سیاحت

چلو قسطنطنیہ چلیں – پہلی قسط

ترکش ایر لائن کی پرواز نمبر ۷۱۱ بروقت تھی۔ انتظار گاہ میں گہما گہمی تھی۔ ا علان کا انتظار تھا۔  میں نماز پڑھ کے آچکا تھا۔ میرا ہمسفر راجہ کمال نماز پڑھنے گیا تھا کہ جہاز کی روانگی کا اعلان ہونے لگا۔ تمام مسافر جلدی میں تھے۔ مجھے بے غم بیٹھے ہوے پا کر ایک ہم پرواز مسا فر نے کہا کہ آ پ نے نہیں جانا کیا ، تو میں نے کہا تھا کہ میرا سیٹ مجھے ہی مل جائے گا جلدی کی کیا ضرورت ہے۔ حالانکہ اندر سے میں بھی جلدی میں تھا اور راجہ کو کوس رہا تھا کہ معلوم نہیں کتنی دیر لگائے گا۔ جب کہ اس نے صرف دو رکعت فرض نماز ہی پڑھنی تھی۔

بہر حال راجہ کمال بھی آگئے اور ہم بھی روانہ ہوگئے۔ سیڑھیاں اترتے ہوے دیکھا کہ مسافر سب کے سب وہی پر کھڑے تھے ۔ انتظار گاہ کی ٹھندی ہوا اب اس تنگ سی گلی میں نہیں تھی اور جلدی آنے کی وجہ سے ہم سمیت سب کو پشیمانی سی ہو رہی تھی۔ ایک ایک بس کے مسافروں کوگن گن کر باہر جانے دیا جارہا تھا۔ جب سب کا پسینہ بہنے لگا تو ہماری باری بھی آ نے لگی اور اللہ اللہ کر کے ہم ترکش جہاز کی سیڑھیاں چڑھ گئے۔ دو سرخ و سفید لمبے ، چھریرے بدن والی ہو سٹسز ، خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ ہر ایک کو خوش آمدید کہتی نظر آئیں، جو ایک اُچٹتی سی نظر بورڈنگ کارد پر ڈالتی نہایت سلیقے کے ساتھ نشست تک پہنچنے کے لئے رہنمائی کرتی اور دوسرے مسافر کی طرف مخاطب ہو تی۔ میر ا جی چاہ رہا تھاکہ ان سب کو چھوڑ کر مجھے ہی اٹنڈ کرے اور کم از کم میری نشست تک تومیرے ساتھ چلے اور وہ بھی اس انداز سے کہ صا ب جی ساڑھے لائق کوئی خدمت ہے تے دسو، ہماری نشستیں آخر میں تھیں۔ جلد ہی ہینڈ بیگ کو اوپر خانے میں رکھا اور ہلکی سی حسرت بھرے نظروں سے ترک پریوں کی طرف دیکھا کہ شاید ان کو احساس ہو اور وہ دوڑ کر میرے پاس آجائیں لیکن ایسا شاید ممکن نہ تھا جب کہ یہاں سینکڑوں ایسی حسرتیں تھیں کہ ہر حسرت پے دم نکلے۔

بہر حال سب لوگ بیٹھ چکے اور ہوائی اڈے کےعملے کی جانب سے شاید سب اچھا ہے کی رپورٹ مل چکی تھی۔ دروازے بند ہو گئے اور ہوسٹس نے ترکی میں چغ پغ کی می پی ۔۔۔۔ کچھ نہ کچھ بولا ۔۔۔۔۔۔ پھر ہمارے آقاوں کی زبان، پاکستانیوں کی پسندیدہ زبان انگریزی، میں بھی اعلان ہوا کہ مہرا با نی تساڑہ ملک صاب ذرا اپنی اپنی کمر کس لو جے، یعنی فاسٹن یور سیٹ بیلٹس۔

