"دینی علوم کے مراکز کو درپیش چیلنجز اور ان کا حل” کے عنوان سے سکردو میںعلمی نشست کا انعقاد
سکردو (پ ر) عصر حاضر کی مایہ ناز دینی درسگاہ جامعۃ النجف سکردو میں مہمان علمائے کرام ،ارباب تحقیق ، مفکرین اور دانشوروں کے ساتھ ایک منفرد علمی ،فکری اور تعلیمی نشست کا اہتمام کیا گیا ۔
اس تقریب میں مہمان علما کے علاوہ دینی علوم کے اساتذہ اور طلاب کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔
اپنی نوعیت کی اس عمیق فکری و تعلیمی نشست کی صدارت معروف محقق ،کہنہ مشق مترجم ، ممتاز عالم دین اور جامعۃ النجف کےمدیر شیخ محمد علی توحیدی نے کی جبکہ جامعہ روحانیت بلتستان کے صدر اور جید عالم دین حجۃ الاسلام سید احمد رضوی صاحب نیز متحرک عالم دین حجۃ الاسلام شیخ محمد علی ممتاز صاحب ،مدارس معصومین کے مدیر و مسئول حجۃ الاسلام شیخ ذاکر حسین مدبر اور ہیئتِ سید الشہداء کے بانی حجۃ الاسلام شیخ احمد نجفی مہمانان خصوصی تھے ۔
پروگرام کا آغاز تلاوت کلام الہٰی سےہوا ۔تلاوت کلام الہی کا شرف جامعہ ھذا کے استاد ِقرآن مولانا قاری عابدین نے حاصل کی ۔ہونہار طالب علم سید امتیاز نے نعت رسول مقبول سے دلوں کو منور کیا ۔نظامت کے فرائض جامعہ ہذا کے وائس پرنسپل حجۃ الاسلام شیخ احمد نوری نے انجام دیئے۔
خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے جامعہ ھذا کے مدرس ،مستند عالم دین اور امام جمعہ وجماعت خپلو جناب حجۃ الاسلام شیخ سجاد حسین مفتی دام ظلہ نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔ انہوں نے ’’حوزہ ہائے علمیہ کو درپیش چیلنجز اور ان کے راہ حل ‘‘کے موضوع پر فکری گفتگو کرتے ہوئے کہا : اسلام ایک عالمگیر عادلانہ نظام کا علمبردارہے اور ہمارے دینی و علمی مراکز اسلام کے اس عالمگیر پیغام کی ترویج کےاصلی ذمہ دار ہیں لیکن ہمارا موجودہ دینی تعلیمی سسٹم اسلام کے اس آفاقی مقصد کی عملی تصویر پیش کرنے سے قاصرہے ۔ انہوں نے کہا کہ دینی علوم کا رائج نظام اپنے شاگردوں کے اندر دینی علوم کے طلبا کی عظمت، اہمیت اوران کے مقام مرتبے کا احساس اجاگر کرنے اور انہیں ان کی اصل ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے تیار کرنے میں ناکام ہے۔اس بارے میں تجدید فکر و نظر کی ضرورت ہے۔جناب مفتی نے مزید فرمایا کہ مختلف علمی و تربیتی شعبوں میں تخصص اور مہارت مدارس علمیہ کی اہم ضرور ت ہے ۔سطحی معلومات کے بل بوتے موجودہ ترقی یافتہ تخصصی زمانے کے چیلنجز کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ۔
مہمان خصوصی ،جامعہ روحانیت کے صدر حجۃ الاسلام سید احمد رضوی نے’’حوزہ ہائے علمیہ کو درپیش چیلنجز اور ان کے راہ حل ‘‘کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا : تہذیب ِ اخلاق نیزروحانی و معنوی ماحول اور تربیت کا فقدان نیز مادی جاہ و مقام ،ظاہری مراعات اور ڈگریوں کے باعث مروجہ تعلیم کے طلبہ سے فکری طور پر مرعوب وغیرہ ہونا بھی ہمارے بڑے چیلنجز ہیں۔
سابق صدر جامعہ روحانیت حجۃ الاسلام جناب شیخ محمد علی ممتاز صاحب نے موضوع پراظہار خیال کرتے ہوئے کہا : اسلام کے عالمگیر آفاقی نظام کےقیام کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے احساس کا فقدان موجودہ حوزہ ہائے علمیہ کا اہم چیلنج ہے ۔جامع نصاب تعلیم کا فقدان ،مادیات پرستی ، حوزہ ہائے علمیہ سے حصول علم کے بعد معاشرے کی طرف رخ نہ کرنا ، منظم تبلیغی نیٹ ورک کا فقدان ،اقربا پروری اور متعصبانی ذہنیت بھی اہم چیلنجز ہیں۔ علاوہ ازیں معاشرے سے عدم ارتباط، معاشرتی ضروریات کی عدم تکمیل نیز خلوص اور توکل کا فقدان بھی ہمارے علمی مراکز کے آفات ہیں ۔راہ حل پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تربیت کے لئے ماحول فراہم کرنے کی ضرورت ہے ۔
تقریب کے تیسرے مہمان مدیر مدارس معصومین حجۃ الاسلام شیخ ذاکر حسین مدبر نے کہا : ہمارا سب سے بڑا چیلنج دینی تاریخ ،حقیقت ،مقصد اور نصب العین کو فراموش کرنا ہے ۔
اس پر وقار علمی ،فکری اور تعلیمی نشست کے صدر مایہ ناز مترجم اور نامور محقق جامعۃ النجف کے پرنسپل جناب حجۃ الاسلام شیخ محمد علی توحیدی نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا :مسائل کے حل کے لئے سب سے پہلے مسائل اور چیلنجز سے آگا ہ ہونا ضروری ہے ۔انہوں نے اس تقریب کو مفید فکر کشا اور کار کشا قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملت کو در پیش تمام مسائل کے بارے میں اس قسم کی مسلسل فکری، تنقیدی اور تحقیقی نشستوں کی اشد ضرورت ہے تاکہ ان کی روشنی میں ترقی و پیشرفت کی منصوبہ بندی کی جا سکے۔ انہوں نے تمام مہمانوں اور شرکا ء کا شکریہ ادا کیا اور سب کی کامیابی کے لیے دعا کی۔
تقریب کے آخرمیں اسلام کی سربلندی اور استحکام پاکستان کے لیے خصوصی دعا کی گئی ۔