صحت

صحت کا نظام اور پر عزم سیکریٹری ہیلتھ

تحریر : ڈاکٹر نذیر آحمد (چترال)

حالیہ خبیر پختونخوا اور سابقہ NWFP میں صحت کے نظام پر ویسے تو کئی دفعہ تجربات ہوتے رہے اور ان تجر بات سے کوئی خاطر خواہ فوائد حاصل نہ ہو سکے یہاں کے عوام مستفید ہونا تو دور کی بات بلکہ ان کا الٹا اثر برداشت کر نا پڑا مثلا صوبہ کے طول و عرض پر 1970 ؁ء کی دھائی میں RHU’s کا جال بچھا یا گیا یعنی ’’کہ بنیادی صحت مراکز‘‘ اُس زمانے میں یہ سو چا گیا کہ لوگوں کی بنیادی صحت اور حفظان صحت کو بہتر بنایا جائے گا آگے چلکر وہ ہر قسم کی بیماریوں سے نجات حاصل کرینگے ۔

اُن’s BHU کے ساتھ یہ ظلم تقریبا 0 4 سال تک ہوتا رہا کہ وہاں سٹاف کی تعینا تی نہ ہوسکی ڈاکٹر تو دور کی بات وہاں LHV اور میڈیکل ٹیکنیشن بھی تعینات نہ ہوسکے اِس سے لوگوں کی بنیادی صحت کے بہتر ہونے کا سہا نہ خواب پورا نہ ہوسکا اس کے نتائج یہ نکلے کہ’s BHU بھوت’s BHU کا منظر دینے لگے سیاسی مداخلت کے بل بوتے پر یہاں کا سٹاف اپنی من پسند جگہوں کو ترجیح دیتے رہے نتیجتاً ایسے BHU’s جو مرکزی علاقوں کے نزدیگ تھے وہاں دو دو LHVs اور تین تین میڈیکل ٹیکنیشن تعینات رہتے اور دور دراز کے’s BHU میں وارڈ اڑدلی اور چوکیدار نے حفظان صحت کے خدمات کے بیڑا اُٹھا نا شروع کیا آخر کسی کو یہ خیا ل آیا کہ کیوں نہ ان’s BHUکو P.P.P یعنی Public Private Partnarship میں دیا جائے۔

2000 ؁ء کی دہائی میں پنجاب کا ایک ماڈل اُٹھا کر NWFP میں رکھا گیا اور تمام فنڈ یک لکیر ی بجٹ کے طور پر PPHI کے حوالے کیا گیا اُس دور میں کچھ بہتری کی کرن نظر آنے لگی اور عوام کو سہولیات اُن کے دہلیز پر ملنے لگیں عمارات کی مرمت اور تز ئین و آرائش کی کافی مثبت کوشیں کئی گئی BHUs میں پانی بجلی اور گر ما ئش کا قد رنے بہتر انتظام دیکھنے میںآیا ۔

یکدم 2015-16 ؁ء کے دوران یہ نظام بھی لپیٹ لیا گیا ۔ اس لئے کہ حکومتوں کو کچھ نئے تجر بات بھی کر نے ہوتے ہیں اور بہتر ی بھی لا نی ہو تی ہے اب یہ BHUs جہاں ہیں جیسے ہیں کی بنیاد پر چل رہے ہیں ڈاکٹر اور سٹاف موجود مگر سہولیات اور ادویات ناپید ، مرمت اور غیر تنخواہی بجٹ اونٹ کے منہ میں زیر ہ کے برابر۔

اسی پر تُک یہ ہے کہ ان BHU’s کو بجٹ کا فراہم کر نے کی ذمہ داری ضلعی حکومتوں کے سپرد کیا گیا جو کہ خود کسی حد تک بجٹ سے محروم رکھے گئے ہیں اس کا نتیجہ نہ نکلا ہے کہ اکثر مریض جو دوائی اور Vaccine کے لئے BHU’s میںآیا کرتے تھے وہ بھی کم ہو تے گئے.

اس کے بعد لے لیتے ہیں RHCs کے نظام کو۔۔۔۔۔ وہRHC’s جو ضلعی ہیڈ کوو اٹریا شہر ی علاقوں کے نزدیک ہیں وہاں کچھ گز ارہ ہو رہا ہے کیونکہ ڈاکٹر اور دیگر عملہ اپنی مرضی سے تعینات رہتا ہے مگر وہ RHCs جو دور دراز ہیں وہاں سٹاف کو مانیٹرنگ کے نئے جا ل نے بھی ڈیوٹی دینے کا پا بند نہ بنا سکا ۔دور راز کے RHCs میں زنا نہ ڈاکٹر نہیں ہیں یا اُن پوسٹوں پر تعینات ہو کر من مانے جگہوں پر ڈیو ٹیاں دے رہی ہیں جہاں اُ ن کی خدمات کی چندان ضرورت نہیں۔