تھوڑی ہی دیر میں پائلٹ ہم پر رعب ڈالنے کی کوشش کر رہا تھا۔ آ پ کا کپٹن آپ سے مخاطب ہے ، ہم اتنی فٹ کی بلندی پے پرواز کرتے ہوے اتنے وقت میں اتا ترک ہوائی اڈے پر پہنچ جائنیگے امید ہے کہ دوران سفر آپ کا ہمارے سا تھ خوش گوار گذریگا ، اب ہم پرواز کے لئے تیار ہیں اپنی سیٹ بیلٹ کو باندھ لیں اور الیکٹرونک آلات بند کریں۔

جہاز کو ریس دیا گیا تو جھٹکے سے لگنے لگے۔ میں نے گھبرا کر راجہ کی طرف دیکھا تو وہ بھی ڈر کے مارے کچھ پڑھ رہا تھا اور میں بھی سبحان ا لذی سخرا لنا ھٰذا و ماکنا لھو مقرینین وا انا الاربنا لا منقلیبون اور پھر الحمد، قل شریف پتہ نہیں کون کون سی آیات پڑ ھ چکا تھا کہ ائیرہوسٹس کی سریلی آواز نے، جس میں پٹھانوں اور گلگتیوں کی طرح کرختگی زیادہ تھی، مجھے ہوش میں لایا، جلدی میں، میں ان سے ہاتھ ملانے لگاتھا کہ اس نے جلدی سے ایک پاکستانی کھانے کا ٹرے میرے آگے رکھ دیا اور دوسرا راجہ کے آگے سر کا کر آگے کھسک گئی اور میں اپنے آ پ کو کوستا رہا کہ کاش یہ حسینہ کتنی دیر سے میرے سامنے تھی اور میں اپنے آپ میں مگن قرآنی آیاتوں کو الٹا پلٹا پڑھنے میں صرف کیا۔

بہر حال اب کیا کیا جا سکتا تھا ، میں اور راجہ نے ڈرتے ڈرتے کھانے کا ٹرے کھولا تو اس میں ایک چکن پیس کے ساتھ کچھ الم غلم قسم کی چییزیں تھیں اور جیسے تیسے کر کے ہم نے اس عجیب و غریب ناشتہ نما سی چیز کونگل لیا اور ایک لمبی ڈکار مارا، اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ یہ تو دوا ئی قسم کی چیز ہے کھاتے ہی ڈکار آ گئی۔

ابھی ہم اسی سوچ میں ہی تھے کہ ایک سٹیورڈ آگیا اور بتیسی نکال کر ہم سے ٹرے واپس لے جا نے کے لئے ہا تھ بڑھایا ، میں تو سوچ رہا تھا کہ ان برتنوں کو ھینڈ بیگ میں ڈال کر واپسی پر بھی ایک ملے گا تو دو ، دو کا جوڑہ بناکر اپنے بیگم کو پیش کر ونگا کہ لو جی تسی بھی ویکھو کہَ اسی کیہ کیہ شے لے کے آییاں، لیکن وہ خالی برتنوں کو لے کر پیچھے دیکھے بغیر نو دو گیارہ ہو چکا تھا ، ابھی ہم اسی مخمصے میں ہی تھے کہ پھر ایک سریلی آواز میرے کانوں میں گذری کہ جوس ، میں نے بھی وقت ضائع کئے بغیر اورنج کہا تو محترمہ نے ایک دم ایک پلاسٹک کی گلاس میں تھوڑہ سا یعنی گو ٹھک انڈیل کر ہاتھ میں پکڑا یا، میں نے خیال بھی نہیں کیا کہ راجہ کو بھی کچھ ملاہے یا نہیں کیونکہ محترمہ میرے اتنی قریب تھی کہ راجہ کے ہوش میں کون تھا۔

بہر حال جب ہم میڈیٹرینین سی کے اوپر سے گذر ہے تھے تو میں نے راجہ کو بتایا تھا کہ یہ تو کوئی سمندر ہے اور اس کے اوپر برف کے پہاڑ ہیں اور ان کے اوپر بادل کے ٹکڑیاں تیر ر ہی ہیں تو راجہ نے گھبر ا کر مجھے اپنے نشست پر بیٹھنے کی پیش کش کچھ اس طرح کیا کہ وہ واش روم جانا چاہتا ہے، میں کھڑکی کے ساتھ چمٹ گیا اور ویڈیو بنانے لگا بعد میں جب دیکھا تو مجھے خود بھی ہنسی آئی کہ یہ کس چیز کا ویڈیو ہے۔

