کالمز

ضرب ثقافت 

شکرپڑیاں اسلام آباد میں مادری زبانوں کے عالمی دن کی مناسبت سے ایک دو روزہ میلہ سجایا گیا ۔میلے میں ملک بھر سے 16 مادری زبانوں کے 150 ادیبوں ،شاعروں ،فنکاروں اور دانشوروں نے شرکت کی۔ میلے کی 26 نشستوں میں 150 مقالے پڑھے گئے۔یہ نشستیں لوک ورثہ کمپلیکس کے 3 ہالوں میں صبح 10بجے سے رات 10بجے تک متوازی چلتی رہیں ۔میلے کا انتظام لوک ورثہ اسلام آباد نے انڈس کلچرل فورم اور ایس پی او کے اشتراک سے کیاتھا ۔یوایس ایڈ کے فنڈ سے چلنے والے پاکستان ریڈنگ پراجیکٹ نے بھی تعاون کا ہاتھ بڑھایا۔اس طرح میلہ دو دنوں تک رونق افروز رہا ۔میلے میں کثیر اللسانی مشاعرہ بھی شامل تھا اورآخری رات ثقافتی شو بھی منعقد ہوا۔میلے کی متوازی نشستوں میں اردو، سندھی ،ہند کو ،پشتو،بلوچی،براہوی ،شینا ،کھوار ،بلتی،کشمیری بروشنسکی ،سرائیکی،پوٹھو ہاری ، توروالی، وخی اور ہزارگی سمیت 16 پاکستانی زبانوں کے لوک ادب اور عصری ادبی رجحانات کا جائزہ پیش کیا گیا۔

دو روزہ ادبی میلے کی نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ اس میں بلوچستان،سندھ،پنجاب ،خیبر پختونخوا ،گلگت بلتستان اور قبائلی علاقوں سے تمام زبانوں کی نمائندگی کرنے والے ادیبوں ،شاعروں ،فنکاروں اور ادبی وثقافتی شخصیات کو ایک چھت کے نیچے جمع کیا گیا۔ملک کے اہم اشاعتی اداروں نے کتابوں کے سٹال لگائے تھے۔لوگ ثقافت کی حفاظت کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں اپنے اپنے سٹالوں کے ذریعے ثقافت کے خدوخال کوا جاگرکررہی تھیں ۔یہ سب کچھ دیکھنے اور سننے سے تعلق رکھتا تھا ۔

میلے کی اختتامی نشست میں لوک فنکاروں کے فن کا مظاہرہ ہوا۔اس سے قبل خصوصی اجلاس میں انعامات تقسیم کرنے کی تقریب ہوئی ۔انفارمیشن اور ثقافتی ورثہ کے وفاقی وزیر پرویزرشید مہمان خصوصی تھے۔انہوں نے اپنی تقریر میں وطن عزیز کے دانشوروں پر زور دیا کہ ملک میں بسنے والے عوام کے درمیان ہم آہنگی اور بھائی چارے کو فروغ دینے کیلئے اپنے قلم اور فن کو استعمال کریں ۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے ملک کے قلمکاروں کی حوصلہ افزائی کے لئے ثقافت کے قومی اداروں کوفعال کیا ہے۔ادارے فعال ہو نگے تو قومی ثقافت کو فروع ملے گا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو رنگا رنگ پھولوں کا گلدستہ اسلئے کہاجاتا ہے کہ اس وطن میں قدیم تہذیبیں پروان چڑھیں ۔قدیم زبانوں کو فروخ ملا۔قدیم زبانوں کے لوک ادب میں محبت اور عشق کی داستانیں ہیں ۔یہ ادب ملک کو جوڑنے کا ذریعہ ہیں ۔یہ ادب محبت بانٹنے کا وسیلہ ہیں ۔یہ ادب ملک سے نفرت اور دہشتگردی کا سبب بنے والی بیمارذ ہنیت کو ختم کرنے کا ذریعہ ہے۔ہمیں مادری زبانوں کے لوک ادب پر فخر ہے اور ہماری مادری زبانوں کے لوک شاعر ،ادیب،اور فنکار ہمارے لئے سرمایہ افتخار ہیں۔

