ہو یا درسی انگریزی کتب کا آغاز اسلامی تاریخ کے جنگجوؤں کے کارناموں سے ہوتا ہو جنہوں نے درجنوں "کفار” کو مختلف جنگوں میں "واصل جہنم”کیا ہو توہم اپنی آنے والی نسل سے کیسے توقعات رکھتے ہیں کہ کوئی سائنسی سوچ پروان چڑھے یا قوت برادشت ،صبر و تحمل اور مثبت سوچ کی حامل شخصیات جنم لیں ۔ اسی طرح مذہبی جنونیت کے سبب پیدا صورتحال میں گھریلو نظام اس لیے قصور وار ہے کہ ہم اپنے معصوم بچوں یا بچیوں کو سکول کے بعدشام کے اوقات میں دینی تعلیم کے لیے محلے کی کسی مسجد کے مولوی صاحب کے پاس بجھوا دیتے ہیں جو یہ "کارِ خیر” "فی سبیل اللہ” سر انجام دیتا ہے جبکہ ہم”اپنے بچوں کو دین و دنیا دونوں میں سرخرو” کرنے کے جنون کی حد تک متمنی نظر آتے ہیں۔ بچوں کے اذہان کورے کاغذ کی مانند ہوتے ہیں اس پر جو ثبت کیا جائے گا وہ تحریر پوری زندگی ان کے ساتھ رہے گی۔ اب ہمارے بچے عدم برداشت اور مذہبی جنونیت کے حامل مولوی (99فیصداسی سوچ کے حامل ہیں)کے زیر تربیت یا رحم و کرم پر ہوں تو عدم برداشت ، انتہا پسند اور عدم برداشت کا حامل ایک معاشرہ ہی جنم لے سکتا ہے۔اسی طرح عدالتی نظام کی بات کی جائے تو ایسے واقعات میں سب سے پہلے ایف آئی میں تاخیر ہوتی ہے اور پولیس گرفتار کرکےعدالتوں میں پیش کرے تو پھر ججز پرسوسائٹی کا پریشر ہوتا ہے یا وکلاء یاججز خودان مجرموں کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں جس کے سبب ایسے واقعات کی حوصلہ شکنی ہونے کے بجائے حوصلہ افزائی ہوتی ہے جبکہ گزشتہ 77 سال میں ریاستی اداروں نےمذہبی جنونیت اور انتہا پسندی کی آبیاری یا حمایت کی اور انہیں اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا ہے۔
یاد رہے کہ پہلے پہل ہمارے معاشرے کے مذہبی جنونیت اور عدم برداشت کا شکار کرنے کی نرسریاں مدارس ہوتی تھیں مگر اب توسیاستدان،ججز،صحافی، لکھاری سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے تقریباَ سبھی افراد اس میں برابر کاکردار ادا کر رہے ہیں۔ یو نیورسٹی، روزگار کی جگہ ،کسی چائے خانے یاہوٹل وغیرہ میں محفل جمائےکسی مذہبی قصیے کی بات چھیڑ دیجیے چند ہی لمحے میں اور ان کی فکری تنزلی یا قوت برداشت صاف عیاں ہوجائے گی۔ ایک عقلیت پسند فرد ہمارے معاشرے میں آج کس گھٹن اور اذیت کے ساتھ زندگی گزارتا ہے جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ کالج، یونیورسٹی اور پھر روزگار کی جگہ اسے اپنے نظریات اور افکار کا کھل کر اظہار کرنے میں خوف دامن گیر ہوتا ہے۔ہر جگہ نماز ، روزہ اور دیگر دینی پریکٹسز کی دعوت دیتے ہوئے "نجات” کی دعوت دینے والے ہر فرد سے ایک وحشت محسوس ہوتی ہے مگر جس طرح ایک مذہبی معاشرے میں ان کا خمیر بنا ہے اس میں دلیل اورمنظق کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔”مذہبی معاملات کو دلیل اور منطق کی رو سے نہیں دیکھ جاتا” ان کا تکیہ کلام ہوگا۔ بس بزرگوں نے جو کیا ہے ہم نےاسی کو آگے بڑھانا ہے۔آج مدین واقعے پرسوشل میڈیا پر جو لوگ "اسلام کے پرامن مذہب” ہونے کا راگ الاپ رہے ہیں یا کچھ لوگ خود کو روشن خیال اور ماڈرن ظاہر کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں آج ہی تھوڑا سا ٹائم نکال لیجئے اورآپ اسلام آباد کے کسی ماڈرن ریسٹورنٹ میں محفل جما کر اگر ان کے ساتھ عقل اور منطق کی بنیاد پر کسی مذہبی قضیے کو سلجھانے کی کوشش کریں گے اور کھل کے دلائل کے ساتھ بات کریں گے تو بات اشتعال تک ضرور پہنچے گی اور ان کے اصل چہرے سامنے آنے میں دیر نہیں لگے گی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ خواہ پاکستان میں کسی بڑے شہر میں رہتے ہوں یا کسی چھوٹے گاوں قصبے میں۔ صاحب ِعقل افراد سے گزارش ہے کہ اپنے ہم خیال محفلوں میں ہی کھل کر اپنے نظریات کا اظہار کریں۔ اچھی کتب، سبق آموز فلموں اور صاحب علم اور پاکستانی معاشرے کےمیزان کے مطابق گمراہ کن لکھاریوں کے مضامین سے اپنی فکری اڑان کو بلند اور فکری بالیدی کو بہتر کرتے رہیے مگر اپنے زلف تراش اور ٹیکسی ڈرائیور، دفتر کے ساتھیوں سے خاص احتیاط کی ضرورت ہے وہ گفتگو کو طول دے کر لاکھ کوشش کریں گے آپ اپنے نظریات کا کھل کر اظہار کریں مگر آپ نے ان کے کسی چال میں نہیں آنا۔
اپنی گفتگو میں "الحمد اللہ”، "سبحان اللہ” اور "اللہ اکبر” کے کلمات کا کثرت سے استعمال کریں اور اگر مناسب لگے تو ہاتھ میں تسبیح ضرور رکھیں اس سے جان کی امان ممکن ہے اور اپنے بچوں اور پیاروں کو مذہبی نظریات کے حامل افراد خصوصا َمولویوں کی صحبت سے دور رکھیں کیونکہ موجودہ عہد میں مذہبی جنونیت ہمارے معاشرے کی رگوں میں اس قدرسرایت کر گئی ہےکہ مستقبل قریب میں اس میں کمی کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آتے اور "اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے” کے مصداق ہر فرد کو دوسرے فرد کی آخرت سنوار کر خوب ثواب کمانے کی فکر دامن گیر ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی کا خوب ثواب کمانے کا جنون آپ کے قیمتی جان کے ضیاع سے پورا ہو کیونکہ یہ بے رحم "دیندار لوگ ” کسی بھی وقت ،کسی بھی شہر/گاؤں یا کسی بھی مقام پر توہین مذہب اورتوہین رسالت کا بے ثبوت الزام لگا کر آپ کے جان کے درپے ہو سکتے ہیں۔