MRC(ملین روپی کانفرنس ):

یہ جوبلی لائف انشورنس کا ہی کمال ہے کہ ہر چھ ماہ بعد اپنے ان ملازمین کو جنھوں نے کمپنی کی دی ہوئی ہدف کو حاصل کیا ہو تا ہے مختلف ممالک کا سات روزہ دورے کراتا ہے اور تمام اخراجات کمپنی کے ذمہ ہوتے ہیں ۔ جوبلی لائف انشورنس اور جوبلی انشورنس آغا خان ڈولپمنٹ نٹ ورک کا ذیلی ادارے ہیں اور پاکستان کے علاوہ اور بھی کئی ملکوں میں کام کرتا ہے ۔

میں ایک نالائق قسم کا انشورنس ایجنٹ ہو ں لیکن اس سال اللہ کے کرم سے جوبلی لائف انشورنس کے دیے ہوے تارگٹ کو مشکل سے اور بڑی محنت کے بعد حاصل کیا اور شکریہ جوبلی لائف انشورنس کمپنی اور میرے منیجرز اور ساتھی جن کی مکمل تعاون کے بغیر یہ ٹارگٹ حاصل کرنا مشکل تھا۔

جوبلی لائف انشورنس کی جانب سے چار دن کی برادر ملک ترکی کی مشہور شہر استنبول کا وزٹ تھا ، ٹکٹ ، ویزہ ہوٹل میں رہائش مشہور مقامات کے دورے سب کچھ کمپنی کی طرف سے تھا ۔ ستمبر ۸ کے رات ایک بج کر پندرہ منٹ پر بچوں نے اوبر کو کال کیا ۵ منٹ بعد گاڑی آگئی اور ائیر پورٹ پہنچا دیا جب کرایہ پوچھا تو صرف ۱۳۵ روپے طلب کیا میں خوش ہو گیا اور ۱۵۰ روپیہ دیا کہ ۱۵ روپیہ ٹپ،

ہوئی اڈے پر:

کیو نکہ ایک ساتھی راجہ کمال جو کہ کمال کا آدمی ہے کا انتظار کرنے لگا اور کمال صاحب بھی پندرہ منٹ بعد پہنچ گئے، اس کے بھائی کو ہم نے رخصت کیا اور سامان گھسیٹتے ہوے بین الاقوامی روانگی کی طرف روانہ ہوے سامان چک کرایا ، بورڈنگ کارڈ حاصل کیا اور انتظار گاہ پہنچنے سے پہلے چکنگ والے عملے کے ایک بندے نے سوال اٹھایا کہ کمپنی کا لیٹر دکھاو یا سروس کارڈ دکھاو اور پھر ایک شخص زبیر کے پاس بھیج دیا ، اس صاحب نے شناختی کارڈ پاس پورٹ ٹکٹ،بورڈنگ کارڈ سب کچھ چک کیا اور کہنے لگا کہ کمپنی کا چِٹھی دکھاؤ یا کارڈ دکھاؤ ، میں نے کہا کہ آپ مجھے یہ بتا دے کہ میری امیگریشن ہوچکی ہے ، اس نے کہا کہ ہاں، میری ویزہ ٹھیک ہے ، پاسپورٹ ٹھیک ہے، شناختی کارڈ ٹھیک ہے، اور یہ کہ ترکی والوں نے میرے کمپنی کی اجازت نامہ نہیں دیکھنا اور وہا ں ہمارا نمائندہ پہلے سے موجود ہے آپ کس لئے یہ کہہ رہے ہیں کہ کمپنی کی چِٹھی دکھا ؤ، ہم صرف چار دن کی وزٹ پر جا رہے ہیں ۔ اس پر وہ شخص لا جواب ہوا پھر کہنے لگا بزرگو ، اب میں آپ کو کیا کہوں آپ لوگ جائیں اور ہم چل پڑے اور انتظار گاہ جب پہنچے تو صبح کے چار بجنے والے تھے، میری موبائل کی بیٹری کی چارجنگ کم ہوچکی تھی میں نے ایک ساکٹ ڈھونڈا اور چارج پر لگایا تھوڑا سا چارج ہوا تھا کہ ہنزہ کی ایک کولیگ آئی اور کہنے لگی کہ ان کے موبائل کی بیٹری بالکل ختم ہو چکی ہے ۔ میں نے ان کا موبائل چارج پر لگایا اور واش روم جاکر وضو کیا اور نماز پڑھ کر ، راجہ کے پاس گیا اور وہ نماز پڑھنے گیا ۔

تھوڑی دیر بعد سپیکر سے ا علان ہو رھا تھا کہ فلائٹ نمبر ۷۱۱ کے مسافر جہاز میں سوار ہونے کے لئے روانہ ہو جائیں ۔ راجہ کے آنے کے بعد ہم جہاز کی طرف روانہ ہوے۔فلائٹ بڑا اچھا تھا آرام دہ تھا لیکن شور بہت زیادہ تھا۔

میڈیٹرینین سی کو پیچھے چھوڑ آئے تھے اور اب کچھ پہاڑی علاقے اور کچھ کچھ آبادی چھوٹے چھوٹے نقطوں کی طرح نظر آ تی تھیں، ایک بجے کے قریب پائلٹ نے اعلان کیا کہ سیٹ بیلٹ کو باندھیں او ر الیکٹرونیک اشیا ء آف کیا جائے اور لینڈ نگ کے لئے تیار ہو جائیں، بہر حال ڈیڑھ بجے ہم جہاز سے اتر رہے تھے ، یہ ہوائی اڈہ ایک قسم کا جزیرہ ہے اطراف میں سمندر ہی سمندر ہے ، ہمیں گیٹ نمبر۱۰۶ کے سامنے اتارا گیا تھا بس میں سوار ہو گئے اور ۲۱۸ نمبر گیٹ کے سامنے ہمیں بس نے بھی اتارا ۔

امیگریشن :

اور پھر دونوں اطراف میں لگی ہوئی سٹیل کی پائپ کے گلیو ں سے یو شکل میں ٹرن کرتے ہوے ایک گھنٹے کے بعد بھی اسی جگہ پر تھے جہاں سے ہم داخل ہو گئے تھے یہ قطار بندی صرف ایک یا دو یو ٹرن کے ساتھ بھی کیا جا سکتا تھا کہ لوگ قطا روں میں آ جائیں لیکن ایسا نہ تھا جب چکر آ تے چکراتے ہم امیگریشن والے کاؤنٹر پر پہنچ گئے تو سرخ و سفید قسم کا ایک ترک ہمارے کاغذات کم دیکھتا تھا موبائل پر زیادہ مصروف تھا۔

کئی دفعہ میری شکل دیکھا اور کئی مرتبہ پاسپورٹ اور پھر مہر ثبت کیا اور پھر راجہ بھی اس مر حلے سے گزر کر باہر نکلے اور سامان کی تلاش شروع ہوئی اور دیکھا تو پاکستان کی طرح ایک صرف ایک ہی کنوئر بیلٹ پر ایک ہی جگہ نہیں بلکہ کئی جگہ یہ کنوئر بیلٹ چل رہے تھے اور جگہ جگہ مسافروں کا سامان بکھرا پڑا تھا ، میں نے دور سے ہی جوبلی لائف کا سرخ بیگ پہچان لیا تھا اور ایک نعرہ فلگ شگاف بلند کیا اور بیگ کی طرف ایسا لپکا کہ ترکوں کے علاوہ میرا ساتھی راجہ بھی بوکھلا گیا تھا۔ بہر حال میں نے بیگ کو اس طرح گرفت میں لیا کہ اس کے بھاگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