لوک ورثہ کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر فوزیہ سعید نے اپنی تقریر میں مادری زبانوں کے عالمی دن کی مناسبت سے دوروزہ میلہ کے اعراض اور مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ بڑے شہروں میں تخلیق پانے والا ادب منظر عام پرآتے ہی میڈیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتا ہے۔اخبارات اور ٹی وی پر آجاتا ہے مگر دور دراز دیہات میں مادری زبانوں میں جو ادب تخلیق پاتا ہے۔وہ میڈیا کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے ۔مادری زبانوں کے شاعر ،ادیب قلمکار اورفنکار میڈیاکی توجہ سے محروم رہتے ہیں۔لوک ورثہ کا قومی ادرہ ملک بھر میں بولی جانے والی 60 سے زیادہ زبانوں میں موجود لوک ادب کی سرپرستی کے لئے شریک کار اداروں کے تعاون سے کام کرتاہے۔ اور دیہات میں چھپے ہوئے جو ہر کو قومی دھارے میں لاکر متعارف کرتا ہے اور ان کے فن کا اعتراف کرتاہے۔مادری زبانوں کا دو روزہ میلہ اس سلسلے کی ایک کاوش ہے۔ جس میں چترال سے لیکر چمن اور گوادر سے لیکر گلگت تک ملک کے کونے کو نے میں مختلف زبانوں اور ثقافتوں کے تخلیق کار جمع ہیں ۔اور ان کی میزبانی کرنا لوک ورثہ کے لئے اعزاز کی بات ہیں ۔لوک ورثہ کے دو روزہ میلے میں مادری زبانوں کے لوک ادب کے ساتھ ساتھ ہم عصر ادبی رجحانات کا بھی جائزہ لیا گیا۔نثری ادب کا بھی جائزہ لیا گیا۔

مشہور براڈکاسٹر ،ادیب شاعر،ثقافتی شخصیت نصیر مرزا نے افتتاحی نشست میں پاکستان کے اندر مادری زبانوں پر توجہ نہ دینے کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ کچھ سندھی ادیب اسلام آباد آرہے تھے۔راستے میں شناختی کارڈچیک کرانے والے سپاہی نے ٹھیٹھ پنجابی میں پوچھا۔یہ کارڈ کس زبان میں بنایا ہے؟دانشور نے جواب دیاسندھی زبان میں بنایا گیا ہے۔سپاہی نے پھر پوچھا سندھی میں کیوں بنایا گیا؟دانشور کو غصہ آیا اس نے کہا میری دعا ہے کہ خدا تجھے اور تیرے بچوں کو بھی ایک دن پنجابی زبان میں لکھا ہو اکارڈ نصیب کرے ۔اس چھوٹے سے واقعے کو بطور مثال پیش کرانے کا مطلب یہ ہے۔کہ مادری زبانوں کے حوالے سے ہماری کوئی قومی پالیسی نہیں ہے۔سندھی زبان 1904ء سے سکولوں کے سرکاری نصاب میں پڑھاتی جاتی ہے۔دفتروں میں استعمال ہوتی ہیں ۔سائن بورڈ سندھی میں لکھے جاتے ہیں ۔اس پالیسی کا تسلسل شناختی کارڈبناتے وقت برقرار رکھا گیا۔پنجابی ملک کی 44 فیصدآبادی کی زبان ہے مگر اس کو مادری زبان کے طور پر وہ حیثیت اب تک نہیں ملی دیگر مادری زبانوں کا بھی یہی حال ہے ۔اگرگریرسن کی تحقیق نہ ہوتی تو اب تک ہماری بیشتر مادری زبانوں کے نام بھی کسی دستاویز میں نہ ہوتے ۔

نامور محقق اور ماہر لسانیات ڈاکٹر طارق الرحمن نے اپنی تقریر میں کہا کہ پاکستان میں 68 زبانیں بولی جاتی ہیں 44 فیصد پنجابی میں ، 20فیصدسندھی ، 15فیصد پشتو اور 10فیصد بلوچی بولتے ہیں ۔اردو بولنے والوں کی تعداد 7فیصد ہے۔دیگر 3زبانوں کے بولنے والے 5فیصد ہیں۔ باقی 60زبانیں ایسی ہیں جن کے بولنے والوں کی آبادی ملک کی آبادی کا 4فیصد ہے۔ملک میں تحقیقی کلچر کی کمی ہے۔تحقیقی اداروں کی کمی ہے۔لسانیات کے علم کو ہماری دانش گاہوں میں بہت کم پزیر ائی ملتی ہے۔اس وجہ سے ہمارے ہاں مادری زبانوں کے ادیب ،شاعر اور فنکار احساس محرومی کا شکار ہیں۔ انڈس کلچر فورم کے نیاز ندیم نے اپنی تقریر میں اس بات کی ضرورت پر زور دیا کہ مادری زبان کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے مادری زبانوں کے دن کو مزید بہتر طریقے سے ہر سال منایا جانا چاہیئے ۔

دوروزہ میلے کا حاصل نصیر مرزا کے ایک جملے کو قرار دیا گیا۔نصیر مرزا نے دلائل کے ساتھ کہا کہ ملک سے نفرت اور دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے ضرب عضب کے ساتھ ساتھ ضرب ثقافت سے بھی کام لینے کی ضرورت ہے۔ضرب عضب دشمن کے ہاتھوں کو کمزور کرتا ہے۔ دشمن کی کمر توڑ دیتا ہے تو ضرب ثقافت سے ہمارے دشمن کا دماغ ٹھکانے آئیگا اور دشمن اپنا راستہ تبدیل کر کے نفرت کی جگہ محبت کو عام کرنے پر لگ جائے گا۔ ضرب ثقافت اور ضرب قلم بھی ضرب عضب کی طرح طاقتور ہتھیار ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button