فیچرکالمز

بلتستان کا تاریخی ورثہ اور نقوش پارینہ

تحریر رشید ارشد

تاریخی ورثہ اور تاریخی نقوش کسی بھی قوم کی عظمت رفتہ کا پتہ دیتے ہیں اور آنے والی نسلیں اپنے ماضی رفتہ کو سامنے رکھ کر مستقبل میں نقب ڈالتیں ہیں،ذندہ و باشعور قومیں ہمیشہ اپنے ماضی کی تاریخ،تاریخی ورثہ اور اسلاف کی داستانوں کو محفوظ کر کے مستقبل سے شناسا ہوتیں ہیں،دنیا کے باشعور ممالک اور معاشروں میں تاریخی ورثے کی سب سے زیادہ حفاظت کی جاتی ہے،اور دنیا کی توجہ ان نقوش کی جانب مبذول کرا کر نہ صرف اپنی تاریخ کو روشن رکھا جاتا ہے بلکہ اسی سے معاشی خود کفالت بھی حاصل کی جاتی ہیں لیکن ہم نے آج تک اس خزینے سے جو فائدہ اٹھانا تھا وہ نہ اٹھا سکے اور آج بھی ہمارا شاندار ماضی ہم سے شکوہ کناں ہے کہ کیسے مجھے بھلا دیا،گلگت بلتستان کے گوشے گوشے میں جہاں قدیم تہذیب اور شاندار ماضی کے نقوش کی بہتات ہے وہاں بلتستان بھی قدیم تہذیبوں اور نقوش پارینہ کا ایک ایسا منظر پیش کرتا ہے کہ اس منظر میں جھانکیں تو جہاں ماضی کے فاتحین کی داستانیں بھی نظر آئیں گی اور ماضی کی تہذیبوں کے عروج و زوال کی سرگزشت بھی عیاں ہوتی ہے،۔

بلتستان ایک تاریخی اور تہذیبی سر زمین ہے جہاں کی اپنی جداگانہ تہذیب،ادب،زبان اور رسوم و رواج اور گلگت بلتستان کے دوسرے علاقوں سے مختلف تاریخ ہے،جہاں ادب بلتستان کی بات آتی ہے وہاں تاریخ بلتستان بھی دلچسپی اور حیرتوں کا ساماں ہے۔لیکن ایک بات قابل تشویش ہے کہ بلتستان میں سیاح آتے ہیں تو انہیں یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ شنگریلا کہاں ہے،کے ٹو کس طرف ہے،اور دیگر سیاحتی مقامات کے لئے راستہ کہاں سے جاتا ہے لیکن بہت کم سیاح ایسے ہوں گے جنہیں علم ہو کہ بلتستان کے تاریخی ورثے کہاں ہیں اور ان کی اہمیت کیا ہے،اس حوالے سے اہل ہنزہ داد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے تاریخی ورثوں کو وہ مقام اور تعارف عطا کیا ہے کہ کوئی ایک سیاح بھی ایسا نہیں جس کی دلچسپی ہنزہ کے تاریخی ورثے کی سیر میں نہ ہو،لیکن بلتستان،غذر اور دیامر کے پڑھے لکھے افراد،عوام اور ذمہ دار اداروں نے اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کیں جس وجہ سے ان علاقوں کے تاریخی ورثے جہاں سیاحوں سے پوشیدہ ہیں وہاں ان کی بوسید گی اور حالت زار بھی شکوہ کناں ہے کہ ہماری اس قدر بے قدری کیوں؟آئے ناظرین آج آپ کو بلتستان کے چند تاریخی مقامات کے حوالے سے بتاتے ہیں

قلعہ کھر فوچو

سکردو شہر کے چوک یادگار سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر پہاڑیوں کے اوپر ایک طلسماتی قلعہ ہے جسے کھر پوچو قلعہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے،اس کے فن تعمیر،دشوار گزار رستوں اور حیرت کدوں کی وجہ سے اسے قلعوں کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے ، بلتی زبان میں ”کھر“ قلعے کو اور ”پوچو“ یا ”پوچی“ سب سے اعلیٰ کو کہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کھر پوچو سکردو کا قلعہ معلیٰ ہے جسے سکردو کے ماتھے کا جھومر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ قلعہ کھر ڈونگ نامی پہاڑی کی چوٹی پر بنایا گیا ہے اور سکردو میں ہر جگہ سے نظر آتا ہے۔ قلعے کے گیٹ تک پہنچنے کے لیے ستاروں پر کمند ڈالتے ہوئے راستے پر با قاعدہ راک کلائمبنگ کرنا پڑتی ہے مورخین لکھتے ہیں کہ اس قلعے کی تعمیر سولہ ویں صدی میں ہوئی ہے۔شروع میں اس قلعے کو کھر پوچھے کہا جاتا تھا‘دھیرے دھیرے کثرتِ استعمال سے کھرپوچو کہا جانے لگا۔ چند مورخین نے اسے کھرفوچو بھی لکھا ہے۔ آج کل اس کے صدر دروازے کے ساتھ والی دیوار پہ انگریزی حروف میں ’KHARPHOCHO“ تحریر ہے۔بوخامقپون کے بعد کے حکمرانوں نے بھی اس کو وسعت دی اور اسے مضبوط سے مضبوط تر بنایا۔کسی زمانے میں یہ قلعہ ناقابلِ تسخیر تھا۔ کھرفوچو نے بہت سے حملہ آوروں کو نامراد واپس جانے پر مجبور کیا۔ علی شیر خان انچن کے دور میں اس قلعے کو بہت زیادہ توسیع دی گئی۔قلعے کے درمیان ایک سات منزلہ محل تعمیر کیا گیا۔ اس محل کے سامنے پانی کا حوض تھا جو ہمیشہ لبالب بھرا رہتا تھا۔ خوراک ذخیرہ کرنے اور اسلحہ رکھنے کے لئے پہاڑ کاٹ کر کمرے بنائے گئے تھے۔ ایک عالیشان مسجد‘ سپاہیوں کے رہنے کے لیے بیرکیں اور زندان بھی یہاں موجود تھا۔ قلعے کی حفاظت کے لیے مختلف مقامات پہ حفاظی چوکیوں‘ برجیوں اور مورچوں کا اعلیٰ انتظام موجود تھا۔ مورچوں اور چوکیوں پہ مسلح پہرہ دار اُس زمانے کے جدید ہتھیاروں سے لیس ہمہ وقت پہرے پہ مامور رہتے تھے۔

کھرفوچو کا صدر دروازہ سنگے ستاغو کہلاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس پہ شیر کی تصویر کندہ تھی۔ جب دروازہ بند ہوتا تو یہ شہر بہت ہیبت ناک دکھائی دیتا تھا۔یہ دروازہ بہت مضبوط تھا۔ یہاں حفاظت کے دیگرخاطر خواہ انتظامات بھی موجود تھے۔ کھرفوچو تک آنے کا باقاعدہ راستہ موجود نہیں تھا‘ مقامی روایات کے مطابق زیرِ زمیں سرنگوں کے ذریعے قلعے تک آمد و رفت ہوتی تھی۔جب علی شیر خان انچن گلگت تا چترال کی مہم پہ گیا ہوا تھا تو اس مدت میں اس کی مغل ملکہ”گل خاتون“ نے کھرپوچو کا راستہ بنوایا۔اپنی رہائش کے لیے کھرپوچو کے دامن میں دریائے سندھ کے کنارے ایک خوبصورت محل تعمیر کیا۔ مقامی لوگوں نے ملکہ کے نام ”میندوق رگیالمو“یعنی گل خاتون یا پھول ملکہ کی نسبت سے اسے میندوق کھر(پھول محل)کا نام دیا۔ اس محل کی پانچ منزلیں تھیں۔ اس میں چوبی کام دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا جبکہ مختلف اقسام کے سنگِ مرمر کا استعمال اس قرینے سے کیا گیا تھا کہ دیکھنے والے حیرت میں مبتلا ہوجاتے تھے۔ اس محل کے سامنے موجود باغ اپنی ہیئت کی وجہ سے ہلال باغ کہلاتا تھا۔ملکہ نے اس باغ تک پانی پہنچانے کے لیے گنگوپی نہر بنوائی جو اپنی جگہ فنِ تعمیرات کا حیرت انگیز نمونہ ہے۔کھرفوچو کے شمال میں نانگمہ ژھر کے نام کا ایک بڑا باغ تھا جو ننگ ژھوق تک پھیلا ہوا تھا۔ جنوب مغرب میں ایک باغ رگیہ ژھر نام کا تھا۔ گنگوپی نہر کے اُس پار غورو ژھر یعنی پتھروں والا باغ موجود تھا۔ کرفوپی ٹوق یا کرٹوق سے سٹیلائٹ ٹاون تک ایک بڑا باغ چہار باغ کے نام سے مشہور تھا۔ان باغات میں انواع و اقسام کے پھلدار و غیرپھلدار درخت‘طرح طرح اور رنگ برنگ کے خوشبو بکھیرتے پھول دیکھنے والے کو مسحور کردیتے تھے۔یہاں بڑے سلیقے سے روشیں‘ تالاب‘حوض اور فوارے بنائے گئے تھے‘ جنہیں دیکھنے والے کا جی خوش ہوجاتا تھا۔عروج و زوال ہر شے کا مقدر ہے۔ مختلف وجوہات کی وجہ سے یہاں کے خوبصورت باغات کوبھی اجڑنے میں دیر نہیں لگی۔محل ویران ہوگئے۔ کھرپوچوبھی لامحالہ ان تبدیلیوں سے متاثر ہوتا رہا۔رہی سہی کسر 1840ء میں ڈوگروں کی آمد اور ان کے ظلم و ستم نے پوری کردی۔اس قلعے نے ڈوگروں کو کئی ماہ تک روکے رکھا لیکن سازش کے ذریعے اس پر قبضہ کیا گیا۔قلعے میں گھمسان کی جنگ ہوئی‘ خون کے دریا بہائے گئے۔ انسانیت روتی‘ چیختی اور لرزتی رہی جبکہ درندگی اپنی تمام تر خباثتوں کے ساتھ انسانوں کا خون بہاتی اور قہقہے لگاتی رہی۔ لہو سے زمیں کو گل رنگ کرنے کے بعد کھرفوچو قلعے کو آگ لگا دی گئی۔ برسوں کی مشقت کے بعد بننے والی عظیم عمارت سے اٹھنے والے شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے۔کھرفوچو ایک سو آٹھ سالوں تک ڈوگرہ افواج کے زیرِ استعمال رہا۔ انہوں نے اپنی ضرورت کے مطابق اس کو دوبارہ تعمیر کیا اور تبدیلیاں کیں۔ 1948ء میں آزادی کا جذبہ مقامی لوگوں کی رگوں میں خون بن کر دوڑا تو انہوں نے بے سروسامانی کے عالم میں مضبو ط اور جدید ہتھیاروں سے لیس ڈوگرہ افواج کو پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔آزادی کی یہ جنگ کھرفوچو کے دامن میں لڑی گئی۔قلعہ کھرفوچو سکردو کی پہچان ہے۔ یہاں کے لوگ بھی اس سے بہت پیار کرتے ہیں اور اس کے کھنڈرات میں اپنے درخشاں ماضی کی بکھری تصویروں کو تصور کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ یہاں سے سکردو کا نظارا ناقابلِ بیان حد تک خوبصورت ہے۔دیکھنے والا مسحور ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔یہ تاریخی ورثہ جس توجہ کا مستحق ہے اسے وہ آج تک نہیں مل سکی جس کی وجہ سے یہ تاریخی ورثہ آہستہ آہستہ بوسیدگی کی طرف مائل ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ذمہ دار ادارے اس تاریخی ورثے کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اس کے حوالے سے دنیا بھر کے سیاحوں کو مستند معلومات بھی فراہم کریں اور ڈاکو منٹریز بنائیں تاکہ سیاحوں کی توجہ حاصل کر سکے۔

مسجد امبوڑک شگر

مسجد امبوڑک شگر: بلتستان کے علاقے شگر میں واقع ایک چھوٹی مگر قدیم مسجد ہے۔ اس کی تعمیر ایرانی مبلغ اسلام میر سید علی ہمدانی سے منسوب ہے۔ یہ مسجد بلتستان کی مشہور و معروف مسجد ہے۔ یونیسکو نے اس مسجد کو ثقافتی اعزاز بھی دیا ہے۔

مسجد چقچن

مسجد چقچن: بلتستان کے علاقے خپلو میں واقع ایک قدیم مسجد ہے جس کی بنیاد 1370ء میں ایرانی مبلغ اسلام میر سید علی ہمدانی نے رکھی، بعض روایات کے مطابق یہ عمارت مسجد بننے سے پہلے بدھ مت کی خانقاہ تھی۔ یہ مسجد پاکستان کی اہم عمارتوں میں شامل ہے۔

خانقاہ معلی

خانقاہ معلیٰ نوربخشیہ خپلو: خپلو بالا میں تعمیر کی گئی 400 سال پرانی خانقاہ ہے جس کی بنیاد میر مختار اخیار نے رکھی یہ خانقاہ لکڑی اور مٹی سے بنی گلگت بلتستان کی سب سے بڑی خانقاہ ہے جسمیں 3000 کے لگ بھگ لوگ سما سکتے ہیں اس کی تعمیر میں مغل، تبتی اور ایرانی طرز تعمیر کے نمونے شامل

خپلو قلعہ

۔ اس قلعہ کو 1840ء میں یبگو راجا خپلو نے تعمیر کیا۔ یبگو خاندان کے لوگ وسطی ایشیاء کے علاقے یارقند سے یہاں وارد ہوئے اور خپلو پر 700 سال تک حکمرانی کی۔ قلعہ کے اندر اب سرینا ہوٹل وجود میں آ چکا ہے۔ قلعہ کی پرانی طرز پر ازسر نو تعمیر بہت مہارت سے کی گئی ہے۔ دریائے شیوک کے کنارے آباد اس بستی میں مکمل لکڑی سے بنی قدیم ترین اور پرسکون مسجد بھی واقع ہے اور یہاں پر حکمرانی کرنے والے راجاؤں کی رہائش گاہ بھی۔

شگرکا قلعہ

 اسکردو شہر سے چند میل کے فاصلے پر ”دریائے شِگر“ بہتا ہے جس کے کنارے لکڑی اور پتھر کا ایک خوب صورت شاہکار ”شگر فورٹ“ کے نام سے براجمان ہے۔ قلعہ شگر جسے مقامی بلتی زبان میں ”فونگ گھر“ بھی کہا جاتا ہے، وادی شگر میں واقع ایک قدیم قلعہ ہے جو 17ویں صدی میں اماچہ خاندان (مقامی راجا) نے تعمیر کیا تھا۔ اس خاندان نے شگر پر 33 نسلوں تک حکمرانی کی تھی۔ آج فونگ گھر اماچہ خاندان کا بنایا ہوا اکلوتا ”زندہ شاہ کار“ ہے۔کشمیر سے لائے گئے کاری گروں کا بنایا ہوا یہ قلعہ کشمیری اور بلتی طرزِتعمیر کا بے مثال نمونہ ہے اور اس کی یہی خاصیت اسے باقیوں سے ممتاز رکھتی ہے۔قلعے کے اندر ایک خوب صورت مسجد، اماچہ گارڈن اور بارہ دری ہے۔ قدرتی حسن اور طرز تعمیر میں اس کا کوئی ثانی نہیں، عقب میں تیزی سے بہتا دریائے شِگر اس قلعہ نما محل کی خوب صورتی میں مزید اضافہ کرتا ہے۔ یہاں تہ خانے میں موجود لکڑی اور پتھر کا خوب صورت کیفے ٹیریا، پرانے طرزتعمیر کے کمرے، بڑے بڑے پتھر، پرانے زمانے کے برتن، اور صندوقوں کو دیکھ کر کچھ لمحے کے لیے انسان ورطہ حیرت میں چلا جاتا ہے۔آغا خان فاونڈیشن نے پانچ سال تک اس کی تزئین و آرائش کرنے کے بعد اسے ہوٹل میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس قلعے کے کچھ حصے ”عجائب گھر“ کے طور پر عوام کے لیے کھلے ہیں۔

یہ تھا بلتستان کے کچھ تاریخی ورثوں کا احوال بلتستان کے سب علاقوں کے تاریخی ورثوں کے حوالے سے تحریر کرنے کے لئے ان صفحات میں گنجائش موجود نہیں کہ کیونکہ بلتستان کا ہر ایک علاقہ نقوش پارینہ سے مزین ہے ان تمام نقوش کی تاریخ کو یکجا کرنا کافی مشکل کام ہے،پھر کسی

نشست میں انشا اللہ قارئین کو کسی اور علاقے یا تاریخی ورثے کی سیر کرائیں گے،

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button