راجہ نے بھی ایک بڑا سا چا ئنا کا بنا ہوا، اٹیچی کیس کو میری دیکھا دیکھی ایسا پکڑا کہ کوئی دوسرا نہ چھین سکے اور گھسیٹتا ہو امیرے پیچھے پیچھے آرہا تھا۔ اتنے میں مجھے جوبلی لائف انشورنس کا بورڈہاتھ میں تھامے ایک ترک بھائی نظر آیا۔ دوسری بار میں نے ایک نعرہ بلند کیا اور جب سب لوگ میری طرف متوجہ ہوے تو میں ایسا خاموش تھا جیسا کچھ بھی نہ ہو ا ہو۔ میرا ترکی بھائی بھی ہاتھ ہلا ہلا کر ہمیں اپنے نزدیک آنے کے لئے کہہ رہا تھا ، اتنے میں ایک اور بورڈ بھی نظر آگیا میں تیسرا نعرہ لگاتے لگاتے بچ گیا کیو نکہ ترک عمران میرے ساتھ ہاتھ ملا رہا تھا اور کہہ رہا تھا می عمران ،اِن انگلش اینڈ عمراہ، اِن ترکی اینڈمی ہیر ٹو ہلپ یو،

۳۰ منٹ کے لئے ایم ڈی :

عمران نے میرے ساتھ ملاقات کیا، پھر اس نے راجہ کمال سے پوچھا کہ دو یو نو جاوید احمد ، اور راجہ نے نعرہ لگایا کہ یس دس ون از do you know Javed Ahmad , yes this is Javed، تو عمران نے ایک دفعہ پھر اپنا تعرف کروایا اور ،سوال کیا کہAre you javed ahmad, did you come from Islamabad and you are two, میں نے خوش ہو کر کہا یس ، اس نے ہاتھ پکڑا اور کہا کہ کم آن ، اور دوسرے ہی لمحے، میں اور راجہ ایک منی بس یا ویگن میں تھے ڈرائیور نے ہمارا سامان اٹھا کر گاڑی میں رکھا یہ سب کچھ اتنی جلدی میں ہو کہ ہمیں کچھ سوچنے موقع بھی نہ ملا اور پیچھے سے ہارن بجانے سے پہلے ہی گاڑی چل پڑی، ہارن پر یاد آیا کہ ادھر ترکی میں تو ہارن بجانا بہت برا سمجھا جاتاہے، جب ہم سوئے استنبول رونہ ہوے تو ایک دم موبائل نکالا اور ویڈیو بنانے لگے اور مجھے اچانک خیال آیا کہ کہیں ہو نہ ہو کہ ایم ڈی جاوید احمد کے لئے یہ گاڑی نہ آئی ہو، بہر حال ہم ایک پر سکون اور خوب صورت ، شور شرابہ اور گاڑیوں کی ہارنو ں سے بالکل خالی اور دل کو موہ لینے والی سڑکوں پر سفر کرتے ہوے ہوٹل پہنچ گئے اور جو نہی لابی میں قدم رکھا تو کسی پاکستا نی نے آواز دیا جاوید صاحب ادھر ، میں نے جب اسکی طرف دیکھا تو چہرہ غیر مانوس سا لگا تھا اور ایک اجنبی کو اپنے طرف متوجہ دیکھ کر مجھے فخر محسوس ہوا( جاوید احمد ) استنبول آتے ہی توُ چمک گیا لیکن جب کاؤنٹر پر پہنچ گیا تو یہ سب کچھ کافور ہو گیا۔

جب اس نے پوچھا کہ جاوید صاحب آ پ نے جاوید صاحب کی گاڑی لایا ہے تو میں نے بھی بر جستہ کہا تھا کہ ہاں میں ہی جاوید ہوں تو اس نے گھبرائے ہوے کہا کہ نہیں یہ گاڑی ایم ڈی کو لینے آئی تھی ، تو میں نے کہا کہ یہ میری غلطی تو نہیں اس بندے نے جو کچھ پوچھا وہ سب کچھ میرے مطلق تھے۔ تو اس نے ہمیں بیٹھنے کے لئے کہا ، جوبلی کے نمائندے نے کہا کہ ٹھیک ہے بیٹھ جائے میں چابی تھوڑی دیر میں آپ کو دے دیتا ہوں اور ۳۰ منٹ بعد ایم ڈی جاوید احمد صاحب آ گئے اور جب ملاقات کیا تو مسکر ا کر کہنے لگے کہ کوئی بات نہیں ہم نام جو ہوے۔ یہ یاد رکھے کہ میں اور ایم ڈی صاحب ہم نام (جاوید احمد) ہیں ، اس لئے نام کامجھے کریڈٹ ملا کہ مجھے اور راجہ کو سب کے ساتھ بس کے بھرنے تک انتظار نہ کرنا پڑا اور ۳۰ منٹ کا ایم ڈی بنا اور وی آئی پی پروٹوکول ملا ۔

کمرہ نمبر ۶۱۳ رینائسنس استنبول باسفورس ہوٹل:

تھوڑی دیر بعد جوبلی کے نمائندے نے آواز دیا کہ آجاو کمرہ کی چابی لے لو اور مجھے اس نے کمرہ نمبر ۶۱۳ کی چابی پکڑائی اور راجہ کمال کو کمرہ نمبر۶۰۲ کی چابی ، ہم نے گذارش کیا کہ ہمیں ایک کمرہ دو لیکن اس نے نہیں مانا اور ہم کاغذ کی کمپیو ٹرایز چابی لے کر چل پڑے اور جب لفٹ میں داخل ہوے تو ۶ کا بٹن نہیں دبتا تھا توایک ترک بھی جو کہ ہمارے ساتھ لفٹ میں تھا کہا کہ چابی دکھاو اور بٹن دباو یعنی بغیر چابی کے آپ لفٹ کے بٹن بھی آن نہیں کر سکتے!

کمرے دو دو بستروں پر مشتمل بڑے صاف ستھرے اور سفید چادروں اور سرہانوں سے مزین تھے اور بڑے اچھے لگ رہے تھے۔ کھڑ کی کا پردہ ہٹا یا تو استنبول کے بلندو بالا عمارتوں کا ایک خوبصورت نظارہ تھا۔ایک بجے میزنائن فلور پر ریستوران میں کھانا تھا اور میں اور راجہ دونوں نے کھانا تو کھا یا لیکن حسب ما تقدم تھوڑہ سا کھایا کہ معلوم نہیں ترکی کا کھانہ ہا ضمہ کے لئے کیسا ہو، لیکن بہت جلد پتہ چل گیا کہ ہمیں بھوک لگی ہے ، کھانے کے بعد ہم ہوٹل سے باہر نکل گئے اور پچھلی طرف ایک مسجد میں جاکر نماز پڑا اور فوٹو وغیرہ لیا اس مسجد کا نام حضرت ابوبکر صدیق سے منصوب تھا

کیونکہ ترکی میں کچھ اس قسم کے الفاظ لکھے تھے جو ہم نے سمجھا، جب کمرے میں آیا تو پشاور برانچ کا ایک منیجر امتیاز صاحب نے آکر کمرے تبدیل کرنے کے لئے درخواست کیا تو میں اس کے کمرہ نمبر ۷۱۰ میں گیااور دیکھا توایس جی ایم، شیخ وحید صاحب سوئے تھے جو کہ راولپنڈی صدر برانچ کا انچارج ہیں اور امتیاز میرے کمرے میں شکیل کے ساتھ شفٹ ہوا، لیکن وحید صاحب شاید خراٹوں کے لئے شاید جانا پہچانا جاتاتھا اس بات کا رات کو بل کہ صبح کی نماز کے بعد مجھے پتہ چلا جب شیخ صاحب نے ٹریکٹر سٹارٹ کیا یعنی اتنے زور سے خراٹے بھرنے لگے کہ تھوڑی دیر کے لئے تو پریشان ہوا پھر مجھے یاد آیا کہ خراٹے تو میں خود بھی بھرتا ہوں لیکن اتنا نہیں جتنا شیخ صاحب، اس لئے لوگ اس کے ساتھ ٹھہرنے میں جی کتراتے تھے، کمرہ شفٹ کر کے لابی میں آگئے اور اناطولیہ سے آنے والے ساتھیوں کا انتظار کیا بہت جلد دوسرے ساتھی بھی آگئے۔

جاری ہے

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button