اب تھو ڑ اسا ذکر DHQ یعنی ضلعی ہیڈ کواٹر ہسپتال کی کرتے ہیں 2002-3 ؁ء سے پہلے یہ ہسپتال چند ما ہر ڈاکٹر وں اور باقی ضلع میں تعینات میڈیکل افیسرز کے ذریعے چلا کرتے تھے پھر حکومت کو یہ خیال آیا کہ صوبائی دارلحکومت یا ڈویژنل ہیڈ کواٹر پر بوجھ بڑ ھ رہا ہے اس لئے ضلعی ہیڈ کو اٹر ہسپتالوں کو مز ید سہو لیات سے آراستہ کیا جائے اس کے لئے World Bank سے سافٹ لون اور گرانٹ لیکر DHQ کو اپ گریڈ کر نے کا سلسلہ شروع ہوا ہر DHQ میں16 کے لگ بھگ سپشلٹی کے پوسٹ پیدا کئے گئے یعنی 350 بستروں والا A گریڈ اور 200 بستروں والا B گریڈ۔۔۔۔ عمارتیں بن گئیں پوسٹوں پر تعینا تیاں ہوگئیں کلاس فور ملازمیں کی تعینا تیاں سیاسی بنیادوں پر ہونے لگیں کیونکہ اسمبلی ممبران کو استحقا ق دیا گیا بہر حال ضلع کی سطح تک بہتر ی آگئی مگر وہ مقصد جس کے لئے قرض اور گرانٹ لیکر کام شروع کیا گیا تھا اس کا حصوں خواب ہی رہ گیا ۔

صوبائی اور ڈویژنل ہیڈ کواٹر میں ٹیچنگ ہسپتالوں پر بوجھ کم ہونے کی بجا ئے زیادہ ہو گیا مریض جو بہتر علاج کی تلاش میں جانے لگے اُ ن کا مقصد بھی پورا ہو تا نظر کم آنے لگا کیونکہ وہاں مریضوں کارش کم نہ ہواْ

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت کو مزید اصلاحات کر نے کی سو جھی اور MTIایکٹ کے تحت ان ہسپتالوں کو خود مختاری دی گئی اب صوبہ میں ہیلتھ کے دو متوازی نظام چل رہے ہیں ایک حکومتی اور دوسری خود مختارMTI محکمہ صحت( حکومتی) میں اس حکومت کے چارسال کے بعد ایک قابل مدبر محنتی اور پر عزم بند ے کو سیکریٹری لگا یا گیا ہے جس نے حکومتی محکمہ صحت کو قدر ے نہیں بلکہ کافی حد تک حالت سد ھار نے کی کوشش کی ہے۔ میرا مطلب عابد مجید صاحب ہیں، جنہوں نے حکومتی پالیسوں کو عملی جامہ پہنا یا  اور پالیسوں کی پیچید گیوں سے واقف ہونے کی وجہ سے پورے صوبے میں ایک انقلاب پیدا کیا اور ڈسپنسریوں سے لیکر DHQ تک ڈاکٹروں کی تعیناتیاں کی ہیں ۔اور اُن کی مانیٹرنگ کے ایک مربوط نظام کی داغ بیل ڈال دی ہے۔ اب یہ اُمید بن رہی ہے کہ حکومتی والا نظام بہتری کی طرف گامزن ہے مگر MTI اب بھی اُمید اور نا اُمید ی کے درمیان معلق ہے ۔

اتنی زیادہ مغزکھپائی کے بعد اگر اس ناچیز نے مشورے کے طور پر چند سطور نہ لکھے تو ایسا لگیگا کہ اخبار کے ایک صفحے کو کسی دوسری کارآمد مقصد کے لئے استعمال نہیں کیا گیا بلکہ ضا ئع کیا گیا۔

میرا یہ حقیر مشورہ ہے کہ ہر MTI کا Board اف گو رنرز اور چےئر مین کوئی اہم پالیسی فیصلہ کرتے وقت محکمہ صحت کے سکرٹری کو اس میں ضرور شامل کریں اور خاصکر موجودہ سکرٹری صاحب کے ارادے نیک لگتے ہیں کوئی خاص پیچدگی نہ ہو گی دوسری اہم بات یہ ہے کہ پالیساں تبدیل ہوتی رہتی ہیں کل کو اگر بڑے سطح پر یہ فیصلہ ہو جائے کہ MTI ایکٹ واپس۔۔۔۔۔۔ تو اُس صورت میں اس نظام کو محکمہ صحت نے ہی چلا نا ہے اور اس وقت جو تکلیف محکمہ صحت کہ پہنچے گی اس کا اندزہ BOG خود بھی لگا سکتے ہیں مگر مصلحت کے تحت خاموشی ہیں ۔ مثلاً ایک مثال کو لے لیتے ہیں۔ایک ڈاکٹر یا دوسرا کوئی ا سٹاف MTI میں ہو تو موجودہ ڈھانچے میں اسکو اپنی سروس سیکورٹی واضح نہیں اس کی مرا عات سرکاری ساتھی سے مطابقت نہیں رکھتی ۔ تنخواہ ہی کو لے لیںM/O کی تنخواہ جو Non MTI والوں کو ملتی ہیں اس میں اور MTI والوں کی تنخواہ میں واضح فرق ہے۔ جہاں تک ٹرانسفر اور تادیبی کاروائی کا تعلق ہے اس میں بھی پالیسیاں اتنی شفاف نہیں جتنی سر کاری نظام میں ہیں۔بہر حال تجرباتی ہونے کے ناطے کچھ وقت اسے بر داشت کرنا پڑیگا۔ لیکن تمام فیصلوں میں محکمہ صحت (حکومتی ) کو با خبر رکھنے اور فیصلہ سازی کا حصہ بننے کی اشد ضرورت ہے۔

(موصوف محکمہ صحت میں34 سال سروس کے بعد ریٹائیر ہو چکے ہیں اور پرائیوٹ ہسپتال چلا رہے ہیں)